سیاست بھی کیا شے ہے‘ عجب عجب باتوں پر سمجھوتہ کرنا پڑتا ہے۔ بلاول بھٹو کو کہنا پڑا کہ ہمارے ووٹ کسی نے توڑے نہیں ہیں بلکہ ہمارے سارے امیدواروں نے ٹھیک ٹھیک یوسف رضا گیلانی کو ووٹ دیے ہیں یہ جو سات ووٹوں کا نام پر مہر لگانے کا معاملہ ہے وہ ووٹ ضائع کرنے کے لئے قطعاً نہیں تھا۔ اس لئے ہم جیت گئے ہیں‘ ہمارے امیدوار آخری دم تک ہمارے ساتھ رہے۔ کسی نے ہمیں دھوکہ نہیں دیا۔ وہ اس کے علاوہ کہہ بھی کیا سکتے تھے۔ دوسرا موقف یہ ہے کہ ایسی بات نہیں۔اس بار ووٹروں پر یہ دبائو نہیں تھا کہ وہ مخالف امیدوار کو ووٹ دیں بلکہ اس طرح اپنے ہی امیدوار کے نام پر نشان لگا دیں۔ہم یہ ووٹ مسترد تصور کریں گے اور اس بات کو یقینی بنائیں گے کہ وہ مسترد کر دیے جائیں بعد میں کوٹ کچہری ہم دیکھ لیں گے۔ اس طرح یہ الزام بھی نہیں لگے گا کہ ووٹ خریدے گئے ہیں۔طاقتور مارے بھی اور بولنے بھی نہ دے‘اس کا بالکل ایک نیا مفہوم سامنے آیا ہے اور کیا خوب آیا ہے۔ پھر یہ سات ووٹ ڈپٹی چیئرمین کے عہدے پر مخالف امیدوار کو ڈال کر اصل کھیل میں سمجھا دیا جائے گا۔ دونوں کو سمجھا دیا جائے گا۔ حکومت کو بھی اور اپوزیشن کو بھی۔ سمجھ تو سب کو آ گئی ہے مگر اقرار کرنا کسی کے لئے بھی آسان نہیں ہے۔ حکومت کو بھی معلوم ہو گیا کہ وہ اکیلے کچھ نہیں کر سکتی۔ یوسف رضا گیلانی کے سینیٹر بنتے وقت انہوں نے دیکھ لیا اور سمجھ لیا ۔ یہ پاکستان کی سیاسی تاریخ کا بہت ہی اندوہناک واقعہ ہے۔ صادق سنجرانی نے تین بار سرپرائز دیا۔ پہلی بار تو اس کا کریڈٹ آصف زرداری لیتے رہے۔ دوسری بار وہ ہکا بکا رہ گئے۔ تحریک عدم اعتماد میں بعض لوگ یہی سمجھتے ہیں۔ بعض کہتے ہیں وہ تب بھی گیم کا حصہ تھے اور اب بھی گیم کا حصہ ہیں۔ نہیں ہیں تو ان سے ہاتھ ہو گیا ہے۔اس لئے وہ نیوٹرل نیوٹرل کی رٹ لگاتے رہے جب کہ مسلم لیگ کی قیادت بار بار کہتی رہی کہ اس بات کے شواہد ملے ہیں کہ دخل اندازی شروع ہو گئی ہے۔ میں نے اسی وقت عرض کیا تھا کہ اندرون خانہ بہت کچھ بک رہا ہے۔ تو اس سے کیا معاملات سلجھ جائیں گے۔ میرا پختہ یقین ہے ایسا نہیں ہو گا۔ اس سے اپوزیشن ہی کمزور نہیں ہوئی ہمارے اکڑی گردن والے حکمرانوں کو بھی اندازہ ہو گیا کہ اصل قوت وہ نہیں ہیں۔ اس سے تو معاملات آگے بڑھنا ممکن نہیں ہیں۔قطعاً ممکن نہیں ہیں اور ملک کا چلنا مشکل ہے۔ کبھی بازی پلٹتی ہے یا پلٹتی بھی ہے یا نہیں یہ میں نہیں جانتا۔ کچھ بھی کہہ لیجیے اس طرح ملک نہیں چلا کرتا۔ اس تین چار سال کی کشمکش میں ہم کم از کم پانچ سال بلکہ دس سال پیچھے رہ گئے ہیں۔ اس کا حساب کتاب کئی بار بتا چکا ہوں۔ پھر بھی بتاتا رہوں گا۔ ہم 2025ء یا 2030ء تک جیسے حالات ہوئے وہ ٹارگٹ حاصل کریں گے جو ہم 2020ء میں حاصل کرنے والے تھے۔خدا ہمارے گناہوں کو معاف کرے۔ خدا کی قسم حب الوطنی کے نام پر ہم سے کیا کیا گناہ سرزد ہوئے ہیں۔ اس سے پہلے کہ یہ گفتگو خطبے کی شکل اختیار کرے میں ذرا آپ کو ماضی کی طرف لے جانا چاہتا ہوں۔ جب کراچی میں ملٹری آپریشن کا زمانہ تھا اور ایم کیو ایم طاقت پکڑ رہی تھی تو تمام وفاقی ادارے رابطے میں رہتے تھے۔ میرے نہیں‘پر اس باخبر شخص کے ،جو صورت حال کی نبض پر ہاتھ رکھے ہوتا تھا۔ ایسے ہی ایک موقع پر ایک خفیہ ترین ادارے کے سربراہ نے ایک ملاقات میں پوچھا سندھ کا وزیر اعلیٰ کسے ہونا چاہیے۔عرض کیا کہ ایک تو ظفر حسین شاہ کا چرچا ہے۔ وہ وزیر قانون تھے اور اپنی سنجیدگی کی وجہ سے مشہور تھے۔ عرض کیا یہ اچھا انتخاب ہو گا کیونکہ وہ حدود سے باہر نہیں نکلتے۔مگر ان میں ایک کمی ہے کہ وہ سیاسی جوڑ توڑ کے لئے موزوں نہیں۔بھلے آدمی ہیں۔دوسرا ایک اور نام عرض کیا کہ وہ شریف انسان بھی ہیں اور سیاسی شعور بھی رکھتے ہیں۔ یہ دوسرا نام عطا محمد مری کا تھا ۔ اس اعلیٰ ترین اور حساس ترین منصب پر فائز شخص نے جذبات میں آ کر وہ فائل نکالی جو ان کے درازمیں تھی اور وہ حصہ پڑھنے کو دیا جس میں ظفر حسین شاہ کی نامزدگی کی سفارش کی گئی تھی اور اس بات پر افسوس کا اظہار کیا کہ پہلے ملاقات کیوں نہ ہوئی ،وگرنہ دوسرا نام بھی اس لئے ا ہم ہے کہ ان کی اہل سیاست میں بہت توقیر ہے۔ بہرحال یہ ان کے بارے میں میرا پہلا تاثر تھا کہ ان کے پیچھے کون قوتیں کام کر رہی ہیں۔ اس کا اندازہ مجھے اس طرح بھی ہوا کہ ان کی الیکشن کمپین کے حوالے سے میڈیا کے ایک بہت اہم شخص نے مجھے فون کیا کہ اس کے لئے کچھ کام کر دو۔ میں ان دنوں آسٹریلیا میں تھا جہاں میری اہلیہ پی ایچ ڈی کر رہی تھی۔ یہ اہم شخصیت میری ذاتی دوست بھی تھی اور سندھی اشرافیہ میں بہت قدر و منزلت رکھتی تھی۔ میرا خیال مزید پختہ ہو گیا کہ انہیں آگے کیا جا رہا ہے۔ تیسرا واقعہ بھی مجھے یاد آ رہا ہے۔کراچی ایک بار بڑے زور کا معرکہ ہوا۔ مظفر حسین صدارت کر رہے تھے اور ان کے دائیں بائیں یہ خاکسار اور غازی صلاح الدین تھے۔ این جی او اور سول سوسائٹی کی بحث چھڑ گئی۔ ظاہر ہے غازی صلاح الدین اس کی حمایت میں دلائل دے رہے تھے اور میں نے اسے ایک غیر سیاسی اور غیر انقلابی رویہ قرار دے کر پوسٹ ماڈرن ازم کا شاخسانہ قرار دیا اور تفصیل کے ساتھ عرض کیا کہ اس پورے تصور میں کیا خرابی ہے۔ میں نے اس موقف پر اس طرح اصرار کیا کہ بعد میں غازی صلاح الدین نے جو انتہائی دانشورانہ ذہن رکھتے ہیں کہ میں اس پر ان کے چینل پرمیں ایک مذاکرے میں مین مقرر کے طور شرکت کروں۔خیر مجھے یاد ہے کہ اس مذاکرے میں اگرچہ مظفر شاہ صاحب سول سوسائٹی کے اس امیج کے ہم نوا ہوں گے مگر انہوں نے میری بات کو بھی بہت سراہا کہ یہ نکتہ نظر پہلی بار سامنے آیا ہے اس پر غور ہونا چاہیے۔ یہ تین واقعات میں نے اس لئے بیان کئے کہ بتا سکوں کہ شاہ صاحب کے بارے میں میرا منفی تاثر قطعاً نہیں ہے تاہم جب انہیں پریذائیڈنگ افسر مقرر کیا گیا تو مجھے قطعاََ حیرانی نہ ہوئی کہ یہ کام کس نے کیا ہو گا اور ان سے کیا امیدیں ہوں گی۔ میں اس بارے میں بالکل واضح تھا۔ مگر یہ سوچا بھی نہ تھا کہ ان سے یہ کام لیا جائے گا جو لیا گیا۔ اب تو شاہد خاقان عباسی بھی کہتے ہیں کہ ہم سے غلطی ہوئی کہ ہم نے انہیں پریذائیڈنگ افسر کے طور پر قبول کر لیا۔ جو بھی ہوتا یہی کرتا۔ یہ نہیں کہ ایسی تقرریوں میں کبھی غلطی نہیں کی جاتی بلکہ ایسی تقرریوں کا مقصد پہلے سے عیاں ہوتا ہے۔ اس بار جب ایک وزیر نے دو ٹوک انداز میں کہا تھا کہ ہر وہ حربہ استعمال کیا جائے گا جو جیت کے لئے ضروری ہو گا تو بات واضح تھی۔ جب صبح صبح کیمرے تلاش ہو گئے تھے تو کوئی بات چھپی نہ رہی تھی۔کیمرے ملنے کے بعد آپریشن ختم کر دیا جائے گا۔ یہ ہو نہیں سکتا تھا۔ بہت خوبصورت سکرپٹ ہے۔ یوسف رضا گیلانی کی سینٹ کی نشست‘ پھر چیئرمین کے عہدے پر ہار۔درمیان میں یہ سب واقعات ہیں۔ تاہم دوبارہ عرض کر دوں حب الوطنی کا تقاضا ہے کہ یہ انداز اب ترک ہو جانا چاہیے۔ مزید کچھ نہیں لکھوں گا۔ اب جو کچھ بھی ہو گا وہ ملک کی گاڑی کو پٹڑی پر رکھ نہ پائے گا۔ جمہوریت رہے یا نہ رہے‘ حکومت چلانا مشکل ہو گیا ہے۔ جتنے بھی آپشن آپ سوچ لیں یہ مثبت سمت نہیں بڑھ رہے۔ بہرحال دعا ہے کہ خدا پاکستان کو سلامت رکھے اور ہمیں حب الوطنی کے زعم سے بچائے۔