خلاف توقع یہ بہت ہی اچھا فیصلہ ہے جس کی تعریف اور تحسین کی جانا چاہیے۔ پاکستان کی عسکری تاریخ میں غالباً یہ تیسرا واقعہ ہے، جب بری فوج کے سربراہ کا انتخاب خالصتاً سنیارٹی اور اہلیت کی بنیاد پر کیا گیا ہے‘ بری فوج کی سربراہی کا فیصلہ اکثر اوقات پسند ناپسند‘ کبھی مصلحت اور کبھی دبائو کبھی سیاسی مصالح کے پیش نظر کئے جاتے رہے ہیں‘ اکثر اوقات ایسے فیصلوں کو خمیازہ قوم سے پہلے فیصلہ ساز کو بھگتنا پڑا‘ ایوب خاں کی مدت ملازمت میں توسیع دی گئی اور اس کا صلہ طویل مارشل لاء کی صورت میں ملا ۔اخترملک جیسے پیشہ ور اور قابل جرنیل کو نظرانداز کر کے یحییٰ خاں کو لایا گیا، جس نے آتے ہی اپنے آقا ولی نعمت ایوب خاں کو ٹھکانے لگایا اور پھر ہوس اقتدار میں پاکستان کو دولخت کرنے والا نمایاں کردار بن گیا۔یحییٰ خان کی کوکھ سے بھٹو برآمد ہوئے ،انہوں نے اپنے اقتدار کی طوالت اور قوم کی جمہوری امنگوں اور آزادیوں کو کچل کر ڈکٹیٹر بنے رہنے کی ہوس میں فوج کو استعمال کرنے کی خواہش پالتے ہوئے اپنے تئیں ایک جونیئر اور کمزور جرنیل کی تلاش کی ،اسی کے ہاتھوں پہلے اقتدار اور اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے، مختصر مدت میں واقع ہونے والے بڑے بڑے حادثات سے عبرت حاصل کرنے اور سبق سیکھنے کی بجائے اسے بار بار دہرایا جاتا رہا ،اگلی باری نواز شریف کی تھی، جنہوں نے اپنے عہد حکومت میں سب سے سلیم الفطرت ‘ صاحب مطالعہ پیشہ ور فوجی افسر کرامت جہانگیر سے نبھاہ کرنے کی بجائے ،ان کے ایک صائب مشورے پر ناراض ہو کر ان سے استعفیٰ طلب کر لیا اور ان کی نظر انتخاب پرویز مشرف پر آن ٹکی۔اہلیت اور سنیارٹی کو نظرانداز کر کے کھلنڈرے مشرف کا انتخاب کیا ،پھر جو ہوا ساری قوم کے ساتھ دنیا بھر نے دیکھا ۔نواز شریف دس برس کے لئے دربدر ہوئے ،اگر سعودی حکمران آڑے نہ آ جاتے تو نواز شریف کا انجام بھٹو سے مختلف نہیں تھا ۔دس برس کا دیس نکالا بھی امریکہ بہادر کی سرپرستی اور دو اسلامی ملکوں کی ضمانتوں کے باعث اختتام پذیر ہوا لیکن غیروں کے احسانات کا بدلہ قوم کے اقتدار اعلیٰ کی قربانی کی صورت دینا پڑا۔ سیاست دانوں کی بدقسمتی کہ وہ فیصلے کرتے وقت فوجی افسر کی نفسیات اور اسٹیبلشمنٹ کی کیمسٹری کو کبھی سمجھ نہیں سکے‘ فوج نے سیاست دانوں کو کبھی اپنی حدود میں مداخلت کی اجازت نہیں دی اور سیاستدان اپنی کمزوریاں خود ان کے سامنے کھولتے رہے اور رسوا ہوئے۔ شریف خاندان پاکستان کی تاریخ میں سب سے الگ سب سے جدا ہے۔نیم خواندہ ہونے کے باوجود پاکستان کی تاریخ میں طویل ترین مدت تک اقتدار میں رہنے کا شرف رکھتے ہیں ،بار بار اقتدار سے نکالے گئے لیکن سودا بازی کا ہنر سیاست کے دائو پیج پر غالب رہا ،اس سوداگر سیاسی خاندان کوجو کچھ حاصل ہوا ،وہ فوج کی بدولت ملا ،دولت اور اقتدار بھی۔ ضیاء الحق سے جنرل باجوہ تک 9جرنیل فوج کے سپہ سالار بنے ،ان میں ہر ایک نے ان پر احسانات کئے ،سرپرستی کی، لیکن کسی ایک کے ساتھ ان کی نبھ نہیں پائی ،ہر ایک کے ساتھ لڑائی جھگڑا سرپھٹول ‘ اس کے باوجود کچھ وقت کے لئے ہر ایک کو لبھا لینے کا فن جانتے لیکن مستقلاً بنائے رکھنے کی رسم سے ناآشناء ‘ شریف خاندان کی سیاست و اقتدار اور فوج کے اعلیٰ افسران سے ان کے تعلقات میں اتار چڑھائو نے پاکستان اور اس قوم کو بہت نقصان پہنچایا اور دہائیوں ہیجان میں مبتلا رکھا ہے لیکن حیرت ہے پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ اور شریف خاندان دونوں کی مردم شناسی اور فیصلہ سازی پر ایک سوراخ سے 9بار ڈسے جانے کے بعد دونوں دسویں مرتبہ اسی سوراخ کے گرد بیٹھے ،پھر سے انگلی ڈال کر تجربہ کرنے کو تیار نظر آتے ہیں اور ان کا خیال ہے کہ اب کے نتیجہ مختلف نکلے گا۔ماضی میں جو ہوا سو ہوا لیکن شریف خاندان اپنی سیاست کے اختتام پر ایک اچھا فیصلہ کرنے میں کامیاب رہا ہے۔ جنرل عاصم منیر کو بری فوج کا سپہ سالار اور جنرل شمشاد مرزا کو ترقی دیکر جوائنٹ سروسز چیف کمیٹی کا چیئرمین مقرر کر دیا گیا ہے۔ دونوں لیفٹیننٹ جنرل اپنے ہم منصبوں میں سب سے سینئر تھے اور پیشہ وارانہ امور میں بھی یکتا اور ماہر جنرل عاصم منیر کو عوامی تائید میں اس لئے بھی سبقت ہے کہ وہ دین دار او نظریاتی خاندان کے چشم و چراغ ہیں، فوجی امور میں ان کی مہارت اور دلچسپی اولین دنوں میں یوں ظاہر ہوتی کہ انہوں نے پی ایم اے میں سکینڈ لیفٹیننٹ ہونے کے لئے جسمانی صحت‘ فوجی تربیت اور تعلیمی قابلیت میں نمایاں کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے خود کو اعزازی شمشیر کا حق دار ثابت کیا، اپنی پیشہ وارانہ زندگی اہلیت میں نمایاں اور کردار بے داغ رکھا ،زندگی اہم ترین موڑ پر صبر اور ثابت قدم رہے، اہم ترین منصب حاصل کرنے کے لئے دست تعاون مانگا نہ لابی کرنے کی ضرورت محسوس کی، انہوں نے اپنی محنت اہلیت اور قسمت پر بھروسہ کیا اور کامیاب رہے انہیں جو ملا اپنی محنت قابلیت اور اللہ کی رضا سے حاصل ہوا، وہ کسی کے زیر احسان نہیں ہیں چنانچہ وہ اپنے ضمیر اور ادارے کے سامنے سرخرو ہوئے کسی اضافی بوجھ کے بغیر وہ آزادانہ فیصلے کرنے پر قادر ہونگے۔ اگرچہ ان کی اصل ذمہ داری بری فوج کو ہمہ وقت کسی بھی ہنگامی صورتحال کے لئے تیار رکھا ملکی سرحدوں کی حفاظت اور قوم کی آزادی اور اقتدار اعلیٰ کی حفاظت کے لئے تیار رہنا ،دشمن پر نظر رکھنا ،ان کی تیاریوں اور چالوں سے باخبر رہتے ہوئے مقابلے کے لئے خود کو تیار رکھنا ہے، پاکستان کی افواج کو اپنے استعداد وسائل سے بڑھ کر ذمہ داریاں ادا کرنا پڑتی ہیں ،پاکستان کا جغرافیہ اور قوم کی جانبازی نے اسے دنیا بھر میں اہم مقام عطا کر رکھا ہے ،یہی اہمیت انہیں بڑے خطرات سے دوچار رکھتی ہے، سمندر ہو فضا یا خشکی پاکستان اہم ترین گزرگاہ پر واقعہ ہے، دنیا کی تین بہت بڑی عالمی طاقتیں ہمیں تین طرف سے گھیرے ہوئے ہیں ،اس جغرافیائی اہمیت کی وجہ سے پاکستان بننے سے پہلے بھی عالمی طاقتوں کی ہوس بھری نظروں میں تھا اور الگ ملک بننے کے بعد براہ راست عالمی طاقتوں کی سازش سے براہ راست خوفناک جنگ اور دہشت گردی کا شکار رہا ہے ۔پہلے سوویت یونین پھر امریکہ تیس برس تک ان دو عالمی طاقتوں نے خطے میں قدم جمانے اور زیر کرنے میں صرف کر دیے ،خدا خدا کر کے انہیں خطے سے دور کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں لیکن اپنے مشرقی ہمسائے کا کیا کریں ،جو رقبے آبادی اور وسائل میں ہم سے چھ گنا ہے اور ہر دن ہمیں اس کی طرف سے ہوشیار اور تیار رہنا پڑتا ہے، مختصر تاریخ تین جنگیں اس کے خلاف لڑ چکے ہیں اور درجنوں مرتبہ جنگ ہوتے ہوتے رہ گئی آدھا ملک اس کی سازش اور جارحیت کی وجہ سے ہم گنوا چکے ہیں، اس پر بس نہیں ،ہمارے بے شمار نظریاتی حریف ہیں ،جو اس کی پیٹھ ٹھونکتے اور پاکستان پر چڑھ دوڑنے کی ترغیب دیتے ہیں۔ہماری فوج کا بنیادی کام ان بیرونی خطرات سے ملک و قوم کی حفاظت کرنا ہے ۔بدقسمتی سے ہمارے بعض سپہ سالار اپنے منصبی فرائض سے عہدہ برآ ہونے کی بجائے سیاست و اقتدار کا شوق بھی پالتے ہیں اور ہمارے سب سے اہم طاقتور اور قابل احترام ادارے کو اپنے منصبی جلال کی وجہ سے ذاتی مقاصد کا آلہ کار بنانے کی کوشش میں مصروف رہتے ہیں ،نئے منصب داروں کو اپنے ادارے کے وقار اور مورال کو نہ صرف بحال کرنا ہے بلکہ خود پر عوام کے اعتماد کو جینے کا فرض بھی ادا کرنا ہے۔