حضرت سیدہ ام رومان بنت عامر کا نام’’ زینب بنت عامر‘‘ تھا۔سلسلہ کوہ سروات میں متولد ہوئیں۔قبیلہ کنانہ کے خاندان فراس سے تعلق تھا۔زمانہ جاہلیت میں ان کی شادی عبداللہ بن حارث بن سنجرہ سے ہوئی۔ان سے ام رومان کے ایک صاحبزادے طفیل پیدا ہوئے ۔ عبداللہ بن حارث مکہ معظمہ میں رہائش کے خواہشمند تھے اور وہاں کے دستور کے مطابق کسی کو حلیف بنانا ضروری ہوتا تھا،اس طرح وہ شخص اپنے حلیف کے حوالے سے پہچانا بھی جاتا تھا اور لوٹ مار کی آفتوں سے بھی محفوظ رہتا تھا اس مقصد کے لیے ان کی نظر انتخاب سیدناابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ پہ پڑی اور انہیں درخواست پیش کی، سیدنا صدیق اکبررضی اللہ عنہ نے ان کی درخواست کو قبول کرتے ہوئے انہیں اپنا حلیف بنایا۔ حلیف بنانے کے بعد عبداللہ نے اپنی زوجہ ام رومان اور بیٹے طفیل سمیت مکہ میں رہائش اختیار کی۔ عبداللہ بن حارث کی وفات کے بعد سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے عبداللہ کی بیوہ ام رومان اور ان کے بیٹے طفیل کو بے امان نہ چھوڑا بلکہ ان سے شادی کر کے مضبوط پناہ گاہ مہیا کی اور ان کے بیٹے طفیل کو اپنے بچوں کے ساتھ اپنی محبتوں اور شفقتوں کی چھائوں میں پالاحضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے ان کے ہاں دو اور بچے عبدالرحمن اور سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہ متولد ہوئے ۔ سیدناابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ نے اسلام قبول کرنے کے بعد گھر میں تذکرہ کیا تو یہ سعادت مند خوش نصیب خاتون نے بلا تامل و بلا توقف اسلام قبول کر لیا،یہ وہ عالی مرتبت خاتون ہیں جن کا شمار السابقون الاولون کے خوش بخت قافلے میں ہوتا ہے ,سیدہ عائشہ فرماتی ہیں کہ’’میں نے اپنے بچپن سے ہی اپنے والدین کو صاحب ایمان دیکھا ہے ‘‘۔ نہ صرف ان کا شمار السابقون الاولون میں ہوتا ہے بلکہ ان کے تینوں بچے طفیل، عبدالرحمن اور سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہاعالی قدر ذی مرتبت صحابہ میں شامل ہیں۔ان کا پورا گھرانہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پہ جان و مال نچھاور کرنے کو ہر دم تیار رہا، جو قدر ومنزلت ان کے گھرانے کو نصیب ہوئی وہ پھر کسی اور خاندان کی قسمت میں نہ آئی۔اس سے بڑھ کے ان کی خوش بختی اور کیا ہوگی کہ یہ خود خلیفہ اول، رازدار رسول کی زوجہ ہیں اور ان کی چھوٹی لاڈلی ذہین صاحبزادی عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سرور کائنات کی محبوب زوجہ اور قیامت تک کے مومنین کی ماں ہیں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ ان کی مدائمی مصاہری رشتہ داری ہے ۔ حضرت ام رومان بہت زیادہ سمجھدار، زیرک، ہمدرد اور مسلمانوں کی مونس و غم خوار خاتون تھیں۔مکہ میں مسلمانوں کو اذیت اور مصائب کی چکی میں پستے دیکھ کر رنجیدہ ہو جاتیں ،اپنے رفیق حیات کو مسلمانوں کی مدد کرتے دیکھنا ان کی طمانیت قلب کا باعث ہوتا خود بھی یہ غمزدہ و تکلیف میں مبتلا مسلمانوں کی جس حد تک مدد کر سکتیں،کرتی تھیں چاہے اچھے اور ہمدردی کے بول کے ذریعے ہی کرتیں۔ اپنے رفیق حیات کو خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ دیکھ کے بہت خوش ہوتیں اور جب سرور کائنات ان کے گھر تشریف لاتے تو آپ کی خدمت میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہ کرتیں۔ اپنے رفیق حیات کے ساتھ ہر ہر مرحلے اور ہر ہر قدم پہ وفاداری اور اسلام کے مکہ میں آزمائش و ابتلاء کے دور میں رازداری وتعاون کو بھرپور نبھایا،جب حضرت ابوبکر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ ہجرت فرما گئے پورے مکہ کے ظالموں کی نظریں آپ کے گھر پہ تھیں لیکن سلام ہے اس بلند ہمت خاتون پہ جن کے پایہ استقلال میں کہیں لغزش نہیں آئی اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا راز ان کے گھر سے باہر نہیں نکلنے پایا۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے مدینہ بخیر پہنچنے کے بعد عبداللہ بن اریقط دوئیلی اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے زید بن حارثہ کو اونٹ اور درھم دے کر اپنے خاندان کی خواتین کو مکہ سے مدینہ لانے کے لیئے بھیجا ,اس طرح یہ سب اکٹھے بخیر و عافیت مدینہ پہنچے ۔ ام رومان کے لیئے یہ بات بہت خوشی کا باعث تھی ان کی لاڈلی بیٹی سیدہ عائشہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبوب اور تمام ازواج میں زیادہ قدرو منزلت کی حامل ہیں, واقعہ افک میں ان کی سمجھداری و دانشمندی ابھر کر سامنے آئی کہ انہوں نے اس سخت وقت میں باوجود غم و پریشانی کے اپنی ہمت و حوصلے کو ٹوٹنے نہیں دیا بلکہ اپنی صاحبزادی کو بھی ہلکے پھلکے انداز میں سمجھایا کرتیں کہ’’جب کوئی لڑکی خوبصورت ہو, اپنے شوہر کے نزدیک محبوب ہو اور اس کے سوتنیں بھی ہوں وہاں لوگ ایسی باتیں بنانے کے مواقع تلاش کرتے رہتے ہیں،غم نہ کرو سب ٹھیک ہو جائے گا‘‘۔ان الفاظ کے ذریعے وہ اپنی صاحبزادی کے سامنے معاملے کی گھمبیرتا کو نہ صرف ہلکا کرنے کی کوشش کرتیں بلکہ یہ بھی بتانا چاہتیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبوب زوجہ ہیں آپ غم نہ کریں اللہ اچھا سبب بنائے گا۔اس آزمائش کی کٹھن گھڑی میں آپ نے ایک بیدار مغز ہمدرد و سمجھدار ماں اور غمگسار بیوی کا کردار نبھا کے اپنے خاندان کو حوصلے تسلی اور دلاسے سے سنبھالے رکھا۔آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو آپ کی فہم و فراست پہ پورا بھروسہ تھا حضرت عائشہ رضی اللہ عنہاسے کوئی نجی معاملہ در پیش ہوتا تو آپ انہیں اپنے والدین سے مشورے کا کہتے ,صرف والد کا نام نہ لیتے بلکہ والدین کا فرماتے جس میں والدہ بھی ساتھ شامل ہوتی ہیں۔ ابن حجر عسقلانی کے مطابق ام رومان کی وفات آٹھ ہجری میں ہوئی، ان کی وفات کا سانحہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لیئے غم اندوہ کا باعث رہا،ان کا شمار ان تین خوش نصیب خواتین میں سے ہے جنہیں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خود اپنے مبارک ہاتھوں نے قبر میں اتارا اور دعاء مغفرت کی۔آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا’’اے اللہ تجھ پہ مخفی نہیں جو ام رومان کو تیری راہ میں مشکلات اٹھانی پڑیں‘‘(سیر اعلام النبلائ)یہ بھی ارشاد فرمایا’’جسے جنت کی حور کو دیکھنا پسند ہو وہ ام رومان کو دیکھ لے ‘‘(طبقات ابن سعد)آخر یہ ہمدرد، زیرک، دانشمند، سمجھدار، عبادت گزار، غار یار کی رفیقہ حیات اس دار الفناء سے دار البقاء کی طرف روانہ ہوئیں۔ اللہ ان سے راضی ہو اور ان پہ اپنی کروڑوں رحمتوں کا نزول فرمائے ۔آمین