ہمارے معاشرے میں گھر کو ہزاروں سال سے مرکزی حیثیت حاصل رہی ہے۔ یہ نہ صرف تحفظ کی علامت سمجھا جاتا ہے بلکہ اپنا گھر عام آدمی کا خواب، اس کی خواہش، اور اس کا غرور بھی متصور ہوتاہے۔ ہم سب نے کوے اور ہنس کا وہ قصہ سنا ہے جس میں کوا ہنس کا مہمان بنتا ہے لیکن اس کا ہنس کے ہاں دل نہیں لگتا اور وہ گھر کی یاد میں اداس رہتا ہے۔ ہنس اس بات پر تعجب کا اظہار کرتا ہے کہ اس نے مہمان نوازی میں کوئی کسر نہیں چھوڑی پھر بھی کوا اتنا اداس کیوں ہے۔ کوا ہنس سے اظہار کرتا ہے کہ وہ گھر سے دوری کی وجہ سے پریشان ہے۔ یہ سن کر ہنس کے دل میں شوق پیدا ہوتا ہے کہ وہ دیکھے کہ کوے کا گھر کتنا عالیشان ہے جو اس کا دل یہاں نہیں لگ رہا۔ کافی سفر کے بعد جب دونوں دوست کوے کے گھر میں پہنچتے ہیں تو ایک کیکر پر چند خشک تنکوں کا گھونسلہ دیکھ کر کوے کی آنکھوں میں چمک پیدا ہوتی ہے اور وہ اطمینان کا سانس لیتا ہے۔ ہنس کو احساس ہو جاتا ہے کہ یہ طمانت اسی وقت آ سکتی ہے جب آپ اپنے گھر میں ہوں جو آپ کے لیے تحفظ کا ضامن بھی ہے۔ اپنا گھر بنانے کی خاطر لوگ نسلیں گزار دیتے ہیں لیکن کامیابی حاصل نہیں ہوتی۔ دنیا بھر کے ادب میں جابجا شعراء اور ادباء نے گھر کا حوالہ دے کر اپنے جذبات کی عکاسی کی ہے۔ ظفر گورکھپوری کا ایک شعر ہے: اک ایسا گھر چاہیے مجھ کو، جس کی فضا مستانہ ہو اک کونے میں غزل کی محفل، اک کونے میں میخانہ ہو نامور امریکی ادیب پیرس براؤن نے اپنی کتاب گولڈن سن میں گھر کے بارے میں یوں لکھا ہے: گھر وہ جگہ نہیں ہے جہاں سے آپ ہیں، یہ وہ جگہ ہے جہاں آپ کو ضرورت پڑنے پر اندھیرے میں بھی روشنی ملتی ہے۔ اسی طرح مرزا غالب کا ایک شعر یوں ہے: ہوا ہوں عشق کی غارت گری سے شرمندہ سوائے حسرت تعمیر، گھر میں خاک نہیں معروف امریکی شاعرہ مایا اینجلو نے گھر کے محفوظ ہونے کے حوالے سے اپنی کتاب آل گوڈز چلڈرن نیڈ ٹریولنگ شوز میں لکھا: گھر کا درد ہم سب میں رہتا ہے۔ وہ محفوظ جگہ جہاں ہم جاسکتے ہیں اور جہاں ہماری پوچھ گچھ نہیں کی جاسکتی ہے۔ یہ اشعار اور اقوال آج بھی اتنی ہی اہمیت رکھتے ہیں جتنی کے اپنے لکھے گئے وقت پر رکھتے تھے۔ فرق یہ پڑا ہے کہ اب عام آدمی کے لیے گھر بنانا جوئے شیر لانے کے مترادف ہو گیا ہے۔ ہمارے یہاں کسی بھی شخص کے لئے پیسے کما کر گھر بنانا اتنا ہی مشکل ہے جتنا پارلیمنٹ سے نئی ترمیم پاس کروانا۔ مہنگائی اور بے روزگاری نے لوگوں کے حالات کو اس نہج پر پہنچا دیا ہے کہ دو وقت کی روٹی میسر ہونا بھی غنیمت ہے۔ پانچویں صدی قبل مسیح میں گوتم بدھ نے اپنا بسا بسایا گھر اور عیش و عشرت والی زندگی ترک کر دی تھی۔ اسی طرح کا واقعہ ہمارے بزرگ ابراہیم بن ادھم کے ساتھ بھی منسوب ہے۔ لیکن چونکہ ہم عظیم گوتم بدھ کے حاصل کردہ نروان کی سطح تک نہیں پہنچ سکتے اور نہ ہی حضرت ابراہیم بن ادھم کی طرح اپنے نفس کو مار سکتے ہیں، لہذا ہمارے لئے اپنا گھر اور دو وقت کی روٹی کا میسر ہونا اتنے ہی ضروری ہیں جتنا کہ ملکہ قلوپطرہ مارک انٹونی کے لیے ضروری تھی۔ یہ علیحدہ بات ہے کہ دونوں نے خودکشی کرلی تھی۔ ہمارا عام آدمی روٹی اور گھر میسر ہونے پر خدا کا شکر بجا لائے گا، خودکشی شاید وہ کسی اور وجہ سے کرلے۔ ماضی میں بڑے لوگ لمبا عرصہ گھر سے بغرض سفر یا کسی اور مقصد کے لیے نکل جایا کرتے تھے اور انہیں پرواہ نہیں ہوتی تھی کہ وہ کہاں رہیں گے۔ سکندر اعظم کئی سال تک جنگ لڑتا رہا اور کسی بھی جگہ پڑاؤ ڈال کر اپنی فوج سمیت وہاں خیمہ زن ہو جایا کرتا تھا۔ چنگیز خان اور نپولین بونا پارٹ کی افواج بھی رستے میں آنے والے کسی بھی مقام کو اپنا گھر خیال کرلیا کرتی تھیں۔ مگر اب ایسا نہیں ہو سکتا۔ آبادی ہی اتنی ہو چکی ہے کہ اگر اب آپ گھر سے لمبے عرصے کے لیے باہر جائیں تو گھر پر یا تو قبضہ ہو چکا ہوگا یا پھر وہاں بھوت پریت آبسیں گے۔ آخر انہوں نے بھی تو کہیں رہنا ہے۔ آج کے دھوبی کے کتے کو بھی گھاٹ ہی پر گزارا کرنا پڑتا ہے کیونکہ گھر تو بیچارے دھوبی کے پاس بھی نہیں رہا۔ ایک سال قبل جب عمران خان نے عام آدمی کے لیے گھر بنانے کا اعلان کیا تو عجیب نہیں لگا۔ یہ وہ وعدہ ہے جو 1947 ء سے لیکر اب تک تقریبا ہر سیاست دان عوام سے کرتا آ رہا ہے۔ لوگ بھی اتنے سادہ ہیں کہ ہر بار اس دام میں آ جاتے ہیں۔ با حلوا حلوا گفتن دان شیرین نمی شود، وعدے تو کیے لیکن کسی بھی سرکار نے عام آدمی کے لیے گھر مہیا کرنے کا وعدہ وفا نہیں کیا۔ بقول غالب تمہیں کہو کہ گزارا صنم پرستوں کا بتوں کی ہو اگر ایسی ہی خو، تو کیوں کر ہو چند روز قبل جب موجودہ حکومت کی طرف سے اعلان ہوا کہ موجودہ مالی سال میں نیا پاکستان ہاؤسنگ منصوبہ کے لیے 18 ارب روپے کی خطیر رقم مختص کر دی گئی تو یقین نہیں آیا کہ تحریک انصاف نے اپنے منشور کے مطابق عام آدمی کو گھر کی فراہمی کے لیے پہلا قدم اٹھا لیا ہے۔ پھر جب معلوم ہوا کہ اس ضمن میں کنسٹرکشن انڈسٹری کے لیے ایک بڑے ریلیف پیکج کا اعلان بھی کر دیاگیا ہے، تو حوصلہ ہوا کہ شاید یہ کرکٹر وزیراعظم ہی عوام کے لیے سکھ کا سانس لینے کا سبب بن جائے۔ بسکہ دشوار ہے ہر کام کا آساں ہونا، مگر وفاقی حکومت کو عام آدمی کے زخموں پر مرہم رکھنے کے لئے یہ منصوبہ جلد از جلد مکمل کرنا ہوگا وگرنہ لوگوں کا سیاستدانوں سے اعتبار اٹھ جائے گا۔ پھر چاہے صدارتی ہو یا پارلیمانی، نظام سے کسی کو غرض نہیں ہوگی۔