قبول اسلام سے پہلے حضرت جویریہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا نام’’برہ‘‘تھا،آپ قبیلہ بنو مصطلق کے سردار حارث بن ابو ضرار کی شہزادی تھیں، آپ کا نکاح مسافح بن صفوان نامی شخص سے ہوا تھا،آپ کے والد اور شوہر دونوں اسلام کے سخت دشمن تھے ،ایک مرتبہ دونوں نے مدینہ طیبہ پر چڑھائی کا ارادہ کیا جس کے لیے انہوں نے کثیر تعداد میں فوج بھی جمع کر لی،جب اس کی خبر حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ہوئی توآپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت بریدہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بھیج کرخبر کی تصدیق فرمائی اور اصحاب کرام کو جمع فرما کر جنگ کی تیاری کا حکم دیا،میدان جنگ کے لئے میدان ’’مریسیع‘‘نامی جگہ طے پائی جو مدینہ طیبہ سے تقریبا 90میل کی دوری پر واقع ہے ۔اس جنگ میں حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اپنا قائم مقام مقرر فرما کر بذات خود بھی حضرت عائشہ اورام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہما کے ساتھ شرکت فرمائی۔مسلمانوں کے لشکر نے کفار پر اچانک حملہ کیا جس کی تاب نہ لا کر کفار کومنہ کی کھانی پڑی،جس میں گیارہ افراد قتل ہو ئے اور مابقیہ افراد بشمول اموال کے قید کر لیے گیے ،جس میں حضرت جویریہ کے خاندان کے تمام افراد اسیری کے شکار ہو گئے تھے ۔ قید ہونے کے بعد تقسیم کے وقت آپ حضرت ثابت بن قیس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے حصہ میں آئیں،چونکہ آپ ایک شہزادی تھیں اس لیے اسیری کی زندگی آپ کے لیے ایک مشکل امرتھی،آپ نے حضرت قیس سے 90اوقیہ پر بدل کتابت کروا لی،بدل کتابت تو ہوگئی لیکن متعینہ رقم کی ادائیگی ایک مشکل امر تھی کیونکہ خاندان کے تمامی افراد مقید تھے ، آپ زر مکاتب کی ادائیگی کے لیے تعاون کے سلسلہ میں حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہوئیں اور اور تعاون کی پیش کش کی ،اس پر حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا’’آپ کے ساتھ اس سے بہتر سلوک کروں تو آپ اس کو قبول فرمائیں گی ؟آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے عرض کیا’’یا رسول اللہ اس سے بہتر سلوک کیا ہوسکتا ہے ؟‘‘،حضورصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا’’میں یہ چاہتا ہوں کہ بدل کتابت کی رقم ادا کرکے آزاد کردوں پھر میں خودآپ سے نکاح کرکے آپ کے خاندانی عزت و شرافت کو عروج بخش دوں‘‘یہ سن کر آپ کی مسرت وشادمانی کی کوئی انتہا نہ رہی اورخوشی بخوشی آپ نے یہ اعزاز قبول کیا،چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے رقم ادا فرماکر آزاد فرمایا اور ازواج مطہرات میں شامل فرما کر ’’ام المومنین‘‘کے دائمی عز وشرف سے سرفراز فرمایا۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا بیان ہے میرے قبیلے میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آمدسے ۳دن قبل میں نے ایک خواب دیکھا تھا کہ مدینہ کی جانب سے ایک چاند چلتا ہوا میری گود میں آ پہنچا،میں نے اس خواب کا تذکرہ کسی سے نہیں کیا لیکن جب سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے میرا عقد ہوا تو میں سمجھ گئی کہ خواب کی یہی تعبیر ہے ۔ جب اصحاب کرام کو اس بات کا علم ہوا کہ آپ ’’ام المومنین‘‘کے تاج سے سرفراز ہوگئی ہیں تو قبیلہ بنو مصطلق کے تمام لوگوں کوآزاد کردیا گیا اس لیے کہ اب وہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سسرالی رشتہ دار بن گئے تھے ۔روایات میں آتا ہے کہ پورا قبیلہ مشرف باسلام ہوگیا تھا،اسی لیے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ ’’ہم نے کسی عورت کو نہیں دیکھا جو اپنی قوم کے لیے اس سے زیادہ برکت کا باعث بنی ہو جتنی کہ حضرت جویریہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا اپنی قوم کے لیے بنیں۔ بعد نکاح قبیلہ بنومصطلق کے تمام قیدیوں کو رہائی بھی ملی اور عقیدہ توحید سے ہم کناری بھی،خود آپ رضی اللہ عنہا کا سلوک یہ رہا کہ آپ کے والدین بارگاہ نبوی میں حاضر ہوکر عرض گزار ہو ئے ’’یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قوم کے سردار کی بیٹی کو باندی بنانااچھی بات نہیں، لہٰذا آپ اسے آزاد فرما دیں‘‘،حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ میں معاملہ اس کے اختیار پر چھوڑتا ہوں،چاہے تو رہے اور چاہے تو آپ کے ساتھ جائے ۔جب آپ کے والدین نے آپ سے گفتگو کی تو آپ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی معیت کو والدین پر ترجیح دی۔ کتب تواریخ وسیر میں یہ حقیقت شعاع شمس کی طرح منورملے گی کہ جس طرح دیگر امہات المومنین کچھ شرعی قانون کے نزول ونفاذ کاسبب بنیں اسی طرح حضرت جویریہ رضی اللہ عنہا کے ذریعہ بھی امت مسلمہ کو کچھ قوانین عطا ہو ئے ،مثلا:ایک مرتبہ صبح کے وقت حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آپ کے حجرہ میں تشریف لا ئے تو دیکھا کہ آپ مصروف عبادت ہیں،چاشت کے وقت آپ پھر تشریف لا ئے تو پھر اسی حالت میں پایا،آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت جویریہ سے فرمایا’’کیا تم صبح سے ہی اسی طرح مصروف عبادت ہو؟جواب اثبات میں ملا۔حضورصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ’’میں نے یہاں سے جانے کے بعد۴کلمات ادا کیے اگر ان کا وزن تمہارے اوراد کے ساتھ کیا جا ئے توتمہارے اوراد سے بھاری نکلیں گے وہ کلمات یہ ہیں ’’سبحان اللہ وبحمدہ عدد خلقہ،ورضی نفسہ،وزنۃ عرشہ، ومدادکلماتہ‘‘ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہاسے سبب امت مسلمہ کو نفلی روزے کے متعلق بھی ایک حکم ملا:ایک مرتبہ جمعہ کے دن آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہا روزہ ر کھے ہوئی تھیں،حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا ’’کل تم نے روزہ رکھا تھا؟‘‘ جواب ملا’’نہیں یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم‘‘،پھر فرمایا’’کل رکھنے کا ارادہ ہے ’’عرض گزار ہوئیں ’’نہیں یارسول اللہ ‘‘،سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا توآج بھی افطار کرلو‘‘(حدیث) اس حدیث پاک سے معلوم ہوا کہ صرف جمعہ کے دن اکیلا روزہ رکھنامنع ہے جیسا کہ اس کی وضاحت حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خود فرمائی’’تم میں سے کوئی جمعہ کے دن روزہ نہ رکھے !اگر رکھنے کا ارادہ ہو تو اس سے پہلے یا اس کے بعد بھی ایک دن روزہ رکھے ‘‘ (ماخذو مراجع :اسد الغابہ، الاصابہ ،طبقات ابن سعد ،کتب احادیث)