میرا ہمیشہ سے یہ عقیدہ رہا ہے کہ پاکستان کے قیام میں عالمی اشرافیہ کی خواہشوں کی حکمت عملی اور مفروضے سے قطع نظر اس ملک کی تشکیل میں ایک سیاسی رہبر قائد اعظم محمد علی جناح،ایک سیاسی جماعت مسلم لیگ اور پرنٹ میڈیا (مختلف اخبارات) نے اہم کردار ادا کیا تھا۔ قائد اعظم محمد علی جناح تحریک آزادی کو کامیابی سے ہم کنار کرنے کے لیئے اخبارات کی اہمیت کو مسلمہ قرار دیتے تھے ، یہی وجہ ہے کہ جب تحریک پاکستان بام عروج پر تھی تو انہوں نے بعض اخبارات کے اجراء میں ذاتی دلچسپی لی اور انہیں مقبول عام بنانے میں کوششیں بھی بروئے کار لائے۔ قائد اعظم محمد علی جناح کے انتقال پرملال کے بعد اس ملک میں جو سلوک اخبارات کے ساتھ روا رکھا گیا وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں بلکہ فوجی اور سول آمریتوں میں پرنٹ میڈیا کو دیوار سے لگانے یا صفحہ ہستی سے مٹانے کے لیئے کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیا گیا۔ اخبارات کسی بھی معاشرے کے اچھے برے کا عکس ہوتے ہیں، یہ اور بات ہے کہ اپنے کالے کرتوتوں کو عوام سے مخفی رکھنے کے لیئے پاکستان کی حکومتوں اور حکمرانوں نے کبھی اخبارات پر سینسر شپ عائد کی، کبھی اشتہارات کو بطور ہتھیار استعمال کیا، کبھی دھونس اور دھاندلی سے مالکان اخبارات اور اخباری کارکنوں کو جھکانے کی کوششیں کیں اور مقدمات بنانے سے بھی گریز نہیں کیا۔ پاکستان میں اس وقت اخبارات، جرائد اور ٹی وی چینلز کو جس قدر لولہی لنگڑی آزادی حاصل ہے، یہ کسی حکومت یا حکمران نے تھالی میں سجا کر پیش نہیں کی یا ترس کھا کر خیرات میں نہیں دی، اس آزادی کے پیچھے اخبارات کے مالکان خاص طور پر عامل صحافیوں اور ان کی تنظیموں کی قربانیاں اور طویل جدوجہد کار فرما ہے۔ یہ منفرد ملک ہے جہاں آزادی اظہار اور آزادی صحافت کے لیئے صحافیوں نے پیٹھ پر کوڑے کھائے، قیدوبند کی صعوبتیں برداشت کیں اور جیلوں میں سڑتے رہے۔ جنرل ایوب خان کے دور سے لے کر جنرل مشرف کے دور آمریت تک کوئی ایسی سول یا فوجی حکومت نہیں تھی جس نے حق گوئی کی پاداش میں صحافت اور اہل صحافت پر ستم نہ ڈھایا ہو لیکن جو سلوک ماضی میں پرنٹ میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا کے ساتھ روا رکھا گیا اس کی پچھتر برسوں میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ پاکستان کے بائیسویں وزیر اعظم عمران خان کا 18 اگست 2018ء سے 10 اپریل 2022ء تک 1350 روز پر محیط اقتدار چینلوں بالخصوص اخبارات اور اخباری کارکنوں کے لیئے بھیانک ثابت ہوا۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ میں آزاد میڈیا کبھی بھی کسی سے برداشت نہیں ہوا، سیاسی طور پر پریشان حال عمران خان نے تو آزاد اور بے باک میڈیاکاسامنا کرنے کے لیئے ذرا سی بھی برداشت کا مظاہرہ نہیں کیا۔ وہ جب اقتدار میں آئے تو ملک کا میڈیا ان کی ستم ظریفی کا سب سے پہلا شکار ہوا، ان کے دو وزرا چوہدری فواد حسین اور شبلی فراز نے الیکٹرانک اور پرنٹ میڈا کا ناطقہ بند کر کے رکھ دیا تھا، فواد تو آپے سے باہر دکھائی دیئے جو موبائل ہاتھ میں پکڑ کر پھبتیاں کستے کہ کون سا الیکٹرانک میڈیا، کون سا پرنٹ میڈیا، اب تو یہ(موبائل) میڈیاہے۔ یہ گستاخی ایسے لوگوں کے سامنے کی کہ جنہوں نے اپنی زندگیاں آزادی صحافت کے مشن پروار دی تھیں۔یہی میڈیا تھا جو ایک کرکٹر کو پاکستان میں اقتدار میں لانے کا سبب بنا اور جب عمران خان برسراقتدار آ گئے تو انہوں نے سب سے پہلے ذرائع ابلاغ کو اپنی اوقات یاد دلانے کی ٹھان لی۔ عمران خان اپنی طرح کے ایک اشرافیہ مخالف گھمنڈی رہنما کے طور پر ابھر کر سامنے آئے تھے کہ جو اپنی منزل کی راہ میں کسی کو بھی برداشت کرنے کے حوصلے سے محروم تھا۔ اپنے جارحانہ سیاسی رویے کی وجہ سے ان کے لیئے ممکن نہیں تھا کہ وہ کبھی بھی اقتدار کے سنگھاسن پر رونق افروز ہوتے لیکن یہی پاکستانی میڈیا ہے کہ جس نے عمران خان کو زمینی حقائق کے مطابق پاکستان میں سیاست کرنے اور حقیقی سیاسی قدرت رکھنے والی اشرافیہ کی آنکھوں کا تارہ بننے میں مدد فراہم کی۔ اقتدار میں آنے کے بعد عمران خان یکسر مختلف انسان نکلے اور انہوں نے مسند اقتدار سنبھالتے ہی ذرائع ابلاغ بالخصوص اخبارات کے خلاف محاذ آرائی کو شغل بنا لیا۔ اخباری صنعت سے ہزاروں خاندانوں کا رزق جڑا ہوا تھا، عمران خان کی میڈیا پالیسیوں کی وجہ سے ان کے اقتدار کے پہلے چار پانچ مہینوں میں ہی اگست سے دسمبر 2018 ء تک تقریبا 25 ہزار کارکن روزگار سے محروم کر دیئے گئے اوردرجنوں اخبارات اور جرائد راتوں رات بند کر دیئے گئے۔ ان میں سے اسی فیصد کارکن وہ تھے جن کا یہ واحد وسیلہ روزگار تھا،ان کی ماہ وار تنخواہ بھی تیس سے ساٹھ ہزار سے زیادہ نہ تھی اور وہ کرائے کے گھروں میں رہتے تھے، یوں چند مہینوں میں الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا سے وابستہ ہزاروں خاندان سڑکوں پر آ گئے۔عمران حکومت نے اشتہاری مٹھی بند کر لی تو مالکان نے بڑے نقصان سے بچنے کے لیئے اخبارات و جرائد بند کرنے اور کارکنوں کو گھر بھیج کر بچت کرنے کی پالیسی اپنا لی۔ عمران خان کے برعکس موجودہ حکومت کو میڈیا دوست سمجھا جاتا تھا،آزادی صحافت پر قدغن کے کئی اعلانیہ غیر اعلانیہ حملوں کے باوجوداس نے بڑے فیاضی کا مظاہرہ کیا اور بعض مخصوص صحافتی اداروں اور صحافیوں کو خوب نوازا لیکن حالیہ حکومت نے ملک بھر کے سرکاری دفاتر میں اخبارات و جرائد کی ترسیل بند کر کے اخباری صنعت پر جو شب خون مارا ہے یہ آزادی صحافت، اخباری صنعت اور زوال پذیر معاشرے کے تابوت میں آخری کیل ثابت ہو گا۔ جس معاشرے سے قلم، کتاب اور اخبار منفی ہو جائے وہ معاشرہ مچھلی بازار میں ڈھل جاتا ہے۔ وفاقی کابینہ کا سرکاری دفاتر میں اخبارات و جرائد کی ترسیل پر بندش سے اخباری دنیا میں بے روزگاری کا ایک اور طوفان آئے گا اور اخبارات کے طفیل سرکاری دفاتر میں تھوڑی بہت آگہی کا جو اجالا پھیلتارہتا تھا وہ بھی ماند پڑ جائے گا۔ کرسیوں پر بدعنوان عناصر، علم دشمن وڈیرے اور خود غرض تاجر بیٹھے ہوں تو ان سے اور کیا توقع کی جا سکتی ہے۔ مجھے یاد ہے، ایک زمانہ تھا کہ جب کراچی آبروئے صحافت تھا، اخبارات پر زوال مسلط کیئے جانے سے پہلے اس شہر میں کم وبیش 8 ہزار اخبار فروش تھے جو آندھی ہو یا طوفان لوگوں کو علی الصبح گھروں تک تازہ اخبار پہنچایا کرتے تھے۔ اس زمانے میں لوگ گھروں کے دروازوں پر کھڑے ہو کربے چینی سے اخبار فروش کا انتظار کیا کرتے تھے۔ اس شہر میں ساڑھے تین ہزار اسٹال اور ایک ہزار اسٹریٹ ہاکر تھے جو مختلف چوراہوں اور سڑکوں پر اخبار بیچ کر اپنے بچوں کا رزق کمایا کرتے تھے اور یہی حال پورے ملک میں تھاکہ اخبارات صحافیوں اور اخبار فروشوں کے لیئے باعزت روزگار کا وسیلہ تھے۔وقت نے نام نہاد جدیدیت کی چادر اوڑھ لی تو اخبارات کو بھی جان کے لالے پڑ گئے، اشاعتیں کم ہوتی گئیں، اخبار فروشوں نے پیشے بدل لیئے، اخباری ڈپو، اسٹال ویران ہوتے گئے۔وفاقی کابینہ نے اخبار دشمن پالیسیاں اختیار کر کے پاکستان کو ایک بار پھر کھوکھلا کر نے کی ٹھان لی ہے۔