چلیے آغاز میں ہم آپ کو معروف افسانہ نگار اور شاعرہ آسناتھ کنول کی ایک دل گداز اور روح افزا پوسٹ پڑھا دیتے ہیں۔ وہ لکھتی ہیں ’’کیا آپ روح کے پھل کے بارے میں جانتے ہیں؟ اس کے 9حصے ہوتے ہیں:محبت‘خوشی‘ اطمینان‘ تحمل‘ مہربانی‘ نیکی‘ ایمانداری‘ حلم اور پرہیز گاری۔ جن کی کوئی شریعت مخالفت نہیں کرتی۔ کیا اچھی بات کی آسناتھ نے کہ یہی تو انسان کی اصل ہے یعنی آدمی کو انسان بنانے والی خوبیاں۔ آپ ان ثمرات کو چھو نہیں سکتے‘ محسوس کر سکتے ہیں۔ مزے کی بات یہی ہے کہ یہ ارمغاں چھونے سے میلے ہو جائیں گے۔ بس انہیں محسوس کرو اور اپنے اندر پیدا کرو۔ ان کی تجسیم آپ خود ہیں۔ وگرنہ ان خوبیوں کی لطافت یہی ہے کہ ان کا اپنا بدن نہیں خوشبو سے بھی زیادہ نازک اور لطیف ہیں۔ جن کو یہ ودیعت ہو گئیں تو سمجھو اسے اپنی نیک نیتی کا پھل مل گیا۔ان روحانی موجودات سے ایک عجب احساس جنم لیتا ہے جو آپ کو سرشار کر دیتا ہے: کس نے دل میں مرے قیام کیا آسماں نے مجھے سلام کیا کبھی کبھی مجھے یہ احساس اس طرح سے لگتا ہے جیسے آپ پھولوں کا عرق نکالتے ہیں بلکہ رس بھی زیادہ مصفیٰ جیسے کسی سوچ کی تطہیر ہوتی ہے۔ کوئی خیال پاکیزہ اور معتبر ہو جاتا ہے۔ بدن تو روح کی کثافت ہے۔ اسی طرح روح کا پھل بھی احساسات کی طرح ہے۔ میں نے بیٹھے بیٹھے سوچا کہ سب سے اچھا لمحہ وہ ہوتا ہے جب اک بندہ اپنے رب سے ڈرتا ہے۔ اس کا دل بھر آتا ہے اور پھر اس کا رونے کو جی کرتا ہے۔ جب اک بندہ اپنے دل میں اپنے رب کو پاتا ہے اور تعظیم میں اس کا سر جھک جاتا ہے۔ اس کو چین سا آتا ہے تو پھر اس کے جسم کا رشتہ روح سے بھی جڑ جاتا ہے۔ سب سے اچھا لمحہ جب آتا ہے۔ دل اور جان کو چین بھی تب آتا ہے۔ کیا کریں ہمیں تو کار دنیا ہی سے فرصت نہیں۔ ہائے وہ لوگ جن کے کام بھی خدا اپنے کام بنا لیتا ہے۔ وہ لوگ کیسے ہوتے ہیں کہ اپنے کاموں سے بے نیاز ہو جاتے ہیں۔ واصف صاحب یاد آئے کہ خوش بخت وہ ہے جو اپنے بخت پر خوش ہو۔ پھر مجید امجد کیوں یاد نہ آئیں گے: سلام ان پر تہہ تیخ بھی جنہوں نے کہا جو تیری مرضی جو تیری رضا جو تو چاہے خیر یہ تو ایک عمدہ ترین بلکہ پاکیزہ ترین ماڈل ہے جو ہمیں زندگی بسر کرنے کا سبق دیتا ہے۔ میرے معزز و محترم قارئین!آج میں اندر کے سفر پر نکل گیا کہ میں نے خود کہا تھا کہ ’’شور باہر کا کم نہیں ہوتا۔ بات اندر کی کیا سنائی دے‘‘ اندر اترنے کا حوصلہ نہیں ہوتا کہ اندر تو ایک جنگل آباد ہے اور اس میں خواہشات کے درندے بھی نظر آتے ہیں۔ اس اندر ہی کو تو صاف کرنا ہے کہ’’رب دلاں وچ رہندا‘‘ لو درد سامنے آن کھڑے ہوئے: دونوں جہاں کہاں تری وسعت کو پا سکے اک دل ہی وہ جگہ ہے جہاں تو سما سکے درون خانہ کے ہنگاموں میں اسے جگہ ملے گی تو بات بنے گی۔ اصل میں ہم رمضان کے مبارک مہینے سے گزر رہے ہیں اور پھر اتفاق سے لاک ڈائون بھی ہے اور کوئی قسمت والا اگر غور کرے تو یہ اعتکاف کی صورت بن سکتا ہے۔ اللہ بھی تو مکمل یکسوئی چاہتا ہے۔ یہ الگ بات کہ اللہ اس کی طرف چل کر آنے والے کے لئے دوڑ کر اسے خوش آمدید کہتا ہے۔ رجوع اور توجہ تو ازبس ضروری ہے۔ وہ تو اپنے فرشتوں میں انسان کا ذکر کرتا ہے کہ دیکھو یہ مجھ سے ڈر رہا ہے۔ کیا اس نے مجھے دیکھا ہے۔ فرشتے کہتے ہیں ’’نہیں پروردگار‘‘ تو اللہ کہتا ہے کہ پھر گواہ رہو کہ میں نے اس کی بخشش کر دی‘‘ یہ تو بعد کی بات ہے۔ جب اللہ اپنے بندے کی طرف متوجہ ہوتا ہے تو پھر وہ بندہ اس کے بندوں کا ہو جاتا ہے۔ وہی ’’زمیں کا بوجھ اٹھانے والا‘‘ کہ ناصر کاظمی نے کہا تھا’’یہ آپ میں تو بوجھ ہیں زمین کا۔زمیں کا بوجھ اٹھانے والے کیا ہوئے‘‘ میں بھی سمجھتا ہوں کہ دنیا میں دوست بھی وہ ہے جو دوست کو اسی حوالے سے محبت کرتا ہے کہ اس میں دنیاوی غرض نہیں ہوتی وگرنہ وہ دوستوں کو آستیں کا سانپ کہہ کر راحت محسوس کرتا ہے۔ میں نے یہ بات محاورتاً کہی ہے وگرنہ حضرت علیؓ نے کہا تھا کہ مفلس وہ ہے جس کا کوئی دوست نہیں اور پھر دوست کی تعریف علیؓ کے نزدیک جو ہو گی وہ بتانے کی ضرورت نہیں۔ وگرنہ دنیا داری میں تو کچھ نہ پوچھیے۔ وہی جو کہتے ہیں کہ اولاد وصیت دیکھتی ہے اور رشتہ دار حیثیت اور پھر فراز نے کہا تھا کہ ’’دوست ہوتا نہیں ہر ہاتھ ملانے والا‘‘ ہاتھ ملانے والا تو ان دنوں دشمن سمجھا جا رہا ہے کہ وائرس ہے۔ بس یونہی بات سے بات نکل آتی ہے۔ مقصد یہ ہے کہ اس مبارک اور متبرک مہینے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ذرا یعنی عاقبت کا بھی کچھ ضرور سوچ لیں: میں تہی دست ہوں اور بارہا یہ سوچتا ہوں اس طرح لوگ کہاں لوٹ کے گھر جاتے ہیں ایک اور بات جو اس سے بھی بڑھ کر ہے وہ دوسرے لوگوں کے لئے سوچنا ہے۔ یعنی وہ لوگ جو سحری اور افطاری تک نہیں کر سکے۔ لاک ڈائون کے باعث جو بے کار اور بے روزگار ہو گئے ہیں۔ کچھ سہولتیں اور ضروریات اگر آپ کسی طرح بھی ان تک پہنچا سکتے ہیں۔ ویسے بھی اس ماہ صیام میں نیکیوں کا اجر بے تحاشہ بڑھا دیا جاتا ہے۔ عبادات میں بھی نوافل سنت اور سنت فرض کے برابر قرار دی گئی ہے۔ اسی طرح صدقہ اور خیرات کا اجر بھی اسی طرح افزوں ہے۔ جب اللہ خود کہتا ہے کہ روزے کی جزا وہ خود ہے اب بتائیے اس سے بڑھ کر انعام کیا ہو گا۔ اللہ تو یہاں تک کہتا ہے کہ روزے دار کے منہ سے آنے والی بو اسے قستوری سے بھی زیادہ بھلی محسوس ہوتی ہے۔ آپ اس شخص کی خوش بختی کا اندازہ کریں جو روزہ پورے اہتمام کے ساتھ رکھتا ہے اور رات کو تراویح میں اس کا کلام سنتا ہے اور پھر اس کی مخلوق میں سہولتیں اور آسانیاں بانٹتا ہے یہ خالص عبادت ہے اور اس لئے ہے کہ خدا ہم سے تقاضا کرتا ہے۔ اس لئے نہیں کہ اس عمل کے بے شمار جسمانی فوائد بھی ہیں۔ باقی ساری باتیں ضمنی ہیں۔ اس نے جو بھی حکم دیا ہے اس میں حکمتیں ہی حکمتیں ہیں۔ وہ ثمرات و انعامات ہیں۔ ہمارے نزدیک ان ثمرات و انعامات سے بڑھ کر اس کی رضا ہے۔آخری بات یہ ہے کہ خدارا ان شیطانی کاموں سے بچیں کہ جو رمضان سپیشل کے نام پر بے ہودگی ہوتی ہے۔ حتیٰ کہ رمضان کا گیت میوزک کے ساتھ چلایا جاتا ہے۔ لاحول ولا۔ ان چیزوں سے خود کو بچانا اور اپنے نفس کو دبانا بھی ایک ریاضت اور حفاظت ہے۔ پہلا عشرہ گزر چکا ہے۔ باقی دو عشرے ہیں انہیں قیمتی بنائیے۔