کراچی میں میرا گھر ساحل سمندر سے زیادہ فاصلے پر نہ تھا ،گھنٹہ بھر کی چہل قدمی کے بعد سینڈز پٹ کی نرم ٹھنڈی ریت آپ کے تلووں کو چھو لیتی تھی ،سینڈز پٹ،ہاکس بے،پیرا ڈائزا پوائنٹ کے ساحل شہر سے الگ تھلگ ہیں تیس ،چالیس برس پہلے یہ علاقے پبلک ٹرانسپورٹ کی دسترس سے بھی دور تھے ۔یہاں رش نہ ہوتا تھااس لئے کراچی میں غیرملکی سفارتکاروں کی ہفتہ اتوار کی چھٹی منانے کی پسندیدہ جگہ یہی ساحلی پٹی ہوتی تھی ۔ایک روز دوستوں کے ساتھ سینڈزپٹ جانے کا پروگرام بنااس رو زاچھی خاصی گرمی تھی اس لئے ساحل پر معمول سے زیادہ لوگ تھے ان میں وہ غیرملکی فیملی بھی تھی وہ ایک دوسرے پر پانی اچھال رہے تھے ،پیراکی کر رہے تھے، ان کی سفید رنگت اور سنہری بال ان کاتعلق یورپ سے بتارہے تھے۔ ان ہی میں ایک لڑکی بھی تھی میرے دوست سمندر میں نہانے چلے گئے میں بھی جوتے وغیرہ اتار کر آگے بڑھ رہا تھا کہ اس لڑکی کوسمندر سے اس طرح باہر آتے دیکھا کہ ا س نے اپنی ٹی شرٹ اپنے دونوں ہاتھوں سے اس طرح پکڑ کر رکھی تھی کہ اسکے خدو خال نمایاں نہ ہوں ۔ یہ اسی مہینے کی آٹھ جولائی کی بات ہے امریکہ کے ایک بارکی ویٹرس ونیزا خوشگوار موڈ میں ملازمت کے لئے پہنچی ،شوخ و چنچل ونیزا نے اس روز خاصا بھڑکیلا لباس پہن رکھا تھا۔ ریستوران کی انتظامیہ نے اسے بلایاا ور نامناسب لباس پر سرزنش کرتے ہوئے مناسب کپڑے پہن کر آنے کے لئے کہا ،ونیز ا کو شدید غصہ آیا اوراس نے سارا غصہ سوشل میڈیا کی ویب سائیٹ ٹک ٹاک پر ویڈیو ڈال کر نکال دیا۔ دوسرے دن ونیزا مناسب لباس میں ملازمت پر پہنچی جہاں اسے منیجر سے رابطے کے لئے کہا گیاوہ منیجر کے پاس پہنچی تو ملازمت سے برطرفی کا حکم نامہ انتظار کر رہا تھا اسے نوکری سے نکال دیا گیا۔ سابق برطانوی وزیرِاعظم ٹونی بلیئر کی اہلیہ چیری بلیئر کی سوتیلی بہن لارن بوتھ معروف صحافی، براڈ کاسٹر ہیںچوون سالہ لارن ایک متمول خاندان سے ہیں ۔انہوں نے 23 اکتوبر 2010 کو گلوبل پیس ایند یونیٹی چینل کی تقریب میں حجاب پہن کر شرکت کی اور انہوں نے اپنے ڈھکے سر،مکمل لباس پر حیران لوگوں سے مسکراتے ہوئے کہا: "My name is Lauren Booth, and I am a Muslim." محترمہ لارن بوتھ نے ایک تقریب میں اس طرح خطاب کیا کہ ان کی دونوںبیٹیاں ساتھ کھڑی تھیں لارن کہنے لگیں ’’میں کافی عرصے سے اسلام کا مطالعہ کررہی تھی اور جب میں اسلام کی طرف راغب ہوئی تو میں نے اپنی بیٹیوں سے کہا کہ اب میں مسلمان ہونے جارہی ہوں، اس پر وہ مجھ سے سوال پر سوال کرنے لگی ان کا پہلا سوال تھا امّی! کیاآ پ مسلمان ہونے کے بعد بھی شراب پئیں گی ؟میں نے کہا نہیں اب بالکل نہیں پیونگی۔ یہ سن کرمیری بیٹیاں خوش ہوگئیں اسکے بعد میری بڑی بیٹی نے میرے لباس سے متعلق سوال کیا اور پوچھا’’ کیا آپ مسلمان ہونے کے بعد بھی ایسا لباس پہن کر لوگوں میں جائیں گی جس میں آپ کا جسم نمایاں ہوتا ہے؟ لارن کہتی ہے میں نے جواب دیا ’’او ہ نہیں !نہیں اب میں اپنا پورا جسم ڈھانپا کروں گی۔ اس کے بعد لارن نے کہا کہ میرے اس جواب پر ان کی خوشی دیکھنے کے قابل تھی۔ انھوں نے خوشی سے باقاعدہ نعرہ لگایاجسکے بعدلارن نے مزید کہا کہ ’’ حجاب کے لیے مجھ پر کوئی جبر یا دباؤ نہیں یہ تو میرے مسلمان ہونے کی دلیل اور علامت ہے، یہ میرے لئے فخر کا سبب ہے ۔مجھے حجاب سے اس لیے پسند ہے کہ اس میں میرے اللہ کی خوشنودی ہے‘‘۔ میں حیران ہوں کہ عریانیت کو پروان چڑھانے اور اسکے ہاتھوں تباہی کے دہانے پر پہنچنے والی سوسائٹیوں میں اب فحاشی اور اشتعال انگیز لباس پر انگلیاں اٹھنے لگی ہیں انہیں اپنی غلطیوں کا اندازہ ہو گیا ہے وہ ویٹر کو نامناسب لباس پہننے پر گھر بھیج دیتے ہیں اوراپنے ہٹ دھرمی پر پکا پکا گھر بٹھا دیتے ہیں، اسی سوسائٹی میں بیٹیاں ماںکے شراب چھوڑنے اور پاکیزہ لباس پہننے پر خوشی کا نعرہ لگاتی ہیں اوراک ہم ہیں کہ ہم سے اس بارے میں کوئی کلمہ خیر نکل بھی جائے تو وضاحتوں پر وضاحتیں دینا شروع کردیتے ہیں ،وزیر اعظم عمران خان نے بالکل درست موقف اپنایا تھا ۔لباس کے حوالے سے ان کا بیان اسلام کے نقطہ ء نظر سے ہی نہیں انسانیت کے حوالے سے بھی بھرپور تھاانہیں اپنے بیان پر ڈٹ جانا چاہئے تھاجانے وہ وضاحتیں کیوں دے رہے ہیں ۔ تین اپریل 2021کو انہوں نے ایک پروگرام میں ایک سوال کے جواب میں کہا تھا کہ ہر انسان میں اتنی طاقت نہیں ہوتی کہ وہ خود کو روک سکے۔ آپ معاشرے میں جتنی فحاشی بڑھاتے جائیں گے تو اس کے اثرات ہوں گے اس بیان کے بعد جب لبرل اور مذہب بیزار سیاسی سماجی حلقوں کی جانب سے ردِعمل سامنے آیاتو چار دن بعدہی اْن کے دفتر سے وضاحتی بیان جاری کردیا گیا ۔اب ایک بار پھر امریکی نیوز چینل پر اس بیا ن کی وضاحت دی جا رہی ہے کہ ریپ سے متاثرہ خاتون پر اس کی ذمہ داری عائد نہیں ہوتی بلکہ صرف اس کا ارتکاب کرنے والا ہی ریپ کا ذمہ دار ہوتا ہے ۔یقینا ایسا ہی ہے جرم کا ارتکاب کرنے والا ہی مجرم ہوتا ہے اور اسے اسکی سخت سزابھی ملنی چاہئے لیکن جب جرائم اور خاص کرجنسی زیادتی کے واقعات کی وجوہات پر بات کی جائے گی تو اشتعال انگیز نامناسب لباس کو کیسے نظر انداز کیا جاسکتا ہے !ماہرین سماجیات ،کرمنالوجی کے طلباء تحقیق و تفتیش سے متعلق اہلکاروں سے ملا جائے تو زیادتی کے مجرموںکے اعترافی بیانات آنکھیں کھولنے کے لئے کافی ہیں،ہر جرم کی وجہ ہوتی ہے جرم سے بچنے کے لئے ان کا سدباب کیا جاتا ہے ،جنسی جرائم کی بہت سی وجوہات ہیں ۔اس میں نامناسب لباس کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔