کراچی جماعت اسلامی سے کب کا روٹھ چکاہے، نعمت اللہ خان کی وفات کے بعد تو مجھے یوں لگتا ہے کہ جماعت اسلامی کے سر سے ایک شفیق بزرگ کا سایہ بھی اٹھ گیا ہے جو اپنے کاموں کی وجہ سے صحیح معنوں میں بابائے کراچی ہی نہیں بابائے جماعت اسلامی کراچی کہلانے کا حق دار تھا۔ایک زمانہ تھا کہ جماعت اسلامی کراچی کی مقبول سیاسی جماعت تھی لیکن جب نو ستاروں(پاکستان قومی اتحاد) نے جنوری 1977ء نظام مصطفی کے نام پر تحریک چلا کر عوام کو منتخب حکومت اور اس کی قیادت سے متنفر کیا۔ اس تحریک کو جواز بنا کر جنرل ضیاالحق نے ملک سے جمہوریت کی بساط لپیٹ دی اور آئین معطل کر کے ملک کے چیف مارشل ایڈمنسٹریٹر بن بیٹھے۔یوں تو جنرل ضیاالحق کے مارشل لاء ( 5جولائی 1977ء تا1988ئ)سے لے کر جنرل پرویز مشرف کی آمریت (1999ء تا 2008ء )میںجماعت اسلامی کو تین بارکراچی کی بلدیاتی قیادت عبدالستار افغانی اور نعمت اللہ خان ایڈووکیٹ کے ذریعے شہرقائد میں قابل ذکر خدمات انجام دینے کا موقع میسر آیا ، خاص طور پر نعمت اللہ خان نے شہر محبوباں کراچی میں کارہائے نمایاں انجام دے کرتاریخ میں اپنا نام رقم کرالیا۔ عبدالستار افغانی 1979ء 1987ء تک مسلسل دوبار غیرجماعتی بلدیاتی انتخابات میں میئر کراچی منتخب ہوئے ۔ نعمت اللہ خان کو14اگست 2001ء سے مئی 2005ء تک صرف ایک بار ہی کراچی کا ناظم اعلیٰ بننے کا موقع حاصل ہوا لیکن انہوں نے اپنے اس دورانیئے کو سنہری حروف سے لکھوانے کے قابل بنا دیا۔ انہوں نے اپنے اس دور میں شہر بھر میں سڑکیں، پل، بالائی پل اور تفریح گاہیں تعمیر کر کے کراچی کا نقشہ ہی بدل دیا۔ وہ کراچی کی مقبول شخصیت بن کر ابھرے لیکن ان کی اس شفاف اور غیر معمولی عوامی خدمات کے باوجود جماعت اسلامی کراچی کے شہریوں کے دل جیتنے میں ناکام رہی۔ نعمت اللہ خان کا کمال یہ تھا کہ انہوں نے جماعت اسلامی کراچی کا امیر ہونے کے باوجوداس کی حجرہ سیاست کے تاثر میں ڈھلنے کی کبھی کوشش نہیں کی بلکہ وہ جماعت اسلامی میں واحد شخصیت تھے جنہوں نے اپنے دورامارت میں عوامی طرز سیاست اپنایا اور جب وہ الخدمت کے سربراہ بنے تو بھی دن رات سندھ کی بلاامتیاز خدمت کر کے خوب نام کمایا اور شہریوں کے دلوں میں دھڑکنے لگے۔ نعمت اللہ خان جب تک چلنے پھرنے کے قابل رہے سندھ اور اس کے دارالحکومت کراچی کی جی جان سے خدمت کی اور آنیوالی بلدیاتی قیادت کے لئے قابل تقلید مثال اور چیلنج چھوڑ گئے۔ پھر یہ کہ ان کی خدمات کا دائرہ سندھ کے دارلحکومت تک محدود نہیں تھا بلکہ انہوں نے پیاسے اور بھوکے تھر میں بھی تاریخی کام سرانجام دیئے۔میں ان دنوں کا عینی شاہد ہوں کہ جب 1998 ء میں سندھ کے عظیم صحرا تھر میں قحط پڑاتو اس جواں عزم بزرگ نے چین وقرار کی زندگی کا لطف خود پر حرام کرلیا ۔ نعمت اللہ خان نے تھر کے دور افتادہ علاقوں میں غریب و لاچار ماروئوں میں مفت آٹا بانٹ کر انہیں بھکاری بنانے کے بجائے انتہائی سستا آٹا فراہم کرنے کے لئے ٹرکوں کے ٹرک تھر کے بیابانوں میں بکھری آبادی میں تقسیم کئے اور مقامی آبادیوں کی معاونت سے انہیں سینکڑوں کنوئیں بھی کھدوا کر دئیے تاکہ تھر کی مارویوں کو پینے کے پانی کیلئے کوسوں میل دور نہ جانا پڑے۔ میں 1998 ء کی اس قحط سالی میں ایک ہفتے تک نعمت اللہ خان کے ساتھ صحرائے تھر کے ریگستانوں میں اہل تھر کی خبر گیری کے مشن میں ان کا رفیق رہا۔ اس تھکا دینے والے سفر میں مجھ پر ایک مختلف نعمت اللہ خان منکشف ہوا، یہ کسی طرح سے بھی کسی حجرہ سیاست کا پیروکار نہیں تھا بلکہ بلکتے سسکتے عوام پر جان نچھاور کرنیوالا ایک سماجی کارکن اور عظیم سیاسی کارکن تھا جس نے تھریوں کی حالت زار پر ٹسوے بہانے اور سیاسی بیانات داغنے کے بجائے عملاً سیکڑوں میلوں پر محیط ریتلے ٹیلوں اور کچے راستوں کا سفر طے کر کے نادار لوگوں کو ان کے چنوروں اور پاڑوں میں جا کر گلے لگایا اور ان کے زخموں پر مرہم رکھا۔ جب تک خشک سالی نے صحرا کی خطائیں معاف نہیں کیں نعمت اللہ خان نے اپنا سارا چین قرار ترک کر کے اپنے دن اور راتیں لا چار تھریوں کی خدمت کے لئے وقف کئے رکھیں۔ وہ زمانہ شمسی توانائی سے روشنی مہیا کرنے اور آر او پلانٹ چلانے کا نہیں تھا لیکن وسائل کی کم یابی کے باوجود نعمت اللہ خان نے تھر کے طول وعرض میں سینکڑوں کنوئیں کھدوا کر پیاسے تھریوں کو ان کے دوردراز واقع گھروں کے قریب آب نوشی کے وسیلے فراہم کئے اور انہیں اونے پونے نرخوں میں اناج پہنچا کر ان کی بھوک مٹانے کا اہتمام کیا۔ وہ ضعیف و ناتواں شخص صلہ و ستائش کی تمنا سے بے نیاز ہو کر حکومت، سرکاری غیر سرکاری اداروں، دھندے بازوں اور شہرت کے بھوکے بھیڑیوں کی فوج ظفر موج پر اکیلا بھاری تھا۔ اس جلیل القدر بزرگ نے اس قحط میں وہ کچھ کر دکھایا جس کا تصور ہی کیا جا سکتا ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ یہ ایک بار نہیں ہوا، جب بھی تھر پر زندگی نامہربان ہوتی ، نعمت اللہ خان تھر کے ریگ زاروں کا رخ کر لیتے اور جب تک بے کس تھریوں کی مشکلیں آسانیوں میں نہ بدل جاتیں وہ ماروئوں کے درمیان رہ کر ان کی مدد اور دل جوئی کرتے رہتے۔پیاس اور افلاس کی سرزمین تھر اور اس کے باشندوں سے ان کا عشق صرف جبر کے موسموں تک محدود نہیں تھا، وہ تھر کے معمول کے دنوں میں بھی وہاں تعلیم اور معاشرت کے فروغ کیلئے ہمہ وقت کمر بستہ رہتے۔ ان کی کھولی ہوئی درس گاہیں آج بھی پیاسے تھریوں میں علم و عمل کی روشنیاں بانٹ رہی ہیں۔ یہ تو ان کی زندگی کا صرف ایک ورق تھا جو آپ کی نذر کیا، ان کی پوری زندگی ایک زندہ تحریک کی مانند تھی جس کے نقوش بہت عرصے تک تاریخ کے سینے پر ثبت رہیں گے۔میرے لئے بعض اوقات یہ اندازہ کرنا مشکل ہو جاتا ہے کہ وہ تھریوں سے زیادہ پیار کرتے تھے یا کراچی والوں سے، بہر حال جب سے نعمت اللہ خان اس جہان فانی سے رخصت ہوئے ہیں مجھے یوں محسوس ہوتا ہے کہ یہ نقصان صرف جماعت اسلامی ،کراچی یا تھر کا نہیںبلکہ یہ پاکستان کا ناقابل تلافی نقصان ہے۔ پاکستان اپنے ایک عظیم بیٹے سے محروم ہوگیا۔یہ قحط الرجال کا دور ہے، اب اس ملک میں نعمت اللہ خان جیسے فرزند نایاب ہوتے جا رہے ہیں جن کے سینے میں دل نہیں عام آدمی کا درد دھڑکتا ہو۔