خوش لباس حسن عباس رضا اس قدر منکسر المزاج ہے کہ جب بھی ملتا ہے‘ کچھ رقم اسے دینے کو دل کرتا ہے۔ اس کی نرم گفتاری پر تعجب نہیں ہوتا اس لئے کہ فارسی کے ایک استاد کے فرزند کو ایسا ہی ہونا چاہیے تھا! یہ جو دل کرتا ہے کہ اسے کچھ رقم دی جائے تو اس کی تازہ تصنیف ’’مرے مہرباں مرے چارہ گر‘‘ دیکھ کر ندامت ہوئی۔ وہ تو بہت زیادہ غنی نکلا! جن قد آور مشاہیر کو دیکھنے کی تمنا رہی‘ معلوم ہوا حسن عباس رضا کی ان سے دوستیاں تھیں۔ طویل اور گہری ! اور یہی اصل دولت ہے! ’’مرے مہرباں مرے چارہ گر‘‘ بہت حد تک ہماری ادبی اور ثقافتی تاریخ کا حصہ ہے۔ ملکہ ترنم نورجہاں ‘ فیض صاحب ‘ احمد فراز‘ احمد ندیم قاسمی‘ کشور ناہید اور احمد دائود کے تذکرے اس نے اس خوبصورتی اور حسن بیان سے کئے ہیں کہ پوری کتاب ایک نشست میں پڑھنا قاری کی مجبوری بن جاتی ہے! جو باب حسن ؔ نے اپنی اسیری پر لکھا ہے۔ وہ دلچسپ تو ہے ہی‘ دردناک بھی ہے! جنرل ضیاء الحق کے عہد اقتدار میں حسنؔ خیابان کے عنوان سے ادبی میگزیشن نکالتا تھا۔ نازک مزاجِ شاہ پر وہ گراں گزرا۔ حسنؔ نے یہ واقعہ یوں بیان کیا ہے۔ ’’مجھے ہتھکڑی لگا کر پولیس کی گاڑی میں بٹھایا گیا۔ اور رسالہ (خیابان) برآمد کرنے کے لئے صدر بازار لے جایا گیا۔ صدر بازار کے ایک بک سٹال ’’بک سنٹر‘‘ کے مالک خواجہ صاحب ہتھکڑی میں دیکھ کر بہت حیران ہوئے۔ پولیس افسر سے کہنے لگے یہ ہمارے نوجوان اور پڑھے لکھے شاعر ہیں آپ نے ہتھکڑی انہیں کیوں لگائی ہے؟ افسر نے تفصیل بتائی کہ مارشل لاء کا حکم ہے۔ بک سنٹر سے خیابان کی تمام کاپیاں ضبط کر کے دوسرے بک سنٹر پر لے جایا گیا کمال کی بات یہ ہے کہ گاڑی میں بٹھانے کے بجائے مجھے پیدل تمام بک شاپس کا ’’دورہ‘‘ کراتے رہے‘‘ پابہ زنجیر قیدی کے پانی پینے کی روداد بھی پڑھنے کے لائق ہے: ’’رات کو ایک دو بار اٹھ کر پانی پینے کی عادت ہے۔ دوران اسیری بھی اپنی چارپائی کے پاس پانی کا گلاس بھر کر رکھ لیتا تھا۔ رات دو تین بار پانی پیا۔ پچھلے پہر پھر پیاس لگی تو گلاس خالی تھا۔ اس رات کمرے میں کوئی اور قیدی نہیں تھا۔ پانی کا گھڑا چارپائی سے دور تھا۔ چارپائی سے اتر کر گھڑے تک جانا چاہا مگر پائوں میں پڑی زنجیر نے مزید آگے جانے سے روک دیا۔ بادل نخواستہ بلند آواز میں پانی پانی پکارا تو ایک پولیس والا آ گیا اور کمال شفقت کے ساتھ اس نے پانی پلایا‘‘ اسیری کے حوالے سے حسنؔ نے یہ بھی کہا ؎ میری سوچ سے زیادہ چُپ اس کمرے کی دیواریں ہیں جس میں کچھ سرگوشیاں اور زنجیروں کی جھنکاریں ہیں حسنؔ رضا اس کمرے کی وہ چیونٹیاں میری ساتھی ہیں فرش سے لے کر چھت تک جن کی لاتعداد قطاریں ہیں تصنیف کے دو ابواب دلچسپ ترین ہیں۔ احمد فراز صاحب کی جملہ بازی حیران کن ہے۔ مری کے ایک مشاعرے میں شاعرہ بسمل صابری بھی تھیں۔ مشاعرے کے دوسرے دن فراز صاحب نے اقبال کا مشہور مصرع یوں پڑھا ع آخرِ شب دید کے قابل تھی بسمل صابری احمد فراز شام کو اسلام آباد ہوٹل میں بیٹھتے تھے۔ ان کی جگہ مخصوص تھیں۔ بعد میں اس گوشے کا نام ہی ’’فراز کارنر‘‘ رکھ دیا گیا ایک شام محفل جمی تھی۔ معروف شاعر اور کمپیئر محبوب ظفر بھی موجود تھے۔ ایک خاتون گزری تو محبوب ظفرکو یہ کہہ کر سلام کیا ’’کیسے ہیں محبوب بھائی؟‘‘ اس پر فراز صاحب نے خاتون کو بلایا اور سنجیدگی سے کہنے لگے۔’’دیکھو! محبوب کبھی بھائی نہیں ہوتا‘‘! فراز صاحب نے ایک دن حسن عباس رضا کے گھر فون کیا۔ حسنؔ کی بیگم بینا نے فون اٹھایا۔ فراز صاحب نے کہا بینا کہاں ہے تمہارا نابینا؟! 1995ء میں پاکستانی شعرا کا ایک قافلہ انبالہ سے دہلی جا رہا تھا۔ راستے میں پانی پت کے مقام پر یہ حضرات چائے پینے رُکے، اس دوران ہوٹل کے سامنے شور وغل برپا ہوا۔ دیکھا تو دو ٹرکوں کے درمیان تصادم کے بعد ڈرائیور اور ان کے طرف دار لاٹھیوں اور ڈنڈوں سے ایک دوسرے پر حملہ آور ہو رہے تھے۔ فراز صاحب حسن عباس سے مخاطب ہوئے’’تم نے پانی پت کی لڑائی کا ذکر کتابوں میں پڑھا ہے۔ اب پانی پت کی تازہ لڑائی دیکھو! تاکہ کہہ سکو کہ اپنی آنکھوں سے دیکھی ہے! نیو یارک کے ایک مشاعرے میں ایک شاعر نے کہا کہ میں نشست میں بیٹھ کر نہیں کھڑے ہو کر غزل سنائوں گا۔ فراز صاحب کی رگِ ظرافت پھڑکی۔ کہنے لگے ہاں تم کھڑے ہو کر ہی سنائو‘ تمہاری غزل جو بیٹھی ہوئی ہوتی ہے! فقرہ بازی میں منیر نیازی بھی اپنی مثال آپ تھے۔ حسن نے لکھا ہے کہ لاہور کے ایک مشاعرے کے دوران چائے کا وقفہ ہوا تو احمد راہی ،شہزاد احمد اور منیر نیازی سگریٹ نوشی کے لئے ہال سے باہر نکل آئے۔ ایک بھکاری آیا اور دست سوال احمد راہی کے سامنے دراز کیا۔ راہی نے کہا معاف کرو! منیر نیازی نے بھکاری کو بلایا اور پوچھا تمہیں معلوم ہے تم غریب اور بھکاری کیوں ہو؟ وہ بولا نہیں صاحب جی! منیر کہنے لگے اس لئے کہ تمہیں پتہ ہی نہیں کہ کس سے مانگنا ہے اور کسے دینا ہے۔تم نے تو مانگنے والے سے مانگ لیا!! ملکہ ترنم نورجہاں کے حالات حسن نے تفصیل سے لکھے ہیں۔ یہ ایک لحاظ سے میڈیم کی مختصر سوانح ہے! اس سوانح کی رو سے نورجہاں 21دسمبر 1926ء کو قصور کے محلہ کوٹ مراد خان میں پیدا ہوئیں۔ والد کا نام مدد علی جیونا اور والدہ کا نام فتح بی بی تھا۔ محلہ کوٹ مراد خان شہر کا بازار حسن تھا اس گھرانے کا آبائی پیشہ گانا بجانا تھا ملکہ ترنم کی پھوپی الٰہی جان اپنے زمانے کی معروف گانے والی تھی۔ پیدائش پر گڑتی پھوپھی نے ڈالی۔ بچی روئی تو الٰہی جان نے بھائی مدد علی کو بتایا کہ یہ بچی تو سُر میں رو رہی ہے۔ الٰہی جان ہی نے ملکہ ترنم کا نام ’’اللہ وسائی‘‘ رکھا! میڈم نورجہاںکی دو بڑی بہنیں عیدن اور حیدر باندی اور ایک کزن پشپا رانی تھیٹر میں کام کر رہی تھیں۔ سات سال کی عمر میں ننھی اللہ وسائی نے بھی تھیٹر میں اپنی پرفارمنس دے دی۔ پھر یہ تینوں بہنیں کلکتہ پہنچیں یہ 1934ء تھا۔ کلکتہ پر اس وقت مختار بیگم چھائی ہوئی تھی اور اللہ وسائی کی آئیڈیل بھی تھی۔ اسی کی وساطت سے تینوں بہنوں کو ایک مشہور تھیٹر میں ملازمت مل گئی۔ پنجابی ہونے کی وجہ سے ان بہنوں کا نام ’’پنجاب میل‘‘ پڑ گیا۔ اسی تھیٹر کے مالک سیٹھ سکھ لال نے اللہ وسائی کا نام بدل کر ’’بے بی نورجہان‘‘ رکھا۔ ایک عبرت ناک واقعہ حسن یوں بیان کرتا ہے کہ میڈم بیمار ہو کر ہسپتال داخل ہوئیں تو کشور ناہید اور حسن عباس رضا عیادت کے لئے گئے حسن نے وہاں ایک عورت کو بیٹھے دیکھا۔ بوسیدہ لباس‘ خستہ اوڑھنی‘ پرانی شکستہ چپل۔ شکل جانی پہچانی لگ رہی تھی مگر نام ذہن میں نہیں آ رہا تھا۔ میڈم بھانپ گئیں۔ بتایا یہ فردوس ہے۔ مشہور زمانہ اداکارہ! ہیر رانجھا والی فردوس! وقت کیا کیاروپ دکھاتا ہے! میڈم کہنے لگی۔ ’’یہ میری سوکن تھی! مگر مجھے تب بھی عزیز تھی اور اب بھی ہے۔ میری بیٹیاںمجھے بتائے بغیر اس سوتیلی ماں سے ملنے چلے جایا کرتیں۔ مگر اعجاز نے میری قدر کی نہ فردوس کی‘‘ فردوس کی قربت اعجاز سے مشہور فلم ’’مرزا جٹ‘‘ کی شوٹنگ کے دوران بڑھی۔ اس کے بعد ہی میڈم نورجہاں اور اعجاز کی ازدواجی زندگی اختتام پذیر ہوئی! حسن عباس رضا شاعر بھی کمال کا ہے مگر اس کے اس شعر سے اتفاق نہیں کیا جا سکتا ؎ ہم شہرِ جاں میں آخری نغمہ سنا چکے سمجھو کہ اب ہمارا تماشا تمام شد بھائی حسن عباس! ایسا مت کہو! لکھتے رہو! شاعری بھی! نثر بھی! ہم تمہاری آنے والی تخلیقات کے منتظر ہیں!