ان دنوں میڈیا میں ڈاکٹر پرویز ہود بھائی کی ایک نجی تعلیمی ادارے سے برطرفی کا بہت چرچا ہے۔ تفصیل اس کی یہ ہے کہ پرویز ہود بھائی جو اپنے نظریات میں سیکولر اور لبرل سکالر ہیں‘ اپنی کلاس میں ایسے خیالات کا اظہار کیا کرتے تھے جو پاکستان کی بنیاد دو قومی نظریے اور اسلام سے متصادم تھے۔ وہ اس سے پہلے بھی ایک اعلیٰ معیار کے تعلیمی ادارے سے ان ہی الزامات کی بنا پر نکالے جا چکے ہیں۔ دلچسپ بات یہ بتائی جاتی ہے کہ مذکورہ تعلیمی اداروں کی انتظامیہ نے انہیں خود برطرف نہیں کیا۔ ان کی برطرفی طلباء و طالبات کی شکایات پر عمل میں آئی۔ وہ ملک کے ایٹمی پروگرام کے‘ کشمیر پر ہماری حکومتوں کی پالیسیوں کے‘ دستور میں شامل قرارداد مقاصد کے اور ایچ ای سی کے اعلیٰ تعلیمی اقدامات کے بھی کھلے مخالف رہے ہیں اور اور اب تک ہیں۔ انہوں نے اپنے نظریات کو کبھی نہیں چھپایا اور اپنے خیالات کے پرچار کے لیے میڈیا کو استعمال کرنے میں بھی کبھی خوف و مصلحت سے کام نہیں لیا۔ کسی ریاست کا شہری ہو کر ریاست کے اساسی تصورات اور حکومتوں کی پالیسیوں پر کھلی تنقید جمہوری آزادی کے عین مطابق ہے یا نہیں‘ اس پر دانشوروں اور پالیسی سازوں کو سوچنا چاہیے۔ جہاں تک ہمارا معاملہ ہے ہمیں بھی ان کے خیالات و نظریات سے اتفاق نہیں۔ ہم ان سے اور وہ ریاست و حکومت سے اتفاق نہیں رکھتے۔ اختلاف کرنا جیسے ہمارا حق ہے‘ کیا اختلاف کرنا ان کا حق نہیں؟ لیکن معاملہ اگر اختلاف کرنے ہی کی حد تک رہتا تو بھی کوئی بات نہ تھی۔ معاملہ وہاں سے خراب ہوا جب انہوں نے اپنے نظریات کی تشہیر کے لیے تعلیمی اداروں کا پلیٹ فارم استعمال کرنا شروع کردیا۔ یہ مسئلہ اختلاف کی آزادی کا نہیں۔ اپنے ذاتی خیالات کی طلبہ کے ذہنوں میں بیچ بونے اور انہیں پروان چڑھانے کا بن گیا۔ پرویز ہود بھائی ایسی آزادی دنیا کے کسی بھی ملک کے تعلیمی ادارے سے مانگتے تو یقین سے کہا جا سکتا ہے کہ ایسی آزادی انہیں نہیں ملتی۔ یہ تو کسی درخت کی شاخ پر بیٹھ کر اس شاخ ہی کو کاٹنے کی آزادی والی بات ہے۔ کسی بھی تعلیمی ادارے کا نصاب بہت سوچ سمجھ کر بنایا جاتا ہے اور نصاب میں ریاست کے بنیادی نظریات و تصورات کو سمویا جاتا ہے یا کم از کم اس کی تردید نہ کرنے اہتمام کو ضروری سمجھا جاتا ہے۔ اگر استاد کو یہ آزادی دے دی جائے کہ وہ پرویز ہود بھائی کی طرح کلاسوں میں اپنے ذاتی خیالات کو طالب علموں پر جس طرح بھی چاہے تھوپ دے تو ملک کے سارے تعلیمی ادارے انارکی و انتشار کا شکار ہو جائیں۔ نصاب ہر مضمون کا بنایا ہی اس لیے جاتا ہے کہ استاد کے لیے مضمون کا دائرہ کار متعین کردیا جائے تاکہ استاد اپنی حدود میں رہے اور اسے تجاوز نہ کرے۔ اگر یہ مصلحت نہ ہوتی تو ہر استاد کو یہ ذمہ داری دے دی جاتی کہ وہ اپنا نصاب خود بنائے۔ چاہے جس طرح بھی بنائے تعلیمی ادارے کی انتظامیہ کو اس پر کوئی اعتراض نہ ہوگا۔ یہاں تو صورت حال اس سے بھی آگے کی ہے کہ اعتراض اور شکایت انتظامیہ کو نہیں طلباء و طالبات کو ہوئی۔ کیوں ہوئی؟ اس لیے ہوئی کہ استاد مذکور کا انداز تدریس عالمانہ اور مفکرانہ نہ رہا ہوگا۔ جو کچھ وہ طلبہ کو سمجھاتے اور بتاتے ہوں گے اس میں نفرت و بیزاری کی آمیزش ہوتی ہوگی۔ اگر انداز تدریس کچھ ایسا ہوتا کہ جس میں اپنے خیالات پیش کر کے فیصلہ طلبہ پر چھوڑ دیا جاتا کہ وہ چاہیں تو اسے قبول کریں اور چاہیں تو قبول نہ کریں۔ یہی طریقہ مغرب میں بھی رائج ہے۔ وہاں کے سکالر یہ نہیں کہتے کہ جو کچھ میں کہتا ہوں اسے مان لو‘ اسے تسلیم کرلو۔ ان کی گفتگو کا آغاز عام طور پر یہاں سے ہوتا ہے کہ ’’ہو سکتا ہے کہ میں صحیح نہ ہوں گا لیکن میرا خیال یہ ہے…ممکن ہے کہ میں غلط ہوں لیکن… تدریس و تعلیم میں یہی انداز مغرب نے اپنایا ہے۔ اس انداز گفتگو میں انکسار پایا جاتا ہے اور حقیقت بھی یہی ہے کہ انسان سب کچھ جاننے کے باوجود کچھ نہیں جانتا۔ اسی کو سقراط اس طرح کہا کرتا تھا کہ میں تو ایک ہی بات جانتا ہوں کہ میں کچھ نہیں جانتا۔ علم آدمی کو انکسار سکھاتا ہے کیونکہ وہ شاخ جھک جاتی ہے جو پتوں‘ پھولوں اور پھلوں کے بوجھ سے دبی ہو۔ ٹنڈمنڈ شاخیں نہیں جھکتیں۔ جھکیں بھی کیسے ان پر کچھ ہوتا ہی نہیں۔ تو یہ تھوڑے سے علم کی اکڑ ذرا سا جاننے کا تکبر یہ کچھ نہیں ہے انانیت ہے۔ ڈاکٹر پرویز ہود بھائی کو ہم بہت عرصے سے جانتے ہیں۔ انگریزی اخبارات میں ان کے مضامین بھی نظر سے گزرتے رہے ہیں۔ سائنس کے حوالے سے ان کی ایک آدھ کتاب کو بھی سرسری طور پر دیکھنے کا موقع ملا ہے۔ ان کے ہاں کچھ نہیں ایک حرف انکار کے سوا۔ وہ ہر حقیقت کا صرف انکار کرتے ہیں‘ اثبات کسی کا نہیں کرتے۔ ایک حقیقت کو مسترد کردیتے ہیں لیکن نعم البدل میں کوئی دوسری حقیقت سامنے نہیں لاتے۔ اگر وہ طلبہ کے سامنے متبادل حقیقت بھی لے آتے تو میرا گمان ہے کہ طلبہ کبھی انہیں مسترد نہ کرتے۔ سوال تو یہ ہے کہ کیا وہ استاد‘ استاد ہو سکتا ہے جسے اس کے طلبہ ہی سننا نہ چاہیں‘ اس سے کچھ سیکھنا نہ چاہیں۔ مجھے تو حیرت ہے کہ ملک میں آزادی اظہار ہر پابندی کا رونا رویا جاتا ہے۔ ایسے واقعات میرے علم میں جب آتے ہیں جب کا اوپر ذکر ہوا تو لگتا ہے کہ جتنی آزادی ہمارے ملک میں سیکولر اور لبرل دانشوروں کو ملی ہوئی ہے‘ وہ کسی اور مملکت میں بھی کہاں دی جاتی ہے۔ طلبہ نے پرویز ہود بھائی کو سننے سے انکار کیوں کیا اس لیے کہ ڈاکٹر صاحب نے طلبہ کو ایسی معلومات دینے کی کوشش کی جس پر طلبہ کا ذہن پہلے سے بناہوا تھا۔ جو مسائل طلبہ کے نزدیک پہلے ہی سے طے شدہ تھے‘ ان پر تنازع کھڑا کرنا ہے۔ وہ اپنے ایک اسلامی مملکت میں اور یہاں نظام مغرب کا رائج کرنا چاہتے ہیں۔ اس لیے اس طبقے کو کبھی عام مقبولیت اور ہر دلعزیزی نہ کبھی حاصل ہوئی ہے اور نہ ہوگی۔ ہمارا ذاتی رویہ یہ رہا ہے کہ سیکولر اور لبرل طبقے سے دوستانہ مراسم رکھ کر ان کے خیالات سے استفادہ کرلو‘ ممکن ہے کچھ نیا سیکھنے کو مل جائے۔ لیکن اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ ان نظریات کو ہماری آشیرباد بھی حاصل ہے۔