وزیر اعظم عمران خان نے برادر ملک سعودی عرب کو یقین دلایا ہے کہ حرمین شریفین کو کسی نوع کا خطرہ ہوا تو پاکستان سعودی عرب کے ساتھ کھڑا ہو گا۔ وزیر اعظم نے دو روزہ دورے کے دوران فرمانروا شاہ سلمان اور ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان سے ملاقاتیں کیں۔ حالیہ دنوں سعودی عرب کی تیل تنصیبات پر میزائل حملے کے بعد مشرق وسطیٰ میں کشیدگی کی تازہ لہر محسوس کی جا رہی ہے۔ امریکہ نے اس حملے کا ذمہ دار یمن کے حوثی باغیوں کو قرار دیتے ہوئے ایران پر ملوث ہونے کا الزام عائد کیا ہے۔ وزیر اعظم کی سعودی فرمانروا اور ولی عہد سے ملاقاتوں میں مقبوضہ کشمیر کی صورت حال اور دو طرفہ تجارتی تعاون بڑھانے کے امکانات پر بھی بات کی گئی۔ پاکستان اور سعودی عرب نے انیس سو ستر کے عشرے میں تزویراتی تعلق کا فیصلہ کیا۔ اس سے پہلے دونوں ملکوں کے درمیان معمول کے برادرانہ تعلقات تھے۔ سقوط مشرقی پاکستان کے بعد پاکستان کو معاشی اور سیاسی حمایت کی ضرورت تھی۔ دوسری طرف عرب اسرائیل جنگ میں عرب بہت سا نقصان اٹھا کر غیر عرب مسلم ممالک کے ساتھ اتحاد کے خواہاں تھے۔ ترکی‘ پاکستان ملائشیا اور انڈونیشیا اہم ریاستیں تھیں۔ پاکستان کے وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے مسلم امہ کو مشترکہ معاشی اور سیاسی اہداف پر مرکوز کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ یہ الگ بات کہ ذوالفقار علی بھٹو‘ شاہ فیصل اور معمر قذافی بعدازاں بین الاقوامی اسٹیبلشمنٹ کی سازش کا شکار ہوئے تاہم او آئی سی اس زمانے میں ایک متحرک تنظیم کے طور پر ابھری جس نے فلسطین‘ کشمیر اور مسلمانوں کی معاشی طاقت کے متعلق اپنا مخصوص موقف اجاگر کیا۔ سعودی عرب اور پاکستان بعدازاں افغانستان میں سوویت مداخلت کے خلاف ایک دوسرے کے اتحادی بنے۔ نائن الیون کے واقعات کے نتیجے میں امریکہ نے دہشت گردی کے خلاف جنگ کا نعرہ لگایا اور افغانستان پر یلغار کر دی۔ پاکستان اور سعودی عرب نے عالمی امن کے لئے اس موقع پر قابل قدر کردار ادا کیا۔ بلا شبہ سعودی عرب نے ہر اس موقع پر پاکستان کی مدد کی جب ہمیں اس کی ضرورت تھی۔ پاکستان پر جب ایٹمی دھماکے کرنے کی پاداش میں پابندیاں لگائی گئیں تو سعودی عرب نے بھر پور مدد فراہم کی۔ اس کے بعد بھی تعاون کا یہ سلسلہ جاری رہا۔2013ء میں میاں نواز شریف تیسری بار وزیر اعظم بنے تو سعودی عرب نے ایک ارب ڈالر سے زاید رقم عطیہ کی۔ جولائی 2018ء میں عمران خان وزیر اعظم منتخب ہوئے تو قومی معیشت غیر ملکی قرضوں کے بوجھ تلے سسک رہی تھی۔ وزیر اعظم نے اپنا پہلا غیر ملکی دورہ سعودی عرب کا رکھا۔ سعودی عرب نے دست تعاون بڑھایا اور پاکستان میں سرمایہ کاری کے متعدد منصوبوں سمیت مدد کا وعدہ کیا۔ سعودی عرب کی طرف سے پاکستان میں آئل ریفائنری لگانے کا وعدہ اور تین سال تک ادھار 9ارب ڈالر کا تیل مہیا کرنے کا معاہدہ ہوا۔ سعودی ولی عہد جوابی دورے پر تشریف لائے تو وزیر اعظم عمران خان نے انہیں سعودی عرب میں مقیم محنت کشوں کے مسائل کی طرف متوجہ کیا۔ سعودی ولی عہد نے سعودیہ میں قیدپاکستانی قیدی رہا کرنے کا اعلان کرکے ان کے لواحقین کے سینے میں ٹھنڈک ڈال دی۔ ان قیدیوں کی رہائی تاحال نہیں ہو سکی مگر اس کی جلد توقع کی جا رہی ہے۔ سعودی عرب کو مشرق وسطیٰ میں ایک کٹھن صورت حال کا سامنا ہے۔ ایک طرف خطے کا امن اور امت مسلمہ کی وحدت کا خیال ہے تو دوسری طرف اسے اندیشہ ہے کہ ایران کے حامی گروپ پورے مشرق وسطیٰ میں سعودی مفادات کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔ سعودی عرب کے لئے سب سے زیادہ تشویش یمن میں برسر پیکار حوثی باغی ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ ان باغیوں کی سرپرستی ایران کر رہا ہے۔ حوثی باغی کئی بار سعودی حدود میں میزائل فائر کر چکے ہیں۔ ان میزائلوں کو سعودی دفاعی نظام نے اکثر اوقات فضا میں ناکارہ بنا دیا تاہم رواں ہفتے تیل کمپنی آرامکو پر حوثیوں کا میزائل حملہ سعودی عرب کے لئے خطرے کی علامت ہے۔ آرامکو بنیادی طور پر امریکی کمپنی ہے جس نے 1970ء کی دہائی میں سعودی عرب کے مستند تیل ذخائر کا حجم110ارب بیرل بتایا تھا۔ ایک رپورٹ بتاتی ہے کہ سال 2019ء کی پہلی ششماہی میں آرامکو نے 46.9ارب ڈالر کا منافع کمایا ہے جو گزشتہ برس کی نسبت 12فیصد کم ہے۔ آرامکو اپنے حصص بیچنا چاہتی ہے۔ گزشتہ ماہ بھارت کے ریلائنس گروپ نے آرامکو کے 12ارب ڈالر کے لگ بھگ حصص خریدے۔ آرامکو کے تیل ذخائر ہمیشہ سخت سکیورٹی میں رہتے ہیں۔ امریکہ نے سعودب عرب کو میزائل ڈیفنس سسٹم فراہم کر رکھا ہے۔ لیکن اس بار یہ نظام بھی کام نہیں کر سکا۔ آرامکو پر حملہ دراصل اب امریکہ‘ بھارت سعودی عرب کے مشترکہ مفادات پر حملہ تصور کیا جا رہا ہے اس لئے عالمی سطح پر ایک اضطراب موجود ہے کہ کچھ عالمی طاقتیں جواب کے پردے میں امت مسلمہ کو تقسیم کرنے اور مزید نقصان پہنچانے کی کوشش کر سکتی ہیں۔ وزیر اعظم عمران خان نے یقینا سعودی عرب کو درپیش داخلی و خارجی چیلنجز پر مدد کی یقین دہانی کراکے 21کروڑ پاکستانیوں کی ترجمانی کی ہے۔ پاکستان اپنے اس موقف کا ہمیشہ اعادہ کرتا آیا ہے کہ وہ مسلمان بھائیوں کے جھگڑے میں کسی ایک فریق کا ساتھ دینے کی بجائے ان کے درمیان تنازعات کو حل کرنے میں مدد دینے کا خواہاں رہا ہے۔حرمین شریفین کے احترام اور تحفظ کے لئے پاکستان کا وعدہ غیر مشروط ہے۔ مشرقی وسطیٰ پہلے ہی جنگوں کی آماجگاہ بنا ہوا ہے۔ اس پر کوئی نئی چنگاری مزید تباہی کا باعث ہو سکتی ہے۔پاکستان اس صورت حال میں امن کی خاطر خواہ کردار ادا کر سکتا ہے جس کے لیے دو طرفہ مشاورت کا سلسلہ جاری رکھنے کی ضرورت ہے۔