محترم مولانا فضل الرحمن نے بہت سرمارا، لیکن حزب اختلاف کی دو سب سے بڑی سیاسی جماعتیں ،پاکستان مسلم لیگ نون اور پاکستان پیپلز پارٹی ، وزیراعظم عمران خان کی حکومت گرانے کے لیے سڑکوں پر آنے، احتجاج کرنے اور کسی قسم کا آخری قدم اْٹھانے کے لیے فی الوقت تیار نہیں۔ یہی وہ واضح پیغام تھا جو جمیعت علماء اسلام فضل الرحمن گروپ کی طرف سے 9 جولائی کو کراچی میں منقد ہونے والے صوبائی سطح کی کْل جماعتی اجلاس سے پاکستانیوں کو ایک بار پھر ملا۔ اجلاس کے بعد جاری ہونے والے پندرہ نکاتی اعلامیے میں اٹھارویں ترمیم کے خلاف کسی مبینہ سازش کا ذکر بھی تھا اور یہ عہد بھی کہ نیشنل فائنینس کمیشن ایوارڈ میں صوبوں کے لیے قومی وسائل میں جو حصہ مقرر ہے اس میں کٹوتی منظور نہیں کی جائے گی۔ باقی تیرہ نکات میں حکومت پر وہی روائیتی تنقید تھی جو حزب اختلاف دن و رات کرتی رہتی ہے جس میں معاشی صورتحال پر تشویش کا اظہار، اسٹیل ملز سے کارکنوں کی برطرفی کی مذمت اور کرونا وائرس اور ٹدی دل جیسے مسائل شامل تھے۔ خود مولانا فضل الررحمن نے اجلاس کے بعد پریس کانفرنس میں اعتراف کیا کہ حزب اختلاف کی جماعتوں کا صرف "ایک موقف پر متفق ہونا کافی نہیں" بلکہ اس کے بعد کے اقدامات پر یکجہتی کا مظاہرہ کرنا ضروری ہے جن پر "کچھ شکائیتیں پیدا ہوئی ہیں۔" یعنی کہ حزب اختلاف کا اس اجلاس کا خلاصہ ہم اور آپ تین لفظوں میں بیان کرسکتے ہیں -- نشستن، گفتن، برخاستن۔ حکومتی حلقوں کے لیے یقنناً یہ خبر باعث اطیمنان ہوگی کہ گزرے ہوئے کل کی طرح، آج بھی مولانا کے ساتھ میدانِ عمل میں نکلنے کے لیے کوئی سیاسی قوت تیار نہیں، یعنی کہ حزب اختلاف بٹی ہوئی ہے۔ جی ہاں، ایک طرف محترم مولانا حکومت کو للکارنے اور گرانے کے لیے روز اول کی طرح پرْجوش ہیں، دوسری طرف دونوں بڑی جماعتوں کے قائدین ہوش کا دامن چھوڑنے کے لیے تیار نہیں۔ آخر ان رہنماوں کی سوچ اور حکمت عملی میں اتنا فرق کیوں ہے؟ اور کیا آنے والے دنوں میں حزب اختلاف کے درمیان سوچ کی یہ خلیج کم ہوتی نظر آرہی ہے؟ مولانا فضل الررحمن کے نکتہ نظر سے دیکھا جائے تو حکومت کے ساتھ محازآرائی بڑھانے اور اسے گرانے کی کوششوں میں وہ اپنے لیے امکانات دیکھ رہے ہیں۔ گو کہ ان کی جماعت کے درجن بھر سے زیادہ اراکین قومی اسمبلی میں موجود ہیں، لیکن کیونکہ خود مولانا صاحب ایوان سے باہر ہیں، اس لیے وہ حکومت سے چھٹکارا حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ، پارلیمینٹ کو بھی گھر بھیجنے کے متمنی ہیں۔ عمران خان کی بے رحمانہ تنقید کی زد میں رہنے کی وجہ سے مولانا صاحب کے لیے یہ مسلہ صرف سیاسی نہیں بلکہ اب ذاتی بھی بن گیا ہے۔ حکومتی ایوانوں میں تبدیلی کی صورت میں مولانا کسی ایک بڑی حزب اختلاف کی جماعت کے ساتھ نتھی ہو کر پھر اقتدار میں چھوٹے سہی، لیکن ساجھیدار بن سکتے ہیں۔ یعنی مولانا کہ پاس اس جوئے میں کھونے کو کچھ نہیں، لیکن پانے کے لیے بہت کچھ ہے۔ مولانا کی ترجیحات اپنی جگہ پر پیپلز پارٹی اور نون لیگ کے اس نظام سے مفادات وابسطہ ہیں۔ پیپلز پارٹی سندھ میں حکمراں جماعت ہے اور اس کی قیادت یہاں مذید پانچ سال حکومت کر کے صوبے میں اقتدار کی ہیٹ ٹرک مکمل کرنا چاہے گی۔ قبل از وقت انتخابات کا جوا پیپلز پارٹی صرف اس قوی اْمید پر کھیلی گی جب یہ واضح اشاراہ ملے گا کہ طاقت کے کھیل میں اس کا حصہ کم ہونے کے بجائے بڑھے گا۔ اسی طرح نون لیگ قومی اور پنجاب اسمبلی میں اراکین کی تعداد کے حساب سے ملک کی دوسری بڑی جماعت ہے۔ اس کی قیادت کا ایک حصہ اس مفروضے پر قائل ہے کہ اگر وہ صبر کا دامن چھوڑے بنا، اسی رفتار سے چلتے رہیں تو اقتدار کی ہما ادھر اْدھر جانے کے بجائے، ایک دن خود بخود ان ہی کے سر پر آن بیٹھے گی۔ یعنی کے نون لیگی بھی واضح اشارے اور صیح لمحے کے منتظر ہیں۔ جہاں تک پیپلز پارٹی اور نون لیگ کے فوری مسائل تھے، یعنی کے ان کے قائدین کی برائے علاج رہائی، وہ تو حل ہو ہی چکے ہیں، اس لیے انہیں محازآرائی بڑھانے کی کوئی جلدی نہیں ہے۔ ماضی کی ان دونوں حکمراں جماعتوں کو اندازہ ہے کہ تحریک انصاف حکومت تمام تر کمزوریوں اور پے در پے غلطیوں کے باوجود ابھی اس نہج پر نہیں پہنچی جہاں زماں و مکاں اس کے خلاف ہوگئے ہوں۔ وزیراعظم عمران خان کی عوامی مقبولیت برقرار ہے اور ریاستی اداروں کے ساتھ ہم آہنگی بظاہر متاثر نہیں ہوئی ہے۔ اس محاذ پر تحریک انصاف کو فوری خطرہ نہیں۔ ان جماعتوں کو یہ بھی اندازہ ہے کہ وہ جلسے جلوس اور تحریک چلا کر حکومت پر زیادہ دباو نہیں ڈال سکتیں۔ اس میں ان کی داخلی کمزوریوں اور تضادات کا بھی دخل ہے، انہیں اپنی عوامی طاقت کی حدود کا بھی اندازہ ہے اور اس کے ساتھ یہ خدشہ بھی ہے کہ بنا واضح اشارے کہ مہم جوئی کے نتیجے میں لینے کے دینے نہ پڑ جائیں۔ ان دونوں جماعتوں کی اعلی قیادت کے سر پر لٹکتی احتساب کی تلوار اور مہم جوئی کے نتیجے میں پورے نظام کا بوریا بستر گول ہونے کا اندیشہ اپنی جگہ ایک حقیقت ہے۔ پاکستانی سیاست کے نشیب و فراز سے واقفیت رکھنے والے جانتے ہیں کہ ایسی صورت میں جمہور کے مبینہ قائدین کے لیے رونے والے کم اور ان کے انجام پر مٹھائی بناٹنے والوں کی تعداد کہیں زیادہ ہوگی۔ یعنی نون لیگ اور پیپلزپارٹی کے پاس کھونے کو بہت کچھ ہے۔ اس لیے عمران خان حکومت پر تمام تر تنقید کے باجود ، حزب اختلاف کے گھاگ کھلاڑی سیاسی حدت کو ایک مناسب سطح سے آگے لے جانے کے حق میں نہیں۔ نون لیگ اور پیپلز پارٹی کی نظر صرف حکومت، اس کے حمائیتوں اور مبینہ سرپرستوں پر ہی نہیں بلکہ ایک دوسرے پر بھی ہے۔ ان میں سے کوئی بھی دوسرے کو یہ اجازت نہیں دے گا کہ وہ اس کے کندھوں کو استعمال کرکے ایوان اقتدار میں جا پہنچے، جب تک کہ انہیں خود اس میں اپنا کوئی مفاد نظر نہ آئے۔ یعنی کے سیاسی اکھاڑے میں حزب اختلاف کے پہلوان کتنے ہی گرجیں برسیں، اپنی ران پر ہاتھ مار کر پینترے دکھائیں، لیکن ان میں سے کوئی بھی حکومت سے حقیقی پنجہ آزمائی اور زور کرنے کے لیے تیار نہیں، کیونکہ ابھی اس کا وقت نہیں آیا۔ حکومت کو حقیقتاً حزب اختلاف سے فوری خطرہ نہیں۔ اگر وزیراعظم عمران خان کے لیے کوئی چیلنج ہے تو وہ ان کی اپنی ٹیم کی کارکردگی ہے، جس کے متعلق صیح یا غلط یہ خیال اور تصور زور پکڑتا جا رہا ہے کہ وہ مختلف محازوں پر نہ صرف کمزور کارکردگی کا مظاہرہ کر رہی ہے بلکہ اس سے پے در پے غلطیاں سرزد ہورہی ہیں۔ کیا عمران خان خود تنقیدی کرتے ہوئے یہاں سے حالات کا رخ موڑ پائیں گے؟ یہی ان کی حکومت کے لیے سب سے بڑا سوال ہے۔