حسن جعفری کی کہانی آپ کو پرملال کر دے گی۔ اگر آپ چاہتے ہیں کہ آپ کا دل اداسی کی گرد سے بچا رہے اور آپ کی آنکھوں میں افسوس کی نمی نہ اترے تو بہتر ہے آپ یہ تحریر نہ پڑھیں۔ حسن جعفری کا تعلق میڈیا انڈسٹری سے ہی تھا لیکن وہ کوئی بڑا صحافی‘ کوئی مشہور کالم نگار‘ کوئی سلیبرٹی اینکر پرسن نہ تھا ۔بس ایک معمولی سا، عام سا فوٹو گرافر تھا۔ سارا دن اپنی پھٹیچر موٹر سائیکل پر سڑک گردی کرتا۔ خبروں سے جڑی تصاویر کی تلاش میں رہتا۔ تاوقتیکہ کہ خود ایک المیہ خبر بن گیا۔ ایک عام فوٹو گرافر کی موت کسی بھی طرح قابل ذکر نہیں ہوتی۔ کیونکہ اس کی موت سے کوئی خلا پیدا نہیں ہوتا۔ اس کی ’’شاندار‘‘ صحافتی خدمات بھی نہیں ہوتیں کہ جس پراسے خراج تحسین پیش کیا جائے۔ تو پھر میں کیوں ایک عام فوٹو گرافر کی موت پر کالم لکھ رہی ہوں۔! اس کی زندگی میں ہم اس سے بے خبر رہے۔ وہ اپنی پرانی موٹر سائیکل پر سارا دن شہر کی سڑکوں پر پھرتا۔ ایک فنکشن سے دوسرے فنکشن تک کیمرے کی کلک کلک میں تصا ویر اکٹھی کرتا اپنے بچوں کی روزی روٹی کا سامان کرنے کی تگ و دو میں مصروف رہا۔ مہینے بھر کی اس ساری مشقت کا اسے مبلغ چھ ہزار روپیہ معاوضہ ملتا تھا۔ سچی بات ہے اس معاوضے کو تو تنخواہ کہتے ہوئے بھی شرم آتی ہے۔ ایک مہینے کا مبلغ چھ ہزار کمانے والا فوٹو گرافر حسن جعفری دو بیٹوں ایک بیٹی کا باپ اورایک عدد بیوی کا شوہر تھا ۔ظاہرہے اس سے وابستہ سارے انسان ان تمام حاجتوں اور ضرورتوں سے جڑے ہوئے تھے جو سانس کی ڈوری کو برقرار رکھنے کے لئے ضروری ہیں۔ وہ چھ ہزار میں زندگی کی ضرورتیں کیسے پوری کرتا تھا کم ازکم میں اس مسئلہ فیثا غورث پر سوچ کر اپنا دماغ ہلکان نہیں کرنا چاہتی۔ کیونکہ میں جب سوچتی ہوں کہ پانچ لوگوں کے گھر کا بجٹ مبلغ چھ ہزار میں کیسے بن سکتا ہے تو دماغ چکرانے لگتا۔ خیر وہ اپنے گھر کا سربراہ تھا سو اس کی ضرورتیں پوری کرنے کے لئے اسے دفتر کے کاموں کے لئے علاوہ کئی کام کرنے پڑتے زندگی تو زندگی ہے۔ اپنا پورا تاوان طلب کر کے ہی ٹلتی ہے۔ چاہے بیگار کاٹتے کاٹتے زندگی ہی چلی جائے۔ حسن جعفری ایک اخبار کا فوٹو گرافر… اسی طرح زندگی کی ناگزیر ضرورتیں پوری کرنے کی تگ و دو میں زندگی کی سڑک پر سرپٹ بھاگ رہا تھا کہ ایک شام موت کے پانیوں میں جاگرا۔ وہ جس المناک موت سے دوچار ہوا اس نے ہر اہل درد اور اہل دل کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔ میں تو حسن جعفری کو جانتی تک نہ تھی جب تک کہ میں نے اس کی وہ تصویر نہیں دیکھی تھی جس میں حسن جعفری نارسا خوابوں اور تشنہ خواہشوں سے دور محض ایک ڈیڈ باڈی بن کے رہ گیا تھا۔ اس کی نعش گارے اور مٹی سے اٹی تھی اور اس کے بے جان وجود کے ساتھ اس کا کیمرہ ویسے ہی لٹک رہا تھا جیسے وہ اپنی زندگی میں کیمرہ کاندھے پر لٹکائے تصاویر کی تلاش میں نکلتا تھا۔ بے اختیار میرے منہ سے نکلا۔in the line of duty،مگر کون سی ڈیوٹی جس کا معاوضہ اسے مبلغ چھ ہزار روپے ملتا تھا۔ سوشل میڈیا پر اس تصویرنے صحافتی حلقوں میں ایک کہرام برپا کر دیا۔ اس کے حق میں آوازیں اٹھنے لگیں۔ میں جانتی تھی کہ یہ سوشل میڈیا کا کہرام ہے۔ دو دن گزریں گے اور یہ جھاگ کی طرح بیٹھ جائے گا اور پھر کس کو حسن جعفری کی یہ المناک موت یاد ہو گی۔ کالم لکھنے کا مقصد اس قرض کو ادا کرنے کی کوشش ہے جو حسن جعفری ہمارے نام پر چھوڑ گیا ہے۔ میڈیا اخبار کا ہو یا برقی‘ پراسرارطورپر ایک زوال کا شکار ہے۔ برسوں اس کار زار میں اپنی زندگی کھپانے والے لوگ بسا اوقات کئی کئی ماہ تنخواہوں کے بغیر یا پھر معمولی ترین تنخواہوں پرکام کرنے پر مجبور ہیں۔ حسن جعفری کی المناک موت کے بعد منظر عام پر آنے والی تصویر جس میں اس کے بے جان وجود کے ساتھ اس کا کیمرہ لٹک رہا ہے۔ مٹی اور گارے کی صورت تشنہ آرزوئیں اس کے بے جان جسم کے ساتھ لپٹی ہوئی ہیں‘ ایک بھر پور علامتی اظہار ہے، شعبہ صحافت میں کام کرنے والے ہزاروں ورکروں کی حالت زارکا۔ شہر نگاراں میں صورت یاراں کی بربادی کا موسم ہے! واقفان حال جو کہانی سناتے وہ بہت المناک ہے۔ وہ جمعے کی شام ساڑھے سات بجے پریس کلب سے اپنی کھٹارہ موٹر سائیکل پرگھر کے لئے نکلا تھا۔ راستے میں مغل پورہ پل کے پاس ایک تیز رفتار گاڑی نے ٹکر ماری تو نہر میں جا گرا۔ آغاز میں صرف موٹر سائیکل ملی۔ اس کی نمبر پلیٹ پر پریس لکھا ہوا تھا۔ یہیں سے حسن جعفری کا کُھرا ملا۔پھر ایک لمبی کہانی ہے۔ پریس کلب میں خبر کا پہنچنا۔اس کے ساتھیوں کا جائے حادثہ پر آنا۔1122کے ماہرین کی کوششوں بالآخر حسن جعفری کی ڈیڈ باڈی تلاش کی گئی۔ شعبہ صحافت میں 25‘30سالہ خواری کا حاصل شاید صحافی کالونی کا وہ پلاٹ تھا جس کو بیچ کر اس نے تین مرلہ کا ایک گھر قریب ہی ایک سستی ہائوسنگ سوسائٹی میں بنایا۔ کرایے کے مکانوں سے جان چھوٹ گئی لیکن زندگی کے دیگر مسائل تو جوں کے توں تھے ۔زندگی کی ہر ضرورت پیسہ مانگتی ہے۔ وہ بچوں کی پڑھائی ہو یا پھر ان کی شادی۔ یہاں تک کہ موت بھی اس کے لئے آسان نہ تھی۔ تجہیز و تدفین کے اخراجات بھی اس کی ایک ماہ کی تنخواہ سے زیادہ تھے۔ سوازراہ انسانیت اس کی تدفین کے فرائض اس کے دفتر کی طرف سے ادا کئے گئے۔ بیٹی کی شادی کے لئے وہ پریشان رہتا تھا وسائل نہیں تھے مگر بیٹی کی محبت میں تمنائی تھا کہ اسے رخصت کرتے ہوئے زندگی کی ہر خوشی دے۔ بے شک وہ ایک معمولی فوٹو گرافرتھا۔ مگر باپ تو تھا نا! حسن جعفری کی زندگی کی کہانی ہمارے سامنے ہے۔ وہ خود تو زندگی کی ضرورتوں اور معاملات سے دور چلا گیا اور سیف الدین سیف کے اس شعر کی تصویر بن گیا ؎ مرنے والوں پہ سیف حیرت کیوں موت آسان ہو گئی ہو گی مگر حسن جعفری کی ذات سے جڑے ہوئے لوگ اس کی بیوہ‘ اس کی بیٹی اور بیٹے ابھی زندگی کا تاوان بھرنے کو زندہ ہیں۔ کوئی ہے جو ان کی مدد کو آئے! کوئی ہے جو حسن جعفری کا قرض ادا کرے! ارباب اختیار! صحافتی تنظیمیں،پریس کلب ، صحافتی اشرافیہ، کوئی اہل درد!