میں اس وقت ایک ایسے جھونپڑے میں بیٹھا ہوں جس کی مرشد اقبال نے آرزو کی تھی۔ دامن میں کوہ کے اک چھوٹا سا جھونپڑا ہو اس جھونپڑے کے بیک یارڈ سے تا حدِ نگاہ جنگل ہی جنگل ہے۔ اس جنگل میں صنوبر ہی صنوبر ہیں۔ پابہ گل سر بہ فلک صنوبر۔ ان کی مخصوص خوشبو فضا میں رچی بسی ہوئی ہے۔ بندر درختوں کی شاخوں پر اٹھکیلیاں کر رہے ہیں۔ یہ سارا جنگل وادی میں ہے اس فضائے سبزگوں میں پتلی سی مٹیالی پگڈنڈی نیچے تک جاتی ہے۔ سنا ہے وہاں چیتے بھی رہتے ہیں مگر میں نے کبھی نہیں دیکھا۔ یہ خانس پور ہے ‘ علاقے کا بلند ترین اور حسین ترین مقام جو تقریباً8000فٹ بلندہے ایک بار میں نے یہاں کے گیم وارڈن سے پوچھا کہ سنا ہے کہ یہاں چیتے رہتے ہیں۔ گیم وارڈن نے برجستہ جواب دیا کہ بھائی صاحب کوئی زیادہ تو نہیں دو چار دانہ ہو گا۔ میں نے کہا کہ انسان کو ڈرانے اور بھگانے کے لئے تو ایک دانہ بھی کافی ہوتا ہے۔ اس پر ہمارے پٹھان گیم وارڈن نے کمال سنجیدگی سے جواب دیا بھائی صاحب اس میں ڈرنے کا کوئی بات نہیں۔ آپ جیب میںکپڑا مپڑا رکھیں جب چیتا سامنے آئے تو اس کے منہ میں ٹھونس دیں۔ یہ جواب سن کر ہمارا ہنس ہنس کر برا حال تھا مگر گیم وارڈن صاحب کی سنجیدگی نے اس پر لطف مزاح کو شاہکار بنا دیا۔ گویا ان کے نزدیک چیتے کے منہ میں کپڑا ٹھونسنا اتنا ہی آسان تھا جتنا میاں مٹھو کو چوری کھلانا۔ مری سے لے کر ایبٹ آباد تک پچاس ساٹھ کلو میٹر کا علاقہ گلیات کہلاتا ہے۔ اس سارے علاقے کا موسم نہایت ہی خوشگوار ہے۔مری کی بلندی کوئی ساڑھے چھ سات ہزار فٹ ہو گی مگر گلیات‘ ایوبیہ اور خانس پور کی بلندی آٹھ ہزار فٹ ہے۔ مری اور خانس پور کے موسم میں وہی فرق ہے جو ملتان اور مری کے موسم میں ہے۔ اس علاقے کا سب سے پرکشش وہ واکنگ ٹریک ہے جو ڈونگا گلی سے ایوبیہ تک آتا ہے اور پھر آگے مری تک جاتا ہے۔ انگریزوں نے ڈونگا گلی سے مری تک پانی لے جانے کے لئے پائپ لائن بچھائی تھی اور اس کے ساتھ ساتھ جنگل میں ایک ٹریل بھی بنائی تھی تاکہ جنگل میں لمبی سیر کا لطف لیا جا سکے۔ ملک نعیم خانس پور کے جدی پشتی رہائشی ہیں۔ ملک نعیم صاحب نے ہمیں ڈونگا گلی سے لے کر ایوبیہ تک کی ٹریل کی کہانی سنائی جو دلفریب بھی ہے اور دلفگار بھی۔ انہوں نے ہمیں ایوبیہ میں یہ ٹریل دکھائی بھی۔ ملک صاحب نے بتایا کہ انہوں نے اپنے ایک سو دس سالہ ایک بزرگ سے سنا تھا کہ انگریزوں نے اس ٹریل کو نہایت خوبصورت بنایا تھا۔ اس پر گھاس اگائی اور دو رویہ پھول لگائے۔ ایوبیہ کے قریب پہنچ کر یہاں ڈیڑھ دو کلو میٹر سرنگ بنائی گئی تاکہ ساتھ آٹھ میل کی مسافت سے بچا جا سکے۔ تقریباً اس سرنگ کی چوڑائی تقریباً دس گیارہ فٹ اور اونچائی تیرہ چودہ فٹ تھی۔ انگریزوں نے اس سرنگ کے اندر بھی گھاس اگایا۔ ٹنل کے اندر سے گھڑ سوار آسانی سے گزر جاتے تھے۔ تاہم اس گھوڑے کو سرنگ میں داخل ہونے کی اجازت نہ دی جاتی جس کے پائوں میں نعل لگے ہوتے تاکہ گھاس نہ کچلی جائے۔ ملک صاحب ہمیں خانس پور کی طرف وہ ٹنل دکھانے لے گئے۔ ٹنل کے دہانے پر اس کی تاریخ تکمیل 1891ء لکھی تھی۔ یہاں تک تو اس ٹریل کا دلفریب ذکر تھا اب دلفگار پہلو کی طرف آئیے۔ ڈونگا گلی سے آنے والی ٹریل کو اہل ایوبیہ نے کچرا پھینک پھینک کر اس رومانوی راستے کو تقریباً بند کر دیا ہے اور مزید ستم یہ ڈھایا ہے کہ ڈیڑھ دو میٹر کے ٹنل کے اندر اتنا کچرا پھینکا گیا ہے کہ اب وہ مکمل طور پر بند ہو چکاہے۔ گلیات میں حسن فطرت کی بے حجابی دیکھ کر پہلی نظر میں گمان گزرتا ہے کہ آپ یورپ میں پھر رہے ہیں مگر قدم قدم پر گندگی اور غیر شائستگی کے شاہکار آپ کو بتا اور سمجھا دیتے ہیں کہ نہیں آپ اپنے پیارے پاکستان میں ہی پھر رہے ہیں۔اب ڈونگا گلی والی یہ ٹریل اور ایوبیہ و خانس پور کے درمیان واقع یہ ٹنل اگر یورپ میں ہوتی تو اس کی کیسے کیسے حفاظت کی جاتی۔ اس کی تاریخی اہمیت کے کیا کیا قصیدے پڑھے جاتے اور خوبصورت سیاہ و سفید گھوڑے مہیا کئے جاتے جن پر سوار ہو کر ٹنل سے گزرنے کا سیاّح لطف اٹھاتے اس کے لئے بھاری ٹکٹ لگایا جاتا جسے لوگ بخوشی ادا کرتے۔ ہمیں جناب مستنصر حسین تارڑ جیسی جہاں گردی تو نصیب نہیں ہوئی مگر چند ملکوں میں جانے اور وہاں قیام کرنے کا موقع ملا ہے۔ یورپ بالخصوص انگلستان کے انگریزوں نے تو اپنے ملک کے چپے چپے کی سیاسی ‘تہذیبی اور ادبی تاریخ محفوظ کر لی ہے۔ پاکستان میں ٹورازم کو فروغ دینے والے زیادہ نہیں صرف لیک ڈسٹرکٹ انگلستان جا کر ورڈز ورتھ کی جائے رہائش دیکھ کر آئیں اور پھر واپس آ کر میکلوڈ روڈ پر علامہ اقبالؒ کی رہائش گاہ دیکھ لیں۔ دونوں کا موازنہ کریں اور پھر بتائیں کہ کیا ہمیں آئندہ کم از کم پچاس برس تک فروغ سیاحت کا نام لینا چاہیے یا نہیں۔ ورڈز ورتھ کی رہائش گاہ میں ان کی ایک ایک چیز محفوظ ہے اور نہایت ہی سلیقے سے اس کی صفائی ستھرائی کا اہتمام کیا گیا ہے۔ یہاں علامہ کی یہ رہائش گاہ بدترین قسم کا کھنڈر ہے۔ گھر کے سامنے کے لان پر ورکشاپوں نے قبضہ کر لیا ہے۔ میں نے اوپر صرف ورڈز ورتھ کی مثال دی ہے۔ وگرنہ شیکسپیئر سے لے کر شرلاک ہومز کے خالق آرتھر کونن ڈائل تک سینکڑوں شعرا اور ادباء سے منسوب مختلف جگہوں کو محفوظ کر لیا گیا ہے اور انہیں دیکھنے والے سیاح وہاں داخلہ ٹکٹ ادا کرتے ہیں۔ گلاب خان ہمارے اور پروفیسر حنیف صدیقی کے ہمدم دیرینہ ہیں۔ گلاب خان ایک بہت بڑی کمپنی الجفالی میں ملازم تھے۔ وہاں انہیں کئی قومیتوں سے تعلق رکھنے والے ماہرین کے ساتھ تیس برس سے زیادہ کام کرنے کا موقع۔ ہزارہ کے انتہائی خوبصورت پہاڑی مقام اُگی کے رہنے والے ہیں۔ ایبٹ آباد میں بھی ان کا گھر ہے خان صاحب ازراہ عنایت و محبت ملاقات کے لئے خانس پور آئے اوربااصرار میزبانی کے لئے ہمیں نتھیا گلی لے کر گئے گلاب خان کے ساتھ ممتاز ماہر ارضیات ڈاکٹر سعید جدون بھی تشریف لائے۔ ڈاکٹر صاحب پاکستان کے چپے چپے سے واقف ہیں۔ ڈاکٹر صاحب علم کا چلتا پھرتا خزانہ ہیں۔ میں نے ڈاکٹر صاحب سے ازراہ تجسس پوچھ لیا کہ کیا پاکستان میں سونا اورتانبا وغیرہ ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے کہا کہ شمالی علاقہ جات میں وہ وہ کچھ ہے کہ اگر اس کا ہزارواں حصہ بھی قابل استعمال بنا لیا جائے تو پھر دس بیس ارب ڈالر بے معنی محسوس ہوں گے پھر آپ ارب ہا ڈالرزکے مالک ہوں گے۔ ڈاکٹر صاحب نے انکشاف کیا کہ مستقبل کی اڑتی ہوئی اور زمینی کاریں جس فیول سے اڑیں اور سڑکوں پر دوڑتی نظر آئیں گی وہ شمالی علاقہ جات میں بڑی کثیر مقدار میں موجود ہے۔ عرض کیا وہ کیا فیول ہے؟ کہنے لگے وہ تھوریم ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے اس سے آگے جو کچھ بتایا وہ کالم میں لکھا جا سکتا ہے اور نہ ہی کسی ٹیم پروگرام میں پیش کیا جا سکتا ہے۔ البتہ اگر جناب عمران خان چاہیں تو ڈاکٹر صاحب اپنی علمی تحقیق اور عملی پروگرام ان کو پیش کر سکتے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب نے 18برس تک اٹلی کی ایک اعلیٰ پائے کی سرامک فیکٹری میں کام کیا ہے اور وہاں کی مٹی کو سونے میں بدلا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ یہاں پاکستان میں سونا مٹی کے بھائو بک رہا ہے۔ میں نے مزید کریدنے کی کوشش کی تو ڈاکٹر سعید جدون نے کہا کہ پراچہ صاحب عقل مند کے لئے اشارہ ہی کافی ہے۔ شکر ہے ڈاکٹر صاحب نے ہیں عقل مند تسلیم تو کیا۔ اگر کسی میں طلب صادق ہو گی تو وہ مجھ سے رابطہ کر لیں گے۔ میں سحر زدہ ہو کر ہمہ تن گوش تھا۔ اچانک گلاب خان نے ہمیں مخاطب کرتے ہوئے کہا حضرات ! بسم اللہ کیجیے کھانا حاضر ہے۔ کھانے کے بعد ہم نتھیا گلی کا وہ گورنر ہائوس دیکھنے گئے جہاں عمران خان بھی سیروسیاحت کے لئے آتے رہتے ہیں۔ ہم نے پاسباں کے بہت قدم لئے مگر اس نے کہا کہ یہ گورنر ہائوس ہما شما کے لئے نہیں کھلتا۔ صرف وہی وی آئی پیز کے لئے استعمال ہوتا ہے۔ قصہ مختصر یہ کہ گلیات میں حسن فطرت اپنے جلوے بکھیر رہا ہے اور گرمیوں میں خنک موسم کی رعنائیاں دامن دل کو تھام لیتی ہیں میری رائے میں گلیاں میں سیاحت کا ٹھیکہ کسی بیرونی کمپنی کو دے دینا چاہیے پھر دیکھیں یہاں جدید سہولتوں اور پروفیشنل آداب کے ساتھ سیاحت کئی گنا بڑھتی ہے یا نہیں۔