امام جعفر صادق علیہ السلام مسند امامت پر متمکن تھے اور آپ کے علم و عرفان کا دریا ٹھاٹھے مار کر بہہ رہا تھا اور دین مصطفوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دیوانے آپ کے علم و عرفاں کی خیرات سے اپنی پیاس بجھا رہے تھے کہ 7 صفر المظفر 128ہجری کو آپ کے نورانی و عرفانی کاشیانہ ء اقدس میں حضرت امام موسیٰ کاظم علیہ السلام کی ولادت باسعادت ہوئی ۔ اگرچہ امام موسیٰ کاظم علیہ السلام سے پہلے آپ کے دو بڑے بھائی حضرت اسماعیل و حضرت عبداللہ علیہماالسلام پیدا ہو چکے تھے مگر اس صاحبزادے کی ولادت سے روحانی امانت (جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اس سلسلہ کے افراد میں ایک دوسرے کے بعد چلی آرہی تھی )کا لائق اور حامل یہی پیدا ہونے والا مبارک بچہ تھا۔ ’’امام موسیٰ کاظم علیہ السلام اسی مقدس سلسلہ کے ایک فرد تھے جن کو خالق کائنات جل وعلا نے نوع انسان کے لئے معیار کمال قرار دیا تھا ۔ا س لئے ان میں سے ہر ایک اپنے وقت میں بہترین اخلاق و اوصاف کا مرقع تھا،بے شک یہ ایک حقیقت ہے کہ: بعض افراد میں بعض صفات اتنی ممتاز نظر آتی ہیں کہ سب سے پہلے ان پر نظر پڑتی ہے ،چنانچہ امام موسیٰ بن امام جعفر صادق علیہما السلام میں تحمل و برداشت اور غصّہ کو ضبط کرنے کی صفت اتنی نمایاں تھی کہ آپ کا لقب (کاظم علیہ السلام) قرار پا گیا جس کے معنی ہیں غصّہ کو پینے والا ۔آپ علیہ السلام کو کبھی کسی نے ترش روئی اور سختی کے ساتھ بات کرتے نہیں دیکھا ،آپ علیہ السلام انتہائی ناگوار حالات میں بھی مسکراتے ہوئے نظر آئے ۔ ’’ مدینہ کے ایک حاکم کی طرف سے آپ علیہ السلام کو سخت تکلیفیں پہنچیں ،یہاں تک کہ وہ جنابِ امام موسیٰ کاظم علیہ السلام کی شان میں نازیبا الفاظ استعمال کیا کرتا تھا ،مگر آپ علیہ السلام نے اس کے جواب میں کبھی کوئی کلمہ اپنی زبان مبارک سے نہ نکالا ،جب اس کی گستاخیاں بہت زیادہ بڑھ گئیں تو آپ علیہ السلام کے محبین و متوصلین نے آپ کی بارگاہ میں اس کی شکایات کیں اور یہ کہا کہ: اب ہم میں ضبط کی تاب نہیں آپ ہمیں اس سے انتقام لینے کی اجازت عطا فرمائیں ،آپ علیہ السلام نے ان کی جزباتی باتیں سننے کے بعد ارشاد فرمایا: میں خود اس کا تدارک کروں گا اس طرح آپ نے ان کے جزبات میں سکون پیدا کرنے کے بعد بنفسِ نفیس خود اس حاکم کے گھر پر تشریف لے گئے ،اور اس کے لئے خورد و نوش کی اشیا ء بھی ساتھ لے گئے ،اور کچھ ایسا احسان اور سلوک فرمایا کہ: وہ اپنی گستاخیوں پر نادم ہوا اور اپنے طرزِ عمل کو بدل دیا ۔ امام موسیٰ کاظم علیہ السلام نے اپنے محبین سے اس صورت حال کو بیان فرما کر پوچھا کہ: جو سلوک میں نے اس کے ساتھ کیا وہ اچھا ہے یا جس طرح تم لوگ اس کے ساتھ کرنا چاہتے تھے و ہ اچھا تھا ۔؟ سب کہنے لگے حضور ! آپ نے جو طریقہ اختیار کیا ہے وہ سب سے اچھا ہے ۔ ’’اس طرح آپ نے اپنے جدّبزرگوار حضرت مولا علی کرم اللہ تعالیٰ وجہ کے اس ارشاد کو عمل میں لا کر دکھلایا جو آج تک نہج البلاغۃ میں موجود ہے کہ: اپنے دشمن پر احسان کر کے فتح حاصل کرو کیونکہ یہ بڑی فتح ہے اس میں زیادہ لطف و کامیابی ہے ۔ بے شک اس کے لئے فریق مخالف کے ظرف کا صحیح اندازہ ضروری ہے ، اور اسی لئے حضرت مولا علی علیہ السلام ان الفاظ کے ساتھ یہ بھی فرمایا ہے کہ : خبردار یہ عدم تشدد کا طریقہ نا اہل کے ساتھ اختیار نہ کرنا ورنہ اس کے تشدد میں اضافہ ہوجائے گا۔یقینا ایسے عدمِ تشدد کے موقع کو پہچاننے کے لئے ایسی ہی بالغ نگاہ کی ضرورت ہے ،جیسی حضرت سیدنا امام موسیٰ کاظم علیہ السلام کو حاصل تھی ۔ ’’آپ علیہ السلام کی خاموشی اور برد باری آپ کی سیرت کا نکھار تھی جو اہل دنیا کو آلِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعلیمات سے رو شناس کرا تی تھی۔آپ اپنی محافل میں بھی اکثر بالکل خاموش رہتے تھے یہاں تک کہ: جب تک آپ سے کسی امر کے متعلق کوئی سوال نہ کیا جاتا ،آپ گفتگو میں ابتداء بھی نہ فرماتے تھے ، اس کے باوجود آپ کی علمی جلالت کا سکہ دوست اور دشمن سب کے دلوں پر قائم تھا اور آپ کی سیرت کی بلندی کو سب مانتے تھے ،اسی لئے عام طور پر آپ کو کثرت عبادت اور شب زندہ داری کی وجہ سے (عبد صالح) کے لقب سے یاد کیا جاتا تھا ،آپ کی سخاوت اور فیّاضی کا بھی خاص شہرہ تھا ،آپ فقراء مدینہ کی اکثر پوشیدہ طور پر خبر گیری فرماتے تھے ۔تلاوتِ قرآنِ پاک اتنی درد بھری آواز میں فرماتے تھے کہ:سننے والوں کے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ،اور ان کی آنکھوں سے بلا ساختہ آنسو رواں ہو جاتے تھے ۔ ’’جب امام موسیٰ کاظم علیہ السلام کی شہرت کا چرچہ ہر سو ہونے لگا اور عوام و خواص آپ کی عزت و تکریم کے قائل ہوگئے دن بدن آپ کا حلقہ احباب بڑھنے لگا تو اس وقت کے حکمرانوں کو فکر لاحق ہو گئی توحاکم وقت نے آپ کو مدینہ منورہ زادھااللہ شرفا وتعظیما سے گرفتارکرنے کا حکم دے دیا، گرفتار کرنے کے بعد امام موسیٰ کاظم علیہ السلام پر قید و بند میں سخت مظالم ڈھانے کے بعد183 ہجری میں پچپن سال کی عمر میں آپ علیہ السلام کو سندی بن شاہک کے قید خانے میں زہر دے کر شہید کیا گیا ۔ جس قبرستان میں آپ علیہ السلام کی تدفین ہوئی بعد میں وہ قبرستان آپ کی صفت کاظم (غصّہ پینے والا) سے موسوم ہو کر کاظمین کے نام سے مشہور ہوگیا ۔ اہلِ ایمان دنیا بھر سے امام موسیٰ کاظم علیہ السلام کے مزار پر انوار پر عقیدت و احترام سے حاضر ہوتے ہیں اور دنیا بھر کے کاظمی سادات کرام کا سلسلہ نسب آپ علیہ السلام سے جا ملتا ہے ۔