یوں تو سندھ کا چپہ چپہ اولیاء اللہ کی انوار سے منور ہے مگر جو شہرت و قبولیت حضرت شاہ عبداللطیف بھٹائی رحمۃ اللہ علیہ کو ملی وہ کسی اور کے حصے نہ آئی۔ ایک طرف تو ان کا ورع تقویٰ ہے اور دوسری طرف دلوں کو موہ لینے والی اور روحوں میں پیوست ہونے والی شاعری ہے ۔ ان کے پاکیزہ نغموں سے سندھ کے گاؤں گاؤں،گلی کوچے آج بھی گونج رہے ہیں۔ ان کے کلام کی سب سے بڑی خصوصیت یہ ہے اس سے تعلیم یافتہ طبقہ بھی لطف اندوز ہوتا ہے اور ناخواندہ طبقہ بھی ان کے اشعار میں لذت محسوس کر رہے ہیں۔ آج بھی عورتیں گھروں میں، کسان کھیتوں میں، اور بچے گلیوں میں، صوفیاء خانقاہوں میں اور واعظین اپنے خطابوں میں شاہ صاحب علیہ الرحمۃ کے کلاموں کو پڑھتے ہیں۔ سلسلہ نسب:آپ کا نسب کچھ اس طرح ہے ، شاہ عبداللطیف بھٹائی بن سید حبیب شاہ بن سید عبدالقدوس بن سید جمال بن سید عبدالکریم بن سید للہ۔ آپ کی والدہ مخدوم عربی دیانہ کی صاحبزادی تھی، آپ کاتعلق کاظمی سادات سے تھا، اس خاندان کے ایک بزرگ سید حیدر 801ھ میں سندھ تشریف لائے اور ہالہ میں سکونت اختیار کی، پھر سید حیدر کے کچھ افراد خاندان بُلڑی میں آباد ہوگئے اسی شاخ سے سید عبدالکریم متعلوی ہیں جو شاہ عبداللطیف کے پردادا ہیں، شاہ عبداللطیف کے والد سید حبیب شاہ بہت ہی عابد و زاہد بزرگ تھے ، زیادہ تر استغراق کے عالم میں رہتے تھے ۔ ولادت: آپ کی ولادت ہالہ حویلی میں 18 نومبر 1011ھ بمطابق 1689 ء دورِ عالمگیری میں ہوئی۔ مشہور یہی ہے کہ شاہ اُمی تھے او ر کسی درسگاہ میں آپ نے باقاعدہ تعلیم حاصل نہیں کی، اس کے باوجود آپ کو عربی فارسی اور ہندی زبانوں پر عبور حاصل تھا، قرآن مجید، حدیث، تصوف اور دوسرے علوم پر آپ کو کامل دستگاہ حاصل تھی۔ جب صحراء نوردی سے فارغ ہوئے تو بھٹ کو اپنے قیام کے لئے پسند فرمایا اس وقت آپ کی عمر 26سال تھی۔ سندھی زبان میں بھٹ ریت کے ٹیلے کو کہتے ہیں۔ تبلیغ کے سلسلوں میں آپ روزانہ کئی کئی میل پیدل سفر کرتے اور راستے میں جتنی گاؤں آتے ، قافلے ملتے یا کوئی بھی شخص ملتا اس کو دین کی دعوت دیتے تھے ۔ آپ نے سندھ کا سارا علاقہ پیدل گھوما اور لوگوں میں ایمان کے ذر و جواہر لٹائے ۔ یوں اسلام کی اسی خدمت میں آپ کی شاعری اور شخصیت میں ایک نکھار پیدا کردیا۔ آپ نگری نگری، قریہ قریہ سفر کر کے اپنا فیض عام پہنچاتے رہے ، ان کا سفر، سفر وسیلہ ظفر تھا، عمر بھر آپ کے توسل سے نیکی، اعتماد اور پاکیزگی کی دولت لوگوں میں تقسیم ہوتی رہی۔ شاہ صاحب نے قرآنی تعلیمات کے فروغ کے لئے جو خدمات انجام دیں وہ سنہری حروف میں لکھنے کے قابل ہیں۔ سندھی زبان میں آپ نے اسلام کی تبلیغ اور قرآنی تعلیمات کے فروغ و اشاعت کا کام لے کر اس زبان کو غیر معمولی بنا دیا، اس زبان کو آپ نے اپنے افکارِ جلیلہ کے ذریعہ منصب اولیٰ تک پہنچا دیا اوریہ زبان زندہ جاوید ہو گئی۔ آپ کی جدت، ندرت اور اندازِ بیان نے لوگوں کو مسخر کر دیا۔ آپ نے عملی طور پر یہ بات ثابت کی کہ سندھی اور عربی زبان کا ایک ہی مشن ہے کہ اسلام کی تبلیغ اور قرآنی تعلیمات کی ترویج و اشاعت کی جائے ، شاہ عبداللطیف بھٹائی نے سترہویں اور اٹھارویں صدی کے کئی انقلابات دیکھے ، اورنگزیب کی وفات کے وقت آپ کی عمر 18 سال تھی، آپ نے وہ وقت بھی دیکھا جب نادر شاہ نے سندھ کو لوٹا اور وہ وقت بھی دیکھا جب احمد شاہ ابدلی نے سندھ کو دہلی کے ماتحت کیا۔ شاہ صاحب کو اِن انقلابات نے بہت متأثر کیا یہی چیز ان کی شاعری کے لئے ممیز ثابت ہوئی۔ شاہ صاحب نے اپنی شاعری میں رومانی داستانون کو بنیاد بنایا ہے تاکہ لوگ ذوق و شوق سے سنیں اور معاشرتی اوچ نیچ انسانیت کی محبت اور اللہ کی محبت کا درس دیا ہے ۔ ان کی شاعری میں تصوف اور شریعت کا حسین امتزاج ہے ، آپ کے دیوان کا نام’’ شاہ جو رسالو‘‘ہے یہ کلام ان کے مریدوں اور فقیروں نے جمع کیا تھا، بعض مریدوں کو تو پورا ازبر تھا، ہاشم تمر اور بلال کے متعلق یہ مشہور ہے کہ شاہ صاحب کا کوئی شعر ایسا نہ تھا جو ان زبانی یاد نہ ہو۔ اوصاف : شاہ صاحب علیہ الرحمۃ دیگر اولیاء اللہ کی طرح غرباء سے بے حد محبت تھی اس میں مزید اضافہ اس اوچ نیچ کے باعث ہوا جو اس انقلابی دور میں پیدا ہو چکی تھی، مشہور ہے کہ ایک مرتبہ شاہ صاحب شاہ بندر گئے قریب ہی شتربانوں میں ٹھہرے آپ کو کچھ اونٹوں کے چیخنے چلانے کی آواز سنائی دی فرمایا کہ یہ اونٹ کیوں بل بلا رہے ہیں انہوں نے بتایا کہ یہاں قریب میں ایک گاؤں ہے جس کا حاکم بڑا ظالم انسان ہے اگر کوئی اونٹ والا ادھر سے نکل آتا ہے تو یہ شخص روئی کے گولے بنوا کر اونٹوں کی ٹانگوں میں بندھوا دیتا ہے پھر انہیں آگ لگوا تا ہے اونٹ اس عمل کی تکلیف سے بل بلا رہے ہیں، شاہ صاحب کو اونٹوں پر بڑا رحم آیا اور ایک شعر پڑھا جس کا خلاصہ یہ ہے ۔’’یہ محل غارت ہوں، شتر بانوں کے خیمے آباد رہیں،میں اونٹوں کو کبھی نہیں بھول سکتا شتربان ہمیشہ آباد رہیں اور ان کو ستانے والے دودھ کو ترسیں‘‘پھر شاہ صاحب نے اونٹ والوں سے کہا جاؤ میرے بیٹو! کچھ دن نہیں گزرتے کہ کھر قوم کے محل ویران ہو کر اونٹوں کے بیٹھنے کی جگہ بنیں، کہتے ہیں کہ کچھ دن بعد پورے کا پورا گاؤں ویران ہو کر اونٹوں کے بیٹھنے کی جگہ بنا۔ آپ کو اپنے وطن سندھ سے بے پناہ محبت تھی، ایک دوہڑے میں فرماتے ہیں۔’’ میرا جی چاہتا ہے کہ اپنے وطن تھر کی ٹھنڈی مٹی اپنے سر پر ڈالوں، اگر میں پردیس میں مر جاؤں تو میری لاش کو ملیر میں دفن کر دینا‘‘۔شاہ صاحب کی شاعری کی لذت تو اصل زبان سندھی میں ہے مگر اس کے نظریات ہر زبان میں فکر انگیز اور وجد آور ہیں۔ فرماتے ہیں: ’’دیکھو لطیف! گھنے بادل نیچے آ رہے ہیں اور پانی کی بڑی بڑی بوندیں پڑنے لگیں، اپنے بیلوں کو باہر نکالو اور میدانوں کا رخ کرو، یہ وقت مایوس بیٹھنے کا اور سستی کرنے کا نہیں، لو دیکھو پہوار پڑنے لگی۔ شاہ عبداللطیف بھٹائی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے عقیدے اور شاعری میں جگہ جگہ محبوب حقیقی کی اطاعت کی تلقین کی ہے ، آپ نے اللہ تعالیٰ سے سچا عشق ہمیشہ قائم رکھا۔ خدا کی قربت آپ کی منزل تھی، آپ نے اس منزل کی رسائی کے لئے حضور صلی اللہ علیہ کی ذات والا صفات کو ذریعہ بنایا۔ شاہ صاحب فرماتے ہیں‘‘ دنیا میں اضطراب اور بے چینی کا صرف ایک علاج صرف توحید کے عقیدے کی استقامت ہے اور خدا کی ذات پر بھروسہ دلوں کی تسکین کا باعث ہے ۔آپ کا تصوف زندگی آموز ہونے کے ساتھ زندگی آمیز بھی ہے ، آپ خدا کے خود سچے عاشق تھے اور آپ کی ہمیشہ خواہش کہ سب لوگ بھی خدا کو صحیح طورپراور بخوبی پہچان لیں تاکہ بے راہ روی اور گمراہی ان کے قریب سے بھی نہ گزرے ۔آپ کا خیال ہے کہ قرآن مجید کی تعلیمات ہی ہموار اور کشادہ راہ پر سفر کرنے کے لیے حقیقی جذبہ پیدا کرتی ہے اور یہ جذبہ جب کسی کے اندر پیدا ہوجائے تو پھر وہ اپنی منزل سے کبھی نہیں بھٹکتا۔شاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ کا ایمان ہے کہ اگر کوئی شخص عشق کو اپنا راہ نما اور ضابطہ اخلاق بنالے تو وہ کامیاب وکامران ہوجاتا ہے ، آپ کا اپنے دور کے مسلمانوں پر بڑا حسان ہے ، آپ نے خدا اور رسول اور کتاب کا بیک وقت درس دیا، اس درس کی بدولت جو لسانی اعتبار سے جدا جدا ہیں نظریہ اسلامی کی روشنی میں ایک امت کہلاتی ہیں، آپ کا کلام پڑھنے کے بعد فکر و تجسس کی راہیں از خود واضح ہو جاتی ہیں۔ آپ عربی زبان کی شاعرانہ لذت سے بھی آشنا تھے ، فارسی زبان کا فہم و ادراک بھی رکھتے تھے ۔آپ کو دین سے اتنی محبت تھی کہ آپ اس کو اخوت کا سرچشمہ سمجھا اور سب کو اتحاد و یگانگت کا درس دیا۔ آپ کا نظریہ فقط ایک تھا اور وہ انسان دوستی سے عبارت نظریہ تھا جس میں پاکیزگی بھی تھی اور سچائی بھی تھی، اور درمندی کے جذبات کوٹ کوٹ کر بھرے ہوئے تھے ۔شاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے لوگوں کو چند روز حیات کی وقعت سے آگاہ کرنے کے لئے اور زندگی کے وسیع تر اور جامع تر نظریئے کو سمجھانے کے لئے ا س کے ازلی کا ذکر بڑے ہی پر اثر انداز سے کیا ہے ۔ وفات:آپ 63 سال کی عمر میں 1165ھ 1752ع میں واصل بحق ہوئے اور وہیں دفن ہوئے ۔اللہ تعالیٰ آپ کی مزار پر انوار پر کروڑہا رحمتیں نازل فرمائے ، اور اپنے حبیب کے صدقے میں سارے امت کی مغفرت فرمائے ۔ آمین بجاہ النبی الکریم الامین