وسیب کی سرزمین ذرخیز ہونے کے ساتھ ساتھ مردم خیز بھی ہے۔ اس خطے میں بڑے بڑے علماء ، اولیاء اور اصفیاء پیدا ہوئے۔ ان میں ایک نام حضرت خواجہ محمد یار فریدیؒ المعروف بل بل چمنستان رسالتؐ کا ہے۔ آپ کے حالات زندگی سے شناسائی ہمارے لیے مشعل راہ ہے۔ حضرت خواجہ محمد یار فریدیؒ 1300ھ بمطابق 1883ء خان پور کے نواحی قصبے گڑھی اختیار خان میں پیدا ہوئے۔ اپنے وقت کے چند علماء مولانا رحمت اللہ، مولانا محمد حیات اور مولانا تاج محمود سے دینی تعلیم حاصل کی اور تحصیل علم کے بعد اپنے مرشد حضور حضرت خواجہ فریدؒ کی پیروی میں رشدو ہدایت کا سلسلہ شروع کر دیا۔ آپ کی تبلیغ کا بنیادی مقصد انسان دوستی اور مخلوق خدا سے پیار تھا۔ 1915ء میں آپ کو حج کی سعادت حاصل ہوئی۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ آپ کے چاہنے والوں کا سلسلہ وسیع سے وسیع تر ہوتا گیا۔ سرائیکی وسیب کے ساتھ ساتھ آپ کے عقیدت مندوں اور اردادتمندوں میں پورے ہندوستان تک کے لوگ شامل تھے۔ خصوصاً لاہور میں آپ کے عقیدت مند کثیر تعداد میں ہیں۔ ایک روایت کے مطابق علامہ اقبالؒ بھی آپ سے متاثر تھے اور ایک مرتبہ علامہ نے حضرت خواجہ محمد یار فریدیؒ سے سرائیکی کلام سنا اور بہت گریہ فرمایا۔ حضرت خواجہ محمد یار فریدیؒ کا وصال 14 رجب المرجب 1367ھ بمطابق مئی 1947ء لاہور میں ہوا۔ معروف مذہبی سکالر سید محمد فاروق القادری لکھتے ہیں کہ ایک محفل میں مولانا محمد یار فریدی سچے فاضل بریلوی مولانا احمد رضا خان بریلویؒ کی موجودگی میں منبر پر بیٹھایا گیا۔ آپ نے خطبہ شروع کیا تو فاضل بریلوی نے اُٹھ کر آپ کے گلے میں ہار ڈالا اور شاندار الفاظ میں آپ کی تحسین فرمائی۔ معروف دانشور اور نعت گو شاعر حفیظ تائب خواجہ محمد یار فریدی کی بیاض دیوان محمدی میں لکھتے ہیں کہ خواجہ محمد یار فریدیؒ نے اپنے کلام میں پتھروں کو بھی رلا دینے والی تاثیر پیدا کی ہے اور یہ اعجاز صرف عرفاء کا ہی حصہ ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ خواجہ باقی باللہؒ، بابا بلھے شاہؒ، شاہ لطیفؒ، رحمان باباؒ اور خواجہ فریدؒ جیسے بزرگوں نے ’’احمد بلامیم‘‘ کی بھی بات کی ہے مگر نعت و منقبت میں نظریہ وحدت الوجود کا برملا اظہار جس طرح خواجہ محمد یار فریدیؒ نے فرمایا ہے اس کی کوئی دوسری مثال میری نظر سے نہیں گزری۔ حضرت خواجہ محمد یار فریدیؒ کم سنی میں خواجہ فرید کے ہاں دست بیعت ہوئے۔ 1901ء میں خواجہ فرید کا وصال ہوا تو سلوک کی منزلیں خواجہ سئیں کے صاحبزادے خواجہ نازک کریم نے طے کرائیں۔ خواجہ محمد یار فریدیؒ کے دیوان میں جہاں اپنے مرشد خواجہ فرید سئیں کو انہوں نے خراج عقیدت پیش کیا ہے وہاں حضرت نازک کریم کی بھی بہت تعریف کی ہے۔ حضرت خواجہ محمد یار فریدیؒ نے اپنے مرشد خواجہ فرید کے کلام کی شرح لکھنا شروع کی مگرزندگی نے وفا نہ کی اور یہ کام ادھورا رہ گیا میں سمجھتا ہوں کہ عارف کے کلام کی شرح ایک عارف ہی کر سکتا ہے۔ میری تجویز ہے کہ خواجہ محمد یار کی شرح شائع ہونی چاہئے۔ دربار خواجہ محمد یار فریدیؒ گڑھی اختیار خان کے سجادہ نشین خواجہ غلام قطب الدین فریدیؒ دربار سے ملحق لائبریری کمپیوٹر اکیڈمی، کنونشن ہال، ڈسپنسری ہاسٹل اور پل کی تعمیر کے منصوبے پر تیزی سے کام کرا رہے ہیں۔ اندرون اور بیرون ملک اپنے والے عقیدت مندوں کی اعانت سے یہ عظیم الشان منصوبے تکمیل کے مراحل کے قریب ہیں۔ ان منصوبہ جات کے ساتھ طلباء و طالبات کیلئے الگ الگ ہائی سکول اور کالجز کی تعمیر کا منصوبہ بھی ہے، پس افتادہ سرائیکی خطے کیلئے یہ منصوبے کسی نعمت سے کم نہیں۔ خواجہ غلام قطب الدین فریدیؒ لائق صد تحسین ہیں۔ خواجہ غلام قطب الدین فریدی نے جہاں اتنا بڑا کام کیا ہے وہاں میری یہ بھی درخواست ہے کہ وہ اپنے علاقے کے ہونہار غریب طلبہ کیلئے ایک ایسی اکیڈمی ضرور بنائیں جو میٹرک و ایف ایس سی میں اچھے نمبر لینے والوں کو ڈاکٹرزانجینئرز اور کیڈٹس اور گریجویٹس کو سی سی ایس کی تیاری کرائیں۔ میرے نانا حضور حضرت مولانا یار محمد دھریجہؒ حضرت خواجہ محمد یار فریدیؒ کے ہمعصر تھے۔ دیوبند مسلک سے تعلق رکھنے کے باوجود میرے نانا حضور مولانا کو سچا عاشق رسولؐ اور کامل ولی قرار دیتے تھے۔ ہماری عمر اتنی تو نہ تھی مگر ہم اپنے نانا حضور سے مولانا کے بارے باتیں توجہ سے سنتے اور خوش ہوتے۔ لیکن صحیح تعارف اس وقت ہوا جب ہم اپنے علاقے کے عظیم واعظ حضرت مولانا خورشید احمد فیضی کی تقریروں سے مستفید ہوئے۔ مولانا خورشید احمد فیض کو اللہ تعالیٰ نے علم و عرفان کی دولت و افر مقدار میں عطا کی تھی اور وہ خطابت کے بے تاج بادشاہ تھے جب بولتے تو ہزاروں کے اجتماع میں مکمل سکوت طاری ہوتا۔ ان کا ہمیشہ خطاب سرائیکی میں ہوتا اور خطاب میں اردو فارسی کی بجائے ہمیشہ سرائیکی اشعار پڑھتے اور سب سے زیادہ اشعار خواجہ فرید اور خواجہ محمد یار فریدیؒ کے ہوتے، جب وہ ترنم سے شعر پڑھتے اور پھر اپنی پرسوز میٹھی آواز میں اس کی وضاحت کرتے تو سامعین پر اپنے اسلام سے عقیدت اور عشق و مستی کی ایسی کیفیت طاری کرتے کہ وہ بے خود ہو جاتے۔ اسی طرح ہر 27 رجب کو معراج شریف کے جلسہ میں وعظ خوش الحان عالم بے بدل حضرت مولانا عبدالشکور دین پوری ہمارے گائوں دھریجہ نگر تشریف لاتے، ان کو بھی خدا نے کیا ہی علم اور کیا ہی عرفان عطاء کیا تھا، بہت بڑے مقرر اور انسان دوست عالم تھے، دیوبندی مسلک کے باوجود ان کا خطاب صوفی شعراء کے اشعار سے مرصع ہوتا، آج پھر سے اسی طرح کی رواداری اور پیغام محبت کی ضرورت ہے۔ حضرت خواجہ محمد یار فریدیؒ صوفی شاعر تھے۔ آپ نے فارسی اردو اور سرائیکی میں شاعری فرمائی۔ سرائیکی وسیب میں ان کی شاعری خواجہ فرید کی شاعری کی طرح بہت زیادہ مقبول ہے اور مذہبی اجتماعات اور تصوف کی محافل میں بہت زیادہ محبت سے پڑھی اور سنی جاتی ہے۔ سرائیکی شاعری بارے الگ سے ایک مضمون اور ایک کتاب کی ضرورت ہے۔ آپ کے کلام میں مرشد کا رنگ اتنا گہرا ہے کہ بعض اوقات سامعین خواجہ محمد یار کے کلام کو خواجہ فریدؒ کا کلام سمجھ لیتے ہیں۔ خواجہ فرید کی طرح خواجہ محمد یار فریدیؒ نے بھی تصوف میں اپنی شاعری کے رنگ بکھیرے، آپ فرماتے ہیں۔ مذاہب دے جھگڑے اساں چھوڑ بیٹھے محبت دا جھگڑا چھڑا کوئی نئیں سگدا ملک کے معروف ادیب و ڈرامہ رائٹر اشفاق احمد بجا طور لکھتے ہیں حضرت خواجہ محمد یار فریدیؒ کا کلام پڑھتے ہی حیرانی ہوتی ہے کہ اس میں حضرت خواجہ فریدؒ کا لحن کہاں سے آگیا۔ ان کی ادائیگی کی گونج کدھر سے آگئی، ان کی سوچ کا ارتعاش کیسے شامل ہو گیا؟ بلا شبہ یہ مرشد کی اپنے مرید سے محبت کے بغیر ممکن نہیں۔ آج کی نفسانفسی انتہاء پسندی عدم برداشت اور دہشت گردی کے دور میں حضرت خواجہ محمد یار فریدیؒ کے سبق ’’ماراں کھادیں مار نہ آویں‘‘ کو پھر سے یاد کرنے کی ضرورت ہے۔