شہزادہ ٔ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سیدنا امام حسین علیہ السلام نے اسلام کی بقا اور احیا کے لیے اپنی اور اپنے رفقا کی قربانیاں پیش کیں، وطن چھوڑا، بھوک پیاس برداشت کی ، اہل حرم کی بے پردگی و اسیری برداشت کرنے کے لئے بھی آمادہ ہو ئے اور معصوم شہزادوں کی شہادت پر بھی راضی بارضا رہے صرف اس لیے کہ اسلام زندہ رہے اور اللہ تعالی کی رضا حاصل ہو۔72نفوس قدسیہ شہید ہوگئیں لیکن دین کی بالادستی قائم ہوگئی ، حق و باطل کے درمیان حد فاصل قائم ہوگئی ۔ امام عالی مقام علیہ السلام کی اس عظیم قربانی میں آپ کے خاندان کے ساتھ آپ علیہ السلام کے جانثار ساتھیوں کا کردار یقینا نمایاں ہے ۔ امام عالی مقام علیہ السلام نے ان ساتھیوں کے بارے میں فرمایا: ’’میں اپنے ساتھیوں سے زیادہ وفادار اور بہتر کسی کو نہیں جانتا ۔‘‘(تاریخ طبری ) امام عالی مقام علیہ السلام کے جانثاروں میں سے ایک سیدنا حربن یزید ریاحی تھے ۔ سیدناحر رضی اللہ عنہ بڑے بہادرانسان تھے اوراہل بیت علیہم السلام کے محبین میں سے تھے ۔جناب حر رضی اللہ عنہ زندہ ضمیر اور پاک طینت کے مالک تھے ۔آپ فوج میں ایک بڑے منصب پر فائز تھے ۔جس وقت سیدنا امام حسین علیہ السلام کے کوفہ آنے کی اطلاع ملی تو عبید اللہ ابن زیاد نے جناب حر رضی اللہ عنہ کو ایک فوجی دستے کی سپہ سالاری کے فرائض کے ساتھ امام حسین علیہ السلام کو روکنے کے لیے مامور کیا ۔(طبری) امام حسین علیہ السلام جس وقت ذوحسم کے مقام پر پہنچے تو جناب حر اور ان کی سپاہ سے سامنا ہوا۔ حقیقت یہ تھی کہ حضرت حر رضی اللہ عنہ جنگ کیلئے نہیں آئے تھے بلکہ وہ توصرف امام حسین علیہ السلام کو ابن زیاد کے پاس لانے کیلئے مامور تھے ۔حضرت حر رضی اللہ عنہ نے سیدنا امام حسین علیہ السلام کی قیام گاہ کے سامنے اپنے قافلے کو ٹھہرنے کا حکم دیا۔قیام کے دوران جناب حرنے امام عالی مقام علیہ السلام کی اقتدا میں نماز پڑھی اور اپنے آنے کا مقصد بیان کیا۔ امام عالی مقام علیہ السلام نے حضرت حر کو کوفہ والوں کی طرف سے دی گئی دعوت اور مسلسل لکھے ہوئے خطوط کے متعلق آگاہ کیا اور فرمایا اگر اتنے دعوت نامے موصول نہ ہوتے تو میں کوفہ روانہ نہ ہوتا۔یہ ساری صورت حال جان کر جناب حر رضی اللہ عنہ نے عرض کی جناب مجھے ان خطوط کے بارے میں کوئی علم نہیں ہے اور نہ ہی میں نے آپ کو کوئی خط لکھا ہے ، مجھے تو بس یہ حکم ملا ہے کہ آپ کو ابن زیاد کے پاس لے چلوں۔حضرت حر نے آپ کو تجویز دی کہ کوفہ اور مدینہ کے علاوہ کسی اور مقام کا انتخاب کریں۔ امام عالی مقام علیہ السلام نے جناب حر کے کہنے پر قادسیہ کا راستہ اختیار کیا ،اس دوران حربھی امام کے ساتھ ساتھ رہے ۔چلتے چلتے دونوں گروہ نینوا پہنچے تھے کہ جناب حر کو ابن زیاد کا خط ملا جس میں لکھا تھا کہ جیسے ہی تمہیں میراحکم نامہ ملے تم حسین (علیہ السلام)کے ساتھ سختی سے پیش آنا اور انہیں ایسی جگہ پڑاؤ ڈالنے پر مجبور کرو جہاں پانی نہ ہو۔میرا قاصد مسلسل تمہارے ساتھ رہے گاتا کہ وہ مجھے تمہارے متعلق خبر دے کہ تم نے میرے حکم کی تعمیل کی ہے یا نہیں۔جناب حر نے یہ خط امام کی خدمت میں پڑھ کر سنایا اور ساتھ ہی عرض کیا ،حضور آپ دن ٹھہرے رہیں رات کی تاریکی میں یہاں سے خفیہ طور پر نکل پڑیں۔ امام عالی مقام علیہ السلام نے سفر شروع کیا صبح ہوئی تو دیکھا کہ کربلا کی سر زمین میں پہنچے ہیں، اس جگہ کے بارے میں پوچھا تو ساتھیوں نے بتایا کہ یہ سر زمین کربلا ہے تو آپ نے وہیں خیمے نصب کرنے کا حکم دیا۔(طبری) حر نے ابن زیاد کو خط لکھا اور امام عالی مقام کے کربلا میں ٹھہرنے کی اطلاع دے دی ۔ابن زیاد نے پانچ ہزار کا لشکر عمرو بن سعد کو دے کر امام عالی مقام علیہ السلام کے خلاف جنگ کے لئے کربلا بھیجا۔عمرو بن سعد بد بخت نے 7 محرم الحرام کو پانی بند کیا اور 10 محرم الحرام کو ان نفوس قدسیہ کے ساتھ جنگ کی۔جناب حر نے جس وقت جنگ کی تیاری دیکھی تو ابن سعد سے کہا:تجھے اللہ کی مار ہو،اے بدبخت تو ابن رسول کے ساتھ جنگ کا ارادہ رکھتا ہے ؟اس نے کہا ہاں میں ان کے سروں کو کاٹ کر ابن زیاد کے پاس روانہ کروں گا۔جناب حر یہ سن کر لشکر امام کی طرف بڑھے اور آکر عرض کی:حضور میرے ایک طرف جہنم اور دوسری طرف جنت ہے ،پس میں جنت کو ہرگز نہ چھوڑوں گا۔میں کبھی آپ کے خلاف جنگ نہیں کرسکتا بلکہ میں آپ کے قدموں پر اپنی جان قربان کرنا چاہتا ہوں،کیا آپ میری خطا معاف فرمائیں گے ؟امام عالی مقام علیہ السلام نے جناب حر کو سینے سے لگایا اور فرمایا: اللہ توبہ قبول کرنے والا ہے ،ہم تم سے راضی ہیں۔یہ مژدہ سن کر جناب حر ابن سعد کے لشکر کی طرف آئے اور فرمانے لگے :اے کوفیو تمہاری مائیں تم پر روئیں،کیا تم نے امام کو دشمنوں کے حوالے کرنے کے لیے بلایا تھا؟کیا تم نے اپنی جانیں ان پر قربان کرنے کا وعدہ نہیں کیا تھا؟اور اب تم ان کی جان کے دشمن بنے بیٹھے ہو؟جناب حر کی گفتگو جاری تھی کہ لشکرِ ابن سعد نے ان پر تیر برسانے شروع کر دئیے ۔حر رضی اللہ عنہ وہاں سے نکل کر امام کی بارگاہ میں واپس آگئے ۔باقاعدہ جنگ شروع ہوگئی ،سب سے پہلے عبداللہ ابن عمر کلبی امام سے اجازت لے کر میدان جنگ کی طرف نکلے پھر حضرت بریر ہمدانی پھر حضرت وہب بن عبد اللہ،حضرت عمرو بن خالد ازدی،خالد بن عمرو،حضرت سعد بن حنظلہ،عمرو بن عبداللہ،حما دبن انس، وقاص بن مالک، شریح بن عبداللہ،مسلم بن عوسجہ،ابن مسلم عجوسہ،ہلال بن نافع بجلی،عبداللہ بن یزنی،یحی بن سلیم،عبد الرحمن بن عروہ، مالک بن انس،ہاشم بن عتبہ،فضل بن علی،حبیب بن مظاہر،حضرت حرہ، یزید بن مہاجر پھر انیس بن معقل میدان میں تشریف لائے اور اپنے اپنے جوہر دکھائے اور بہت سے دشمنوں کو واصل فی النار کرکے جام شہادت نوش کرتے گئے ۔ان 23 شہدا کے بعد جناب حر میدان میں تشریف لائے اور آتے ہی صفوان بن حنظلہ اور اور اس کے تین بھائیوں کو جہنم رسید کیا اور پھر امام عالی مقام کی بارگاہ میں آکر عرض کی:اے امام پاک مجھے بتائیے کہ کیا اللہ اور اس کا رسول صلی اللہ علیہ وسلم مجھ سے راضی ہیں؟امام عالی مقام نے حضرت حر رضی اللہ عنہ کو سینے سے لگایا اور فرمایا: بے شک اللہ اور اس کا رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آپ سے راضی ہیں۔جناب حر یہ سن کر خوشی سے میدان میں واپس پلٹے ، خدا کا قہر بن کر دشمنوں کے درمیان گھس گئے اور سینکڑوں اشقیا کو مولی گاجر کی طرح کاٹ کر واصلِ جہنم کیا۔ دشمن بھانپ گیا کہ جناب حر کو وہ اکیلے اکیلے لڑ کر شکست نہیں دے سکتے اس لیے ظالموں نے مل کر بھرپور حملہ کیا تیروں اور تلواروں سے ٹوٹ پڑے ،آخر کار آپ جام شہادت نو ش فرما گئے ۔ان کے بعد ان کے صاحبزادے ،مصعب بن یزیداور علی بن حر میدان میں نکلے ۔ان کے بعد نمرہ جو جناب حر رضی اللہ عنہ کے غلام تھے وہ بھی میدان میں آئے اور جام شہادت نوش کیا۔ان نفوس قدسیہ کے بعد اب خاندان نبوت کے چشم و چراغ میدان جنگ کی طرف آئے اور باری باری جام شہادت نوش کیا۔ اللہ تعالیٰ ان نفوس قدسیہ کے درجات کو مزید بلند فرمائے اور ہمیں ان کے صدقے استقامت دین کی توفیق عطا فرمائے ۔اٰمین(تاریخ طبری،انساب الاشراف، شہادت نواسہ سید الابرار)