رب ذوالجلال کی بے بدل مخلوق اسکے باری اور بے مثل ہونے پر برہان قاطع ہے خصوصاً انسان جو کہ شاہکار بوبیت اور حسن ازل کا عکس مطلق ہے ۔ ان میں بعض لوگ جن کو دیکھ کر ہی اللہ تعالیٰ کی یاد آجاتی ہے ، وہ کامل مرد اولیاء صالحین ہیں۔ برصغیر پاک و ہند میں بزرگانِ دین جن کے ہاتھ پر لاکھوں لوگ حلقہ بگوش اسلام ہوئے ان میں دوسرے سلاسل کی طرح سلسلہ قادریہ کے بزرگوں نے بھی اپنا اہم کردار ادا کیا۔ ان میں سلسلہ عالیہ قادریہ قطبیہ کے سرخیل حضرت خواجہ سائیں محمد عظیم قادری آف کھریپڑ شریف تحصیل پتوکی کا نام جلی نظر آتا ہے ۔ خواجہ محمد عظیم ولد نبی بخش قوم آرائیں جوکہ ایک متمول وبا اثر نمبردار خاندان سے تعلق رکھتے تھے جوکہ تقریباً 1895ء میں لاہور کے مغرب کی طرف دریائے راوی کے قریب واقع ’نین سکھ‘ گائوں میں پیدا ہوئے ۔ آپ نے ابتدائی تعلیم مقامی گائوں میں حاصل کی بعد میں طلبِ علم اور حصولِ دین کے لیے عازمِ سفر ہوئے ۔ پچپن ہی سے آپ کوعرفان ذات کی لگن دامن گیر ہوئی۔ آپ نے منچن آباد ضلع بہاولنگر اور بعد میں سہارن پور انڈیا سے سند فراغت حاصل کی۔ آپ کے اہم اساتذہ میں مولانا احمد علی سہارن پوری جوکہ علماء برصغیر میں مشہور اور سیدنا پیر مہر علی شاہ آف گولڑہ شریف کے بھی استاد ہیں شامل تھے تھے ۔ طالب علمی کے دور میں آپ نے بڑے مسائل برداشت کیے ،چنانچہ پورے زمانہ طالب علمی میں جوکہ تقریباً 30برس کا عرصہ تھا صرف تین دفعہ گھر واپس لوٹے اور خاندان سے بچ کر سفرعلم میں مسافر بنے اور کئی مصائب و آلام برداشت کیے ۔ آپ ایک بلند قامت، شکیل جوان، حسین، خوش گفتار واعظ، بہترین حکیم، جراح ، توانا پہلوان، بہترین عالم دین اور مناظر بھی تھے ۔ تکمیل تعلیم دین کے بعد آپ عرفانِ ذاتِ الٰہی کی طرف راغب ہوئے جو آپ کا بچپن سے نصب العین تھا۔ آپ کو بچپن میں حالتِ خواب میں حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کاکی رحمۃ اللہ علیہ جو کہ زہد الانبیاء حضرت بابا فرید الدین مسعود گنج شکر کے مرشد ہیں انہوں نے اسمِ اعظم کا ورد تلقین کیا۔ اسی طرح کئی اشارات جو آپ کو لڑکپن اور حصول علم کے دوران ملتے رہے ان کے مطابق تصوف کی طرف راغب ہوئے ، چونکہ آپ مناظر اور مسلک دیو بند سے تعلق رکھنے والے عالم تھے ۔ ایک فقیر کے اشارے نے آپ کے دل کی دنیا بدل دی۔ لہٰذا تصوف میں حصول ارادت کے لیے مختلف بزرگانِ دین کی خانقاہوں پر حاضری دیتے رہے ۔آپ خصوصاً چھ خانقاہوں پر حاضر ہوئے ۔ بالآخر سید شیر محمد گیلانی قادری آف فتح پور شریف نزد بنگلہ گوگیرہ کی بارگارہ میں حاضر ہوئے اور ان سے بعض امور تصوف پر شدید بحث کی لیکن آپ چونکہ نسبِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور اولاد سیدنا حیدر کرار سے اور صاحب حال ولی اللہ تھے ۔ آپ کے حلم و بردباری ، سخاوت و دریا دلی اور خصوصاً کشف سے متاثر زیردام آئے کہ جوپہلے مخالف مناظر تھے پھر مرید ِ صادق بن گئے اور ساحرانِ موسیٰ علیہ السلام کی طرح فوراً مطیع و مرید بن گئے اور 1930ء میں بارِ خلافت کے متحمل ہوئے ۔ آپ حضرت قبلہ سید شیر محمد گیلانی کے تمام خلفاء میں سب سے آخری خلیفہ ہیں لیکن سب کا فخر ثابت ہوئے ۔ حضرت شیر محمد گیلانی اپنے صاحبزادے سید غلام رسول گیلانی رحمۃ اللہ علیہ سمیت 5 اسوج 1931ء کو کھریپڑ شریف تشریف لائے اور تمام حاضرین میں اعلانِ صریح فرمایا کہ جس نے مجھے دیکھنا ہو یا مرید ہونا ہو وہ مولوی محمد عظیم صاحب کا مرید ہوجائے ۔ 1932ء میں حضرت سائیں شیر پاک کا وصال ہوا۔ آپ (خواجہ محمد عظیم) کی کھریپڑ شریف میں آمد اور قیام خانقاہ سے پہلے اس علاقہ کی حالت دگرگوں تھی ، مذہبی اعتبار سے یہ علاقہ بد عقیدگی اور بڑی پس ماندگی کا شکار تھا لیکن آپ کے فیضِ نظر سے یہی علاقہ پورے لاہور اور ساہیوال ڈویژن میں عرفان ذات الٰہی کا مرکز بنا ۔آپ ایک باعمل عالم، عابد شب زندہ دار، بے مثل متکلم واعظ ، ہمہ وقت یادِ خدا میں منہمک رہنے والے ،دکھی انسانیت کو گلے لگا کر ان کو عرفانِ ذات عطا کرنے والے ، ان کی ہر طرح کی خدمت کرنے والے اور اپنی مجالس میں تصوف و طریقت کے موتی بکھیرنے والے تھے ۔ آپ کے مریدین کی تعداد سینکڑوں یا صرف ہزار تک جاتی ہے لیکن ان میں سے ہر ایک صاحب ِ حال یا عرفانِ ذات والا متکلم تھا اگرچہ سیدھے سادھے اور مطلق کم علم دیہاتی تھے ۔ آپ کے معمولات میں ہر وقت مسجد میں قیام کرنا، خدمتِ خلق میں علاج یا معالجہ یا جراحی جو کہ اکثریت غریب و مساکین لوگوں کی ہوتی تھی۔ اس کے علاوہ روزانہ باقاعدہ درسِ تصوف جوکہ مثنوی مولانا روم سے تھا نمازِ ظہر سے پہلے فرماتے ۔ اس طرح نمازِ عصر کے بعد حضور غوث الاعظم کی کتاب فیضِ سبحانی کا درس ضرور دیتے ۔ آپ کی بارگاہ میں بڑے عاصی، فاسق اور بدمذہب لوگ فوراً تائب ہوجاتے ۔ سخاوت، دریادلی اور مالِ دنیا سے متنفر مزاج رکھنے والے تھے ۔ مستند عالمِ دین اور خطیب بے بدل ہونے کے ساتھ ساتھ ایک مناظر اور متکلم بھی تھے ، بعد از خلافت اس راہ میں بھی آپ نے ممتاز ملی ، دینی اور سماجی خدمات ادا کیں۔ آپ کی مشہور تصانیف میں سی حرفی ، آفتاب قادری اور دیوان عظیم جوکہ مسلک حنفی کی فقہی اور علم عقائد اہل سنت پر جامع کتاب ہے ۔ آپ کے 16 خلفاء ، پانچ بیٹے اورتین بیٹیاں ہیں۔ آپ کا وصال 4جنوری 1961ء کو ہوا اور اپنے گائوں کھریپڑ شریف میں راحت گیر ہوئے ۔ آپ کا مزار مرجع ِ خلائق اور شریعت مصطفی علیہ الصلاۃ والسلام کے مطابق عمل پیر اممتاز خانقاہ ہے ۔ آپ کے وصال کے بعد آپ کے بڑے صاحب زادے جناب خواجہ محمد اشرف المعروف لالہ پاک قادری رحمتہ اللہ علیہ سجادہ کی سپردگی اور امانتِ خلافت کے امین ہوئے ۔ انھوں نے بھی پوری زندگی استقامت فی الدین جو کہ ظاہری کرامت اور کشف سے اہم ہوتی ہے اس راہ پر گامزن رہے ۔ تعلیم دین، خدمت خلق ،غریب پروری، سادگی، عاجزی ،احترام آدمیت اور عبادتِ الٰہی آپ کے نمایاں اوصاف میں شامل ہیں۔ تحریک ختمِ نبوت ہو ، تحریکِ نظامِ مصطفی اور تحفظِ ناموس رسالت کی راہ میں آپ نے تن دہی اور ذمہ داری سے مدد فرمائی۔ آپ نے خانقاہوں پر مساجد، مزارات کو تعمیر کرنے میں ایک بے مثال کردار ادا کیا۔ ا19اپریل1996ء میں آپ کا وصال باکمال ہوگیا۔ ان کے بعد بڑے صاحبزادے جناب صاحبزادہ سردار احمد عالم رونق سجادہ ہوئے ۔ آپ کے اوصاف حمیدہ میں تعلیم و فروغ دین، خدمت خلق، اشاعت اسلام ، اتحاد ِ امت اور نظامِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ترویج ہے ۔ ہمہ وقت تبلیغِ دین ، تربیتِ علماء اور تکریم انسانیت آپ کا نصب العین ہے ۔ برصغیر پاک و ہند میں اشاعتِ اسلام میں مصروفِ عمل خانقاہی نظام کی واضح مثال کھریپڑ شریف ہے ۔خدائے بزرگ و برتر دکھی انسانیت، بے راہرو آدمیت کا راہبر یہ آستانہ تاقیامت قائم رکھے ۔ آمین خوشا مسجد و مدرسہ خانقاہے کہ دروے بود قیل و قالِ محمد