حقیقت و طریقت کا سرچشمہ،فیوض و برکات کا منبع و مخزن،اکابر مشائخ اوراولیائے کرام میں مشہو رشخصیت’ حضرت علی بن احمد بن جعفربن سلمان‘ جن کی کنیت ابو الحسن ہے ۔ 352ھ میں ایران کے علاقے بسطام کے ایک دیہات’ خرقان‘ میں ہوئی۔آپ وہ ولی کامل ہیں جن کی ابھی پیدائش بھی نہیں ہوئی تھی کہ اس وقت کے بڑے بڑے اولیاء کرام پیشین گوئیاں کرتے تھے ۔حضرت بایزید بسطامی رحمۃ اللہ علیہ کا معمول تھا کہ سال میں ایک مرتبہ مزارات شہداء کی زیارت کے لیے جایا کر تے اور جب خرقان کی سرزمین پر اپنے قدم رکھتے تو فضا میں منہ اوپر اٹھا کر سانس کھینچتے اور راحت محسوس کرتے جیسے کوئی خوشبو سونگھنے کے لیے سانس کھینچتا ہے اور راحت محسوس کرتا ہے ۔ ایک مرتبہ ایک مرید نے پوچھا کہ!’آپ کو کس چیز کی خوشبو آرہی ہے ؟ ہمیں تو کسی چیز کی خوشبو نہیں آرہی ہے ۔‘ آپ نے فرمایا ’’مجھے اس سرزمین خرقان سے ایک مرد حق کی خوشبو آرہی ہے ۔‘‘ حضرت خواجہ ابوالحسن خرقانی رحمۃ اللہ علیہ کو بچپن سے ہی اولیاء اللہ سے قلبی محبت، علم دین سے گہری وابستگی اور سلوک و احسان سے بے حد شغف تھااوراپنی خدادادصلاحیتوں کی بدولت کسب علوم شریعت اورتحصیل سلوک و طریقت میں کمال حاصل کیا۔ نیک لوگوں کی صحبت،ہمیشہ باوضواور عبادت و ریاضت میں وقت گزارتے ۔ آپ اپنے زمانے کے معروف علماء کرام اور صوفیا ء عظام سے ملاقاتیں کیں۔ پیدائش سے پہلے حضرت خواجہ بایزید بسطامی رحمۃ اللہ علیہ وفات پا چکے تھے ۔حصول فیض کے لئے آپ تقریباً 12سال تک بعد نماز عشاء روزانہ حضرت بایزید بسطامی رحمۃ اللہ علیہ کی مزار اقدس پر حاضر ہوتے اور پہنچ کر یہ دعا کرتے کہ ’’یا اللہ جو مرتبہ تونے بایزید بسطامی رحمۃ اللہ علیہ کو عطا کیا ہے وہی مجھے بھی عطا فرمادے ‘‘ اس دعا کے بعد خرقان واپس آکر نماز فجر ادا کرتے ،بارگاہ ایزدی میں آپ کی دعا نے شرف قبولیت پائی، آپ کو اویسی طریقہ پر بایزید بسطامی علیہ الرحمۃ سے باطنی فیض پہنچا،لیکن آپ کی نسبت بایزید بسطامی علیہ الرحمۃ تک چار واسطوں سے مستند بھی ہے ۔کہ آپ کی نسبت’حضرت ابومظفر موسیٰ طوسی‘سے اور ان کی’ حضرت خواجہ اعرابی بایزید عشقی‘ سے اور ان کی’حضرت خواجہ محمد مغربی ‘سے اور ان کی ’سلطان العارفین حضرت بایزید بسطامی‘ رحمۃ اللہ علیہم سے نسبت ہے ۔اور انہی کے فیض کو آپ نے تمام جہاں میں عام کیا،سلوک و احسان میں آپ نے وہ مقبولیت و محبوبیت پائی ہے جو بہت کم کسی کے نصیب میں آئی ہے ۔ سلسلہ نقشبندیہ کے شجرہ طریقت میں آپ کا نام بہت روشن ہے ۔ آپ کی خانقاہ کی یہ خصوصیت تھی کہ بڑے بڑے رئیس، مالدار، حکیم و طبیب، سائنسدان، شعراء اور اھل علم بھی اس سے مستفیض ہوتے ۔چنانچہ ایک مرتبہ آپ کی خانقاہ میں ذکر کی محفل جاری تھی، لفظ اللہ کے فضائل اور اس کے ظاہری باطنی فیوض وبرکات پر بیان ہورہا تھا۔ اسی محفل میں حکیم بو علی سینا جو علم طب(باقی صفحہ 5نمبر2) و حکمت میں اپنا ثانی نہیں رکھتے تھے موجود تھے انہوں نے اس محفل کے بعد پوچھا حضرت ایک لفظ کے اتنے فضائل؟ آپ نے برجستہ فرمایا: ’اے خر تو چہ دانی؟‘(اے گدھے تجھے کیا پتہ؟) بو علی سینا شرم سے پانی پانی ہوگئے تو آپ نے فرمایا: میں نے تمہیں یہ مسئلہ سمجھانا تھا ورنہ مجھے کسی کو گدھے کہنے کا شوق نہیں۔ اب دیکھ تجھے گدھا کہنے کا اثر اتنا ہے کہ تجھے پسینے چھوٹ پڑے ہیں توبتا! اللہ کے نام کی لذت اور اس کی تاثیر کتنی ہوگی؟؟ وقت کے بادشاہ بھی آپ کی خانقاہ کے خوشہ چین تھے لیکن آپ ایک خودار شخصیت کے حامل تھے کسی کو خاطر میں نہیں لاتے ۔ایک مرتبہ سلطان محمود غزنوی خانقاہ میں آئے جب بادشاہ کے آنے کی خبر مریدوں کو ہوئی تو مرید ذرا گھبرائے اور آ کر حضرت خواجہ صاحب سے عرض کی حضرت، حضرت!آپ نے پوچھا کیا بات ہے ؟ وہ عرض کرنے لگے کہ؛بادشاہ سلامت سلطان محمود غزنوی خانقاہ میں تشریف لائے ہیں؛تو آپ کی زبان سے بے ساختہ یہ الفاظ نکلے ’’نعم الامیرعلی باب الفقیر و بئس الفقیرعلی باب الامیر‘‘اچھا بادشاہ وہ ہے جو فقیروں کے پاس چل کر آئے اور برا فقیر وہ ہے جو بادشاہوں کے دروازے پر جائے ۔ فرمایا کہ اچھی بات ہے ،آنے دو،سلطان آکر ملا، ملاقات کی، ہدیہ دیا تو آپ نے قبول نہیں فرمایا، سلطان نے دوبارہ عرض کی حضرت نے دوبارہ انکار کر دیا۔ جب اس نے اصرار کیا تو آپ نے ایک مرید سے کہا کہ خشک روٹی لاؤ۔ وہ لایا آپ نے بادشاہ سے فرمایا!کہ اسے کھاؤ جب اس نے ایک لقمہ توڑا اور منہ کے اندر ڈالا منہ میں تو چلا گیا لیکن حلق سے نہیں اتر رہا تھا۔ گلے میں پھنس گیا آپ نے پوچھا کیا بات ہے ؟سلطان نے عرض کی حضور!گلے سے نہیں اتر رہاآپ نے فرمایا اسی طرح آپ کی تھیلی میرے گلے میں پھنسی ہوئی ہے وہ نیچے نہیں اتر سکتی۔سلطان محمود غزنوی آپ کی محفل میں بیٹھے ۔ اس محفل کے اثرات مرتب ہونا شروع ہوئے دل سے نخوت، کبر اور بڑائی مٹ گئی اور عاجزی انکساری پیدا ہونے لگی صحبت ولی کا اثر ظاہر ہوا۔ جب واپس ہونے لگے تو خواجہ ابو الحسن خرقانی نے اٹھ کر رخصت کیا۔ کسی نے پوچھا کہ حضور! جب سلطان آئے تو آپ ان کے استقبال کے لئے نہیں اٹھے جب وہ واپس جانے لگے تو آپ ان کور خصت کرنے کے لئے اٹھے ہیں اس کی کیا وجہ ہے ؟ فرمایا جب وہ آیا تو خود کو بادشاہ سمجھ کر آیا دل سے تکبر چھلک رہا تھا اور جب رخصت ہونے لگا تو عاجزی پیدا ہو چکی تھی۔فتح سومنات سے پہلے سلطان محمود غزنوی خانقاہ خرقان میں خواجہ ابو الحسن خرقانی سے ملنے آئے اور عرض کی کہ حضرت میں سومنات پر حملے کا ارادہ رکھتا ہوں دشمن تعداد اور اسلحے میں کافی زیادہ ہے ، مقابلہ بہت سخت ہے آپ دعا فرما دیجیے ، خواجہ ابو الحسن خرقانی نے اپنا جبہ سلطان محمود کو عطا کر کے رخصت فرما دیا۔سومنات کی جنگ کے دوران سلطان محمود غزنوی نے جبہ اپنے سامنے رکھا اور یوں دعا کی:’’الٰہی اس خرقہ کی آبرو کے صدقے میں مجھے ان کافروں پر فتح عطا کر ‘‘۔جنگ فتح ہوئی اور سلطان فاتح بن کر وہاں سے لوٹا۔ کافی عرصہ بعد سلطان شکریہ ادا کرنے کے لیے خانقاہ خرقان پہنچا اور جنگ میں فتح ملنے کا سارا واقعہ سنایا۔ خواجہ ابو الحسن خرقانی نے پوچھا کہ سلطان یہ بتاؤ تم نے دعا کیا کی تھی؟، سلطان نے بتایا کہ میں نے دعا کی تھی کہ اے اللہ اس خرقہ کی آبرو کے صدقے مجھے سومنات کا فاتح بنا، خواجہ ابو الحسن خرقانی نے سنا تو فرمانے لگے : سلطان!آپ نے بہت سستا سودا کیا، اگر آپ اس وقت یہ دعا کرتے کہ اے اللہ مجھے ساری دنیا کا فاتح بنا تو اللہ آپ کو ساری دنیا کا فاتح بنا دیتا۔ شیخ بایزید بسطامی علیہ الرحمۃ کے مزار مقدس کے ادب کا یہ عالم تھا کہ بسطام سے خرقان الٹے پاؤں واپس ہوتے ۔ آپ کی وفات کا وقت قریب آیا آپ نے وصیت کی کہ میری قبر 30 گز گہری کھودناتا کہ بایزید بسطامی رحمۃ اللہ علیہ کی قبر سے اونچی نہ رہے چنانچہ ایسا ہی کیا گیا آپ کا وصال خرقان میں عاشورہ کے دن10محرم الحرام425 ہجری کوہوا اس وقت آپ کی عمر مبارک 73 سال تھی آپ کی آخری آرامگاہ خرقان میں ہے جو مرجع خلائق اورمرکز برکات ہے ۔ حضرت خواجہ ابو الحسن خرقانی ؒ