سلسلۂ عالیہ چشتیہ کے عظیم المرتبت شیخ طریقت حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کاکی رحمۃ اللہ علیہ (569ھ/ 1173ء تا 633ھ/ 1235) نائب الرسول فی الہند حضرت خواجہ سید معین الدین حسن چشتی اجمیری رحمۃاللہ علیہ کے خلیفۂ اعظم اور زہد الانبیا حضرت بابا فرید الدین مسعود گنج شکر رحمۃاللہ علیہ کے مرشدِ کامل ہیں۔حضرت بختیار کاکی رحمتہ اللہ علیہ ان اکابر مشائخ میں سے ہیں جن کے افکار و معمولات سے چشتی سلسلے کی مشربی خصوصیات متعین ہوئیں اور جنھوں نے برصغیر کی دینی، علمی، تہذیبی اور سماجی زندگی پر گہرے اثرات مرتب کیے ۔ حضرت خواجہ بختیار کاکی رحمۃ اللہ علیہ حسینی سادات میں سے ہیں اور ان کا سلسلہء نسب حضرت امام علی رضا علیہ السلام کے توسط سے سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم تک پہنچتا ہے ۔ان کے والد ماجد حضرت سید کمال الدین بن حضرت سید موسیٰ تھے ۔ان کا خانوادہ حجاز مقدس سے ایران اور پھر وسطی ایشیا کے قصبے اوش میں منتقل ہوا۔وادیِ فرغانہ کا یہ شہر آج کل کرغیزستان میں واقع ہے اور ملک کا دوسرا بڑا شہر ہے ۔ خواجہ بختیار کاکی رحمۃ اللہ علیہ اوش ہی میں پیدا ہوئے ۔ابھی محض ڈیڑھ سال کے تھے کہ ان کے والد گرامی کا وصال ہو گیا۔ان کی عفت مآب والدہ ماجدہ نے ان کی نگہداشت و تربیت کے فرائض بڑی محبت اور ذمہ داری سے ادا کیے ۔ابتدائی تعلیم اوش کے مولانا ابو حفص سے حاصل کی۔حضرت شیخ نصیرالدین چراغ دہلی کے بہ قول اس فرشتہ خصلت استاد کے فیضِ صحبت سے حضرت خواجہ کو آدابِ شریعت و طریقت سے بہرہء وافر ملا اور ان کا ظاہر و باطن بہ خوبی آراستہ و پیراستہ ہو گیا۔عہدِ شباب میں بھی وہ عبادت و ریاضت میں مشغول رہتے اور ان کے زہد و تقوی کی مثالیں دی جاتی تھیں۔انھوں نے وسطی ایشیا، ایران اور بغداد میں ظاہری تعلیم کی تکمیل کی۔ان کے دل میں شروع ہی سے معرفتِ الٰہی کی شدید لگن تھی اور وہ ہمیشہ مرشدِ کامل کی طلب میں رہتے تھے ۔بغداد ہی میں ان کی دیرینہ امید بر آئی اور انھوں نے حضرت خواجہ اجمیری سے بیعت کا شرف حاصل کیا۔پیر و مرشد نے ان کی باطنی استعداد ملاحظہ کر کے انھیں بہت جلد خلافت و اجازت سے سرفراز فرما دیا۔اس وقت وہ تقریباً بیس سال کے جوانِ رعنا تھے ۔ حضرت خواجہ اجمیری نشر و اشاعتِ اسلام اور فروغ روحانیت کے عظیم مقاصد لے کر برصغیر تشریف لائے تو ان کے مریدِ صادق نے بھی ادھر کا رخ کیا۔وہ ملتان پہنچے جہاں حضرت خواجہ بہائوالدین زکریا ملتانی رحمۃ اللہ علیہ، شیخ جلال الدین تبریزی رحمۃ اللہ علیہ اور دیگر بزرگوں سے ان کی گہری روحانی دوستی استوار ہوئی۔ملتان ہی میں حضرت بابا فرید الدین رحمۃ اللہ علیہ ان کے مرید ہوئے ۔حضرت خواجہ بختیار نے اپنے شیخ کے حکم پر دہلی کو اپنی دینی و عرفانی سرگرمیوں کا مرکز بنایا جو عالم اسلام کے عظیم مراکزِ حکومت میں شمار ہوتا تھا۔یوں وہ دہلی میں پہلی چشتی خانقاہ کے بانی قرار پائے ۔ان کے اخلاص و عشق کی برکت سے دہلی میں آج تک چشتی رنگ و آہنگ غالب چلا آتا ہے بلکہ دہلی ہی پر کیا موقوف ہے ، جنوبی ایشیا کا کوئی گوشہ ان کے فیضان سے خالی نہیں ہے ۔ خواجہ قطب الدین بختیار کاکی رحمۃ اللہ علیہ دہلی میں مقیم ہوئے تو بہت جلد خلقِ خدا ان کے خُلقِ محمدی کی اسیر ہو گئی۔سلطان شمس الدین التمش رحمۃ اللہ علیہ اور اس کے متعدد عمائدینِ سلطنت ان کے حلقہ بہ گوش بن گئے ۔عوام الناس جوق در جوق ان کے مرید ہوتے اور روحانی تربیت پاتے ۔اس صورت حال میں طبقۂ علما و مشائخ میں طبعی طور پر ان کے کچھ حاسدین بھی پیدا ہو گئے لیکن ان کے شیخ نے انھیں فرما دیا تھا کہ ہم نے دہلی کو تمہاری پناہ میں دیا ہے ۔خواجہ قطب الدین رحمۃ اللہ علیہ کا بخت یار تھا، دہلی کے اول و آخر قطب وہی رہے اور انھی کی تائیدِ روحانی سے بعد میں مختلف زمانوں میں مختلف مشائخ اس با برکت شہر کی قطبیت پر فائز ہوتے رہے ۔ حضرت بختیار کاکی نے ایک شادی اوش میں کی تھی اور دوسری برصغیر میں۔پہلی شادی سے ان کی کوئی اولاد نہ ہوئی، دوسری شادی سے دو جڑواں صاحب زادے پیدا ہوئے ۔ان میں سے سید احمد بچپن ہی میں وفات پا گئے اور سید محمد جوان ہوئے لیکن ان کا مزاج اور ترجیحات بالکل مختلف تھیں۔سلطان المشائخ حضرت خواجہ سید نظام الدین اولیا رحمۃاللہ علیہ بجا فرمایا کرتے تھے کہ خواجہ بختیار کاکی کے فرزند حقیقی معنوں میں تو بابا فرید تھے اور بلا شبہ عظیم فرزند تھے ۔ حضرت خواجہ قطب الدین رحمۃ اللہ علیہ نے بڑی عمر میں قرآن مجید حفظ کیا اور کثرت سے تلاوت فرماتے ۔بارگاہِ رسالت میں ہدیہء درود پیش کرنے کا معمول بھی زندگی بھر جاری رہا اور اس کی قبولیت کی سند بھی دربارِ نبوی سے ملی۔اللہ نے انھیں حُسنِ گفتار کا جوہر عطا کیا تھا جس سے وہ بھرپور کام لیتے ۔ان کے ارشادات اور دعاؤں میں تاثیر بھی غیر معمولی تھی۔ان کے ہم عصر مختلف سلاسل طریقت کے اکابر مشائخ بھی ان کا بے پناہ احترام و اکرام کرتے تھے ۔حضرت خواجہ بختیاررحمۃ اللہ علیہ اپنے عقیدت مندوں سے نذر نیاز نہیں لیتے تھے بلکہ اپنے وسائل بھی ان کی ضروریات پر صرف فرما دیا کرتے تھے ۔چشتیوں میں اپنے شیخ سے والہانہ محبت و اتباع، ہمہ گیر سخاوت اور لنگر کی کثرت انھی کا امتیاز تھا۔ حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کاکی رحمۃاللہ علیہ کا وصال حالتِ سماع میں ہوا تھا۔حضرت شیخ الاسلام احمد جام رحمۃ اللہ علیہ کے ایک شعر پر ان پر وجد و حال کی ایک خاص کیفیت وارد ہوئی جو کم و بیش چار روز طاری رہی اسی محویت و فنا کے مرتبے میں وہ شہیدِ حُبِ الٰہی ہوئے ۔وہ شعر اور اس کی ترجمانی کچھ یوں ہے : کُشتگانِ خنجرِ تسلیم را ہر زمان از غیب جانے دیگر است تسلیم و رضا کے خنجر سے شہید ہونے والوں کو عالمِ غیب سے ہر لمحے نئی سے نئی زندگی عطا ہوتی رہتی ہے ۔ اس تحریر کے اختتام پر ایک علمی و ادبی غلط فہمی کا ازالہ بھی ضروری معلوم ہوتا ہے ۔یہ تاریخی حقیقت ہے کہ حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کاکی رحمۃاللہ علیہ بلند پایہ اور لطیف شعری ذوق کے حامل تھے تو ہمارے عرفانی ادب میں کچھ ایسے اشارات بھی موجود ہیں جن سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ خود بھی کبھی کبھار شعر لکھا کرتے تھے لیکن افسوس ہے کہ ان کا عالی قدر کلام محفوظ نہیں رہ سکا۔دیوانِ خواجہ قطب الدین کے نام سے فارسی شاعری کا جو دیوان معروف ہے ، وہ قطعاً ان کا کلام نہیں ہے ۔اہلِ تحقیق و تنقید نے اپنی کاوشوں میں مستند دلائل کی روشنی میں یہ ثابت کیا ہے کہ وہ دیوان بہت بعد کے کسی شاعر ہے ۔اس کلام کے اصلی شاعر کی حتمی شناخت تا حال نہیں ہو سکی ہے ۔اس لیے اس دیوان کو محض منسوب ہی سمجھنا چاہیے ۔