پاکستان کے خطہ ٔپنجاب کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ یہاں اسلام کی نشرواشاعت کچھ ایسے بوریا نشیں،درویشوں کے ذریعے عمل میں آئی جو شریعت وطریقت کی درخشندہ روایتوں کے امین اور اعلیٰ اخلاقی اَقدار کے پاسبان تھے ، اِن اہل دل ونظر بزرگان ِ دین نے اِس عظیم سرزمین کے گوشے گوشے میں خانقاہوں کی صورت میں ظاہر ی وباطنی تربیت کے فعّال مراکز قائم کیے ، اللہ تعالیٰ نے اُن کے خلوص اور لگن کو شرف ِ قبولیت بخشا، ان کی تبلیغی اورتربیتی کوششوں میں برکت عطا فرمائی اور مشیت ِالہٰی نے اِن کے فیضان کو قیامت تک جاری وساری رکھنے کا اہتمام فرمایا۔اللہ سبحانہ وتعالیٰ اور اُس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عظمتوں کے یہ چراغ اس خطہ ٔ پاک میں قیامت تک روشن رہیں گے اورصراط ِ مستقیم کے متلاشی اِن کی ضوفشانی میں اپنی سمت ِ سفر متعین کرتے رہیں گے ۔جنوبی پنجاب کے ضلع بہاول پورکا اپنے وقت کا مصروف ترین ریلوے جنکشن ’ سمہ سٹہ ‘ کے مضافات میں واقع ایک قصبہ ’خانقاہ شریف ‘جس کی شہرت،مرکز برکات وروحانیت ’’حضرت خواجہ محکم دین سیرانی رحمۃ اللہ علیہ‘‘ کی آرام گاہ ہے آپ کی آمد کے بعد یہ سرزمین روحانی تزکیہ وتصفیہ کا مرکز اور علم ومذہب کا گہوارہ بن گئی، جہاں سالکانِ طریقت اور شائقانِ علم کشاں کشاں آتے رہے ہیں اور اپنے اپنے ظرف کے مطابق اپنی اپنی پیاس بجھاتے رہے ہیں۔آپ کے باطنی کمالات ،علمی فضائل اور روحانی برکات سے صرف ریاست بہاولپور ہی نہیں بلکہ پورا بر صغیر پاک وہند فیض یاب ہوا ۔ آپ کی ولادت دلیر وبہادر قوم’ کھرل‘ کے ایک ممتاز گھرانے میں 1135ھ(ایک قول 1137ھ)کے لگ بھگ ضلع اوکاڑا کے قصبہ ’ گوگیرہ‘میں ہوئی اِس علاقے کو مغلیہ دور ِ حکومت میں کھرل قبیلہ نے آباد کیا تھا اور اِسی مقام پرکھرلوں کے ہاتھوں انگریزوں کو بری طرح شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا ۔آپ کے والد گرامی حافظ محمد عارف بن حافظ محمود جو اہل تقویٰ سے تھے ۔بوقت ولادت والدین نے ’ عبد اللہ ‘ نام رکھا لیکن طریقت کے اعلیٰ منصب پر فائز ہوکر ’ محکم دین ‘ ’صاحب السیر‘ اور ’ سیرانی بادشاہ ‘ کے القاب سے مشہور ہوئے ۔آپ مسلکاً قادری حنفی تھے ، خیر التابعین سیدنا اویس قرنی رضی اللہ عنہ سے باطنی فیض بطریق اویسیہ حاصل کیا اِس لیے آپ کو ’اویسی ‘ بھی کہتے ہیں ۔ ’خزینۃ الاصفیاء ‘ میں ہے :’’شیخ محکم الدین ،صاحب السیراویسی بن حافظ محمد عارف بن حافظ محمود قدس سرہٗ مشائخ اعظم وکبرائے خلفائے خاندان عالیشان اویسیہ سے ہیں اور مرید وخلیفہ اپنے چچازاد بھائی شیخ عبدالخالق اویسی کے ہیں اورپیر روشن ضمیر سے فائدہ کثیر حاصل کیا ہے ،صاحب وَجد وسماع وسکر وشوق وذوق ومحبت وعشق تھے اور اکثر اوقات جذب وسکر میں گزارتے تھے ،استغراق وبے خبری کمال درجہ کی رکھتے تھے اور کافی سیر وسیاحت کرنے کی وجہ سے صاحب السیر کے خطاب سے مخاطب کیے جاتے تھے ‘‘(خزینۃ الاصفیاء 2/377) آپ کے اجداد میں اکثر نہ صرف عالم وفاضل بلکہ بزرگانِ طریقت سے خصوصی فیض یافتہ تھے ۔آپ کا گھرانہ علم وفضل کا گہوارہ تھا اِسی لیے چھوٹی عمر میں قرآن کریم حفظ کرلیا اور علوم درسیہ کی طرف توجہ فرمائی اور عمرمبارک ابھی16سال کی تھی کہ عقائد اسلامیہ کا نادر مجموعہ علامہ تفتازانی کی معروف تصنیف’ شرح عقائد ‘ پڑھ لی تھی (لطائف سریہ)اوراِس کے بعد آپ حضرت خواجہ نورمہاروی علیہ الرحمۃ ( جوا ٓپ سے عمر میں پانچ ،چھ سال کے فرق سے چھوٹے تھے )کے ہمراہ علم حاصل کرنے کے لیے لاہور تشریف لے آئے ،لاہور میں قیام کے دوران آپ کو بڑی تکالیف کا سامنا کرنا پڑا لیکن طلب علم کے ذوق وشوق میں کبھی کمی نہ آئی ۔تذکرہ نگاروں نے لکھا کہ آپ دن کے وقت فقہ وحدیث کا درس لیتے اور رات کو فقیروں کا بھیس بدل کر تماشائے اہل کرم دیکھتے ۔(گلشن ابرار، مناقب المحبوبین )لاہور میں کچھ عرصہ قیام کے بعد دہلی تشریف لے آئے اورعلوم درسیہ کی تکمیل فرمائی ۔علوم ظاہری سے فراغت کے بعد سلوک کے منازل طے کرنے لیے اپنے چچازاد بھائی ، سلسلہ اویسیہ کے پیشواحضرت خواجہ عبد الخالق اویسی علیہ الرحمۃ(سال وصال 1158ھ) کے دست ِحق پرست پر بیعت کی،حضرت سیرانی علیہ الرحمۃ نے اپنے مرشد ِگرامی کی ہدایت کے مطابق سخت سے سخت ریاضتیں کیں اور تزکیۂ نفس کی ہر تدبیر کی ، اپنے شیخ مکرم کے حکم پر (ضلع وہاڑی کی تحصیل بورے والا میں واقع)حضرت شیخ المشائخ دیوان چاولی رحمۃ اللہ علیہ (سال وصال 131ھ)کے مزارِ پُر انوار پر اعتکاف کیا اور چالیس روز کا چلہ عبادت ِ حق اور روزے کی حالت میں گزارا۔جب چلہ مکمل ہوا اور حجرہ سے باہر تشریف لائے ، افطاری کے لیے بیر ی کے پھل کی خواہش دل میں پیدا ہوئی چناں چہ غیب سے سیدنا خضرعلیہ السلام بصورت بزرگ ظاہرہوئے اور آپ کو پھل پیش کیے جس سے آپ نے روزہ افطار کیا (خزینۃ الاصفیائ، لطائف سریہ )یہ آپ کی محنت شاقہ اور مجاہدہ نفس کے لیے اٹھائی گئی مشقتوں کا ثمر تھا ، پھر آپ اپنے شیخ مکرم کی بارگاہ میں حاضرہوکر اپنے باطنی احوال وکیفیات کے متعلق عرض کیا ، چلہ کشی کے دوران آپ کو ’’ قل سیروا فی الارض ‘ ‘ کا اشارہ ملا تو مرشد گرامی نے اِسے ارشارۂ غیبی سمجھتے ہوئے سیروسیاحت کا حکم دیا،اِس لیے آپ نے سیروسیاحت کو اپنی پوری زندگی معمول بنا لیا ،آپ مسلسل ومتواتر سفر میں رہتے ،بہاول پور ، ملتان ، ڈیرہ جات ، سندھ ،کاٹھیاوار اور دہلی میں رہے ، اکثر سعادتِ حج پاپیادہ حاصل کی ،مسلسل مجاہدات اور عبادات نے آپ کو درجۂ کمال تک پہنچا دیا ایک مرتبہ آپ اپنے شیخ کریم کی زیارت کے لیے حاضر ہوئے تو جوہر شناس مردِ کامل نے آپ کو دیکھ کر فرمایا : ’’ میں نے تو انھیں معرفت کی خرمن سے ایک چاول دیا تھا لیکن انہوں نے اپنی ہمت سے ایک چاول سے ہزاروں من تیار کرلیا ‘‘آپ کے روحانی کمالات اور باطنی فیوضات بے حد وحساب ہیں ،آپ کی نگاہ ِ حق آگاہ سے بے شمار مخلوق مستفیض ہوئی اور بہت سے سالکانِ راہ ِ طریقت آپ کی توجہ سے آسمانِ ولایت پر آفتاب وماہتاب بن کرچمکے ۔ آپ کا زمانہ اگرچہ سیاسی اعتبار سے مسلمانوں کا دورِ انحطاط تھا لیکن علمی اعتبار سے اِسے اہمیت حاصل تھی ،آپ جہاں لوگوں کی روحانی ضروریات کو پورا کرتے وہیں اُن کی علمی تشنگی دور کرنے کا بھی سامان کرتے تھے ۔عوام تو عوام ،خواص اورماہرین فن آپ سے اکتساب ِفیض کیا کرتے ،بہاول پور اسٹیٹ کے مدرسہ عربیہ کے مدرسین آپ سے شرح عقائد نسفی کے بعض مشکل مقامات حل کرانے کے لیے خدمت میں آیا کرتے تھے ۔آپ کا ایک یادگار رسالہ ’ شرح رموزات احسن الاسرار ‘ الموسوم بہ ’ تلقین لُدنی ‘ مطبوعہ موجود ہے جس میں آپ نے شریعت ،طریقت ،حقیقت اور معرفت کی اہمیت وماہیت کو دلنشیں پیرائے میں بیان کیا ۔آپ نے پوری زندگی تجرد میں گزاری آپ صاحب ِجذب بزرگ ضرورتھے لیکن جذب وکیفیت کی روحانی دولت سے مالا مال ہونے کے ساتھ ساتھ ایک صاحب ِبصیرت اور نکتہ رَس عالم بھی تھے ، آپ کی گفتگو قرآن وحدیث سے بھرپور ہوتی ،خود بھی پابند ِشرع تھے اور دوسروں کو بھی سنت ِ نبوی کی پیروی کی تلقین فرماتے ،ہر وقت باوضور ہتے ، تہجد کبھی قضا نہ کی ،سلسلہ ٔطریقت اگرچہ اُویسی تھا لیکن اَذکار واوراد عموماً قادری سلسلہ کے زیر عمل تھے اور سماع سے بطریق سلسلہ ٔ چشتیہ شغف تھا ۔ آپ نے تقریباً62سال عمر پائی اور 5ربیع الثانی 1194ھ کو اِس دارِ فانی سے کوچ فرمایا ،سمہ سٹہ سے چار کلو میٹر کی مسافت پر خانقاہ شریف میں آپ کا مزار مرجع خلائق ہے ۔’خدا رحمت کند ایں عاشقانِ پاک طینت را ‘ (ماخذومراجع:خزینۃ الاصفیائ، اولیائے بہاول پور ، لطائف سریہ،ذکر سیرانی )