اللہ تعالیٰ کا کروڑہا کروڑ احسان کہ جس نے آسمانِ ولایت کو روشن ستاروں سے مزین فرماکر ان کی کرنوں سے سارے عالم کو منوّرفرمایا نیز قُربِِ الٰہی کی منازل طے کرنے اوران کے فُیُوض وبَرکات سے مُسْتَفِیْض ہونے کیلئے ان کی تعلیمات سے مخلوق کو راہِ ہدایت پر چلنا سکھایا ۔ حضرت محی الدین سید ابو العباس احمد کبیر رفاعی حسینی شافعی رحمۃ اللہ علیہ بھی انہی درخشاں ستاروں میں سے ایک چمکتا ستارہ ہیں۔ نام و نسب: آپ کا نام احمدبن علی بن یحیٰ بن حازم بن علی بن رَفاعہ ہے ۔جَدِّامجد رفاعہ کی مناسبت سے ر فاعی کہلائے ۔ آپ سَیِّدُالشُّہدا سیدناامام حسین رضی اللہ عنہ کی اولاد میں سے ہیں،آپ کی کنیت ابو العباس ،لقب مُحْیُ الدین ہے ، جبکہ مسلک کے اعتبار سے شافعی ہیں (سیرت سلطان الاولیا ،ص 22) حضرت سیدنا علی بن یحییٰ رحمۃ اللہ علیہ کانکاح حضرت سیدمنصوربطائحی رحمۃ اللہ علیہ کی ہمشیرہ سے ہوا تھا جو کہ نہایت پرہیزگار خاتون تھیں، انہی کے بطن سے 15 رجبُ المرجب 512 ھ بمطابق یکم نومبر1118ء میں حضرت سیداحمد کبیر رفاعی علیہ الرحمہ کی ولادت ہوئی۔(سیرت سلطان الاولیا، ص24 ) پیدائش سے پہلے ولایت کی بشارت:آپ علیہ الرحمہ کی پیدائش سے چالیس دن پہلے آپ کے ماموں حضرت سید منصور بطائحی علیہ الرحمہ خواب میں پیارے آقا محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دیدار سے مشرف ہوئے ،دیکھا کہ رحمت عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ارشادفرما رہے ہیں : ’’ اے منصور !چالیس دن بعد تیری بہن کے بطن سے ایک لڑکا پیدا ہوگا ،اس کا نام احمد رکھنا اور جب وہ کچھ سمجھدارہوجائے تو اُسے تعلیم کے لئے شیخ ابُوالفضل علی قاری واسطی کے پاس بھیج دینا اور اس کی تربیت سے ہرگزغفلت نہ برتنا۔اس خواب کے پورے چالیس دن بعدحضرت سیداحمد کبیر رفاعی علیہ الرحمہ اس دنیا میں جلوہ افروز ہوگئے ۔( سیرت سلطان الاولیا، ص44) سات دَرْویشوں کی سات بشارتیں: بچپن میں آ پ علیہ الرحمہ کے قریب سے سات دَرْویشوں کاگزر ہوا تو وہ ٹھہر کرآپ کو دیکھنے لگے ۔ان میں سے ایک نے کلمہ طیبہ لاالہ الااللہ محمد رسول اللہ پڑھا اور کہنے لگا : اس بابرکت درخت کا ظہور ہوچکا ہے ، دوسرے نے کہا اس درخت سے کئی شاخیں نکلیں گی،تیسرے نے کہا : کچھ عرصے میں اس درخت کا سایہ طویل ہوجائے گا،چوتھے نے کہا : کچھ عرصے میں اس کاپھل زیادہ ہوگااورچاندچمک اُٹھے گا،پانچویں نے کہا : کچھ عرصے بعد لوگ ان سے کرامات کا ظہور دیکھیں گے اوربہت زیادہ ان کی جانب مائل ہوں گے ،چھٹے نے کہا : کچھ ہی عرصے بعد ان کی شان وعظمت بلند ہوجائے گی اورنشانیاں ظاہر ہوجائیں گی،ساتویں نے کہا : نجانے (برائی کے )کتنے دروازے ان کی وجہ سے بند ہوجائیں گے اور بہت سے لوگ ان کے مُرید ہوں گے ۔(جامع کرامات الاولیا، ص 490) عُلومِ ظاہری و باطنی کی تکمیل:آپ علیہ الرحمہ نے سات سال کی عمر میں قرآنِ مجید حفْظ کیا، اسی سال آپ کے والدِماجد کسی کام کے سلسلے میں بغداد تشریف لے گئے اور وہیں ان کا انتقال ہوگیا۔والد کے انتقال کے بعد آپ کے ماموں جان شیخ منصورعلیہ الرحمہ نے آپ اورآپ کی والدہ کو اپنے پاس بلالیاتاکہ اپنی سرپرستی میں آپ کی ظاہری و باطنی تعلیم و تربیت کا سلسلہ جاری رکھ سکیں،قرآنِ پاک تو آپ پہلے ہی حفظ کرچکے تھے لہٰذا کچھ دنوں بعد حضرت شیخ منصور علیہ الرحمہ نے حُضور ِاکرم نورِمجسّم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ہدایت کے مطابق واسط میں حضرت شیخ علی قاری واسِطی علیہ الرحمہ کی خدمت میں علم حاصل کرنے کے لئے آپ کو بھیج دیا، شیخ علی قاری علیہ الرحمہ نے آپ کی تعلیم وتربیت پر خصوصی توجہ دی ۔ اُستاد صاحب کی بھرپور شَفْقت اور اپنی خُدا داد صلاحیت کے نتیجے میں سید احمد کبیر رفاعی علیہ الرحمہ نے صرف بیس سال کی عمر میں ہی تفسیر، حدیث، فقہ ، معانی،منطق وفلسفہ اورتمام مروجہ علومِ ظاہری کی تکمیل کرلی اور ساتھ ہی اپنے ماموں جان شیخ منصور بَطائحی علیہ الرحمہ سے علومِ باطنی بھی حاصل کرنے لگے ، لُطفِ خداوندی اور مناسبتِ طبعی کی وجہ سے آپ نے باطنی عُلوم میں بھی بہت جلد کمال حاصل کرلیا۔( سیرت سلطان الاولیا،ص، 45،46) مخلوقِ خدا میں شہرت:پہلے پہل توصرف علوم ظاہری میں آپ کی خداداد قابلیت اور ذہانت کی وجہ سے آپ علیہ الرحمہ کاشہرہ ہوا جس کے نتیجے میں بڑے بڑے علماء و فُضَلاء آپ کے درس میں اِستفِادہ کے لئے حاضر ہونے لگے اور پھر جب آپ نے نصابِ طریقت اورسلوکِ مَعرفت کے مَدارجِ عالیہ کو بھی طے کرلیا اور آپ کے تَقْویٰ وپرہیز گاری کاہر خاص وعام کو علم ہوگیا تو دور دور سے لوگ آپ علیہ الرحمہ کے دریائے علم ومعرفت سے اپنے تِشْنگی مٹانے آنے لگے لہٰذا آپ کے ماموں سَیِّدمنصورعلیہ الرحمہ نے خانقاہ ِاُمِّ عَبیدہ (صوبہ ذِیقار، جنوبی عراق)کی خلافت آپ کے سِپُرد فرمادی تاکہ وہاں رہ کر آپ علیہ الرحمہ خلقِ خدا کی ہدایت و رہنمائی کریں اور اپنے علمِ ظاہری کے ساتھ ساتھ علم باطنی سے بھی لوگوں کو فیض پہنچائیں۔ نَوافل کی کثرت:آ پ علیہ الرحمہ ہرروز چارسورَکعات نوافل پڑھاکرتے جن میں ایک ہزار مرتبہ سورۃُ الاخلاص پڑھتے نیزروزانہ دو ہزار مرتبہ اِسْتِغْفاربھی کرتے ۔ (طبقات الصوفیۃ للمناوی ، ص 225) بیمار وں کی عیادت:جب آپ علیہ الرحمہ گاؤ ں کے کسی شخص کی بیماری کا سنتے تو اس کے پاس جاکر اس کی عیادت کرتے اگرچہ راستہ کتنا ہی دور کیوں نہ ہوتااور (کبھی کبھار) جانے آنے میں ایک دو دن لگ جاتے ،کبھی یوں بھی ہوتا کہ آپ راستوں پر کھڑے ہوکر نابینوں کا انتظار کرتے اگر کوئی مل جاتا تو ہاتھ پکڑ کر انہیں منزل تک پہنچا دیا کرتے ۔ (طبقاتِ کبریٰ للشعرانی ، ص200) مسکینوں اور بیواؤ ں کی دادرسی: آپ علیہ الرحمہ سفر سے واپسی پر جب اپنی بستی کے قریب پہنچتے تو سامان باندھنے والی رسی نکال لیتے اورلکڑیاں جمع کر کے اپنے سر پر رکھ لیتے ، آپ علیہ الرحمہ کی دیکھا دیکھی دیگر فقراء بھی ایسا ہی کرتے اور شہر میں داخل ہوکر بیوائوں ، مسکینوں اَپاہجوں ، بیماروں ،نابینوں اور بوڑھوں میں وہ تمام لکڑیاں تقسیم کردیتے ، آپ علیہ الرحمہ کبھی بھی برائی کا بدلہ برائی سے نہ دیتے ۔( طبقاتِ کبریٰ للشعرانی ، ص200) بارگاہِ رسالت سے انعام !حضرت سید احمدکبیررفاعی علیہ الرحمہ کورسولِ اَکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں بھی خاص مقام حاصل تھا۔ چنانچہ آپ علیہ الرحمہ حج سے فراغت کے بعد جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے روضہ انور پر مُواجہہ شریف کے سامنے حاضرہوئے تو یہ دو شعر پڑھے :’’ میں دُور ی کی حالت میں اپنی روح کوبارگاہِ اقدس میں بھیجا کرتا تھاجو میری نائب بن کر اس ارض ِمُقدّس کوچوما کرتی تھی۔اب ظاہری جسم کی باری ہے جو حاضرخدمت ہے لہٰذا اپنا دستِ اَقدس بڑھائیے تاکہ میرے ہونٹ دَسْت بوسی سے شرف یاب ہوسکیں ۔‘‘چنانچہ روضہ انور سے دایاں دستِ اقدس ظاہر ہوا اورآپ علیہ الرحمہ نے فرطِ عقیدت سے اسے چُوم لیا ،اس منظر کو وہاں موجود لوگوں نے بھی دیکھا ۔(جامع کرامات الاولیاء ، ص 494 ) وصال:آپ علیہ الرحمہ کا وصال بروزجمعرات22 جمادی الاولی578 ھ بمطابق 13ستمبر 1182ء کو بستی ام عبیدہ عراق میں ہوا،اللہ تعالیٰ آپ علیہ الرحمہ کے تصدق سے عالم ِ اسلام کو سربلندیاں عطافرمائے ،آمین