سیدعلی بن عثمان جلابی ہجویری المعروف ’داتا گنج بخش ‘رحمۃ اللہ علیہ 400ھ میں افغانستان کے مشہور شہر غزنی کے ایک محلے ’ہجویر‘میں پیدا ہوئے اسی لیے آپ کو ہجویری کہا جاتا ہے ۔آپ کا سلسلۂ نسب سیدنا امام حسن علیہ السلام سے ملتا ہے ۔ آپ کے والد گرامی سید عثمان ہجویری اللہ تعالیٰ کے بر گزیدہ بندے تھے ۔آپ نے اپنے وقت کے جید اور نامور علماو محققین سے قرآن کریم ، تفسیر ، حدیث اور دیگر علوم و فنون میں مہارت حاصل کی اور ملک شام میں شیخ ابوالفضل محمد بن حسن ختلی رحمۃ اللہ علیہ کی رہنمائی اور سائے میں روحانی سفرکا آغاز کیا اور اپنے شیخ کی اقتدامیں روحانی مراتب کی بلندی کے لیے مجاہد ے اور ریاضتیں کیں۔ عبادت و ریاضت کا یہ معمول تھا کہ پوری زندگی میں کوئی سنت و مستحب بھی ترک نہ کیا اور دوردراز کا سفر کرتے ہوئے اولیا ئے کرام کی بارگاہ میں حاضری سے مشرف ہوتے اور سلوک کی منازل طے کرتے رہے ۔ حضرت سیدنا بلال حبشی رضی اللہ عنہ کے مزار انور کی زیارت کے موقع پر خواب میں خاتم النبیین سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زیارت سے مشرف ہوئے ۔ آپ رحمۃ اللہ علیہ تغ اپنے شیخِ کامل شیخ ابوالفضل محمد بن حسن ختلی رحمۃ اللہ علیہ کے حکم پر لاہور ( پنجاب ) کی طرف ہجرت فرمائی اور لاہور کو مستقل مسکن بنایا اور تبلیغ و اشاعت کا سلسلہ جاری فرمایااور یہاں کے لاکھوں لوگ آپ کے فیض سے مالا مال ہو کر مشرف بہ اسلام ہوئے ۔ برصغیر پاک و ہند میں اشاعت اسلام کے لیے جن اولیا ء کرام نے مثالی کردار ادا کیا ،ان میں سید مخدوم علی ہجویری المعروف داتا گنج بخش رحمۃ اللہ علیہ کا نام سر فہرست ہے جو ایک طرف تفسیر ،حدیث،فقہ ،عربی زبان و ادب ،منطق ،کلام ،فلسفہ ،تاریخ ،تصوف اور علوم و فنون میں ماہرنظر آتے ہیں تو دوسری طرف روحانیت کے درجۂ کمال پر فائز ہیں اور یو ں بجا طور پر شریعت و طریقت کا حسین امتزاج ہیں۔آپ نے اصلاحِ معا شرہ کے پیش نظر افراد ِ معاشرہ کو اخوت اسلامیہ ،امن وسلامتی ، خدمتِ خلق کے جذبے اوراسلام کی اخلاقی تعلیمات ، باہمی تعلقات کی اساس ،جودو سخا کی اہمیت ،خاموشی کے آداب و فوائد ،گفتگو کے آداب،شخصی کردار کی تشکیل ، اسلام کے ازدواجی نظام، اورسوال کرنے کے آداب وغیرہ سے عملی طور پرکار بند رہنے کے لیے اپنی شاہکار تصنیف کشف المحجوب میں جابجا تلقین فرمائی ہے ۔یہ کتاب نہ صرف تصوف کی دنیا کے لیے ایک عظیم کتاب ہے بلکہ اسلامی معاشرے کی اصلاح اور تعمیر و فلاح کے لیے بھی ایک ضابطۂ عمل ہے ۔ انسانیت کی اصلاح و فلاح اورکی تعمیر، انبیائے کرام علیہم السلام کے پیغام کا اولین مقصد رہا ہے ،جسے ہمارے صوفیاء کرام اور علمائے امت رحمۃ اللہ علیہم نے سنبھالااور بصد حسن و خوبی اسے نبھایا ہے ۔یہ اصلاح وتعمیر کا کام حکمت و تدبیر ،مواعظ ِ اثر خیز اور قائل کر دینے والے دلائل اور خلقِ خدا کی خدمت کے طفیل ہی ممکن ہے ،ایسی خدمتِ خلق جو منافقت و ریاکاری سے پاک ہواور سراپا اخلاص و محبت سے عبارت ہو۔ چنانچہ حضور داتاگنج بخش رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی کتاب ’ کشف المحجوب ‘ میں آیات ِقرآنی ،احادیث نبوی ،اقوال سلف صالحین ،صوفیانہ حکایات ،دلچسپ واقعات اور اپنے پُر مغز اسلوب بیان سے پیش فرماکر سالکینِ تصوف و سلوک کی رہبری کے ساتھ ساتھ یقینا معاشرتی اصلاح کے لیے ایک عظیم نسخہ فراہم کیا ہے ۔ حضرت خواجۂ خواجگاں خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمۃ اللہ علیہ نے آپ کے قدموں میں بیٹھ کر اعتکاف کیا اور فیوض و برکات سے مالا مال ہوئے اور فرطِ محبت سے یہ شعر پڑھا جو مقبول عام ہوا : گنج بخش فیض عالم مظہر نور خدا ناقصاں را پیر کامل کاملاں را راہنما آپ رحمۃ اللہ علیہ مزار مبارک لاہور میں بھاٹی دروازے کے باہر ہے ،جہاں ہر سال آپ کا عرس مبارک 18،19،20صفر کو بڑی عقیدت ومحبت سے منایا جاتا ہے ۔ مآخذ:تذکرۂ اولیائے لاہور،الہجویر