حضرت لُوط علیہ السّلام حضرت ابراہیم علیہ السّلام کے بھتیجے تھے ۔ آپ کے والد کا نام حاران تھا۔ حضرت لُوط علیہ السّلام ابھی کم عمر تھے کہ ان کے والد کا انتقال ہو گیا۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے آپ کی پرورش کی۔ آپ کے بچپن اور جوانی کا کافی عرصہ فیض نبوت کے زیر اثر گزرا۔ حضرت ابراہیم علیہ السّلام پر ایمان لانے والوں میں حضرت لُوط علیہ السّلام کا نام سر فہرست ہے ۔آپ کی جائے پیدائش عراق کا قدیم شہر ’’اُر‘‘ ہے ۔ یہی شہر حضرت ابراہیم علیہ السّلام کا مسکن بھی تھا۔ حضرت ابراہیم علیہ السّلام اپنے آبائی وطن سے ہجرت کر کے جب حاران اور بعد ازاں مصر میں سکونت پذیر ہوئے تو حضرت لُوط علیہ السّلام ان کے ہمراہ تھے ۔ یہیں حضرت لُوط علیہ السّلام کو منصبِ نبوت سے سرفراز کیا گیا۔ اُردن کے شرق اور فلسطین کے درمیان بحرِ مردار کے کنارے جنوبی حصّے میں سرسبز و شاداب وادیاں تھیں۔ یہ علاقے سُدوم اور عمورہ کے نام سے مشہور تھے ۔ ان علاقوں میں پانی کی فراوانی کی وجہ سے زمین زرخیز تھی۔ کھیتی باڑی بھی خوب ہوتی تھی۔ ہر قسم کے پھل، سبزیوں اور باغات کی کثرت تھی۔ ان علاقوں کے باشندے خوشحال تھے اور زندگی کی تمام تر آسائشیں انہیں حاصل تھیں۔انسان کے اَزلی و ابدی دشمن ابلیس نے انہیں گمراہ کرنے کا یہ ’’سنہری موقع‘‘ ہاتھ سے نہ جانے دیا اور ابلیس نے اس خوشحالی اور آسائش کی زندگی کو ان کے ہی خلاف استعمال کرنا شروع کر دیا۔ ان بستیوں کے مکین اللہ کی عطا کردہ ان نعمتوں کو اپنے زور بازو پر مَحمول کرنے لگے اور عطائے خداوندی کو انہوں نے یکسر نظر انداز کر دیا۔ قادرِ مُطلَق ذات کا خوف اور خشیت جب ان کے مطمح نظر نہ رہا تو وہ غرور اور تکبر سے بدمست ہو گئے اور یہی وہ تکبر تھا جس نے عزازیل جیسے عبادت گزار کو تا قیام قیامت شیطانیت کے وصف سے موسوم کر دیا اور اس کی تباہی کا موجب بنا۔ تکبر عزازیل را خوار کرد بہ زندان ِ لعنت گرفتار کرد تکبر نے ہی عزازیل کو ذلیل و رسوا کر دیا اور اس کے گلے میں لعنت کا طوق پہنا دیا۔ اسی تکبر کی بنا پہ اہل سدوم ان وادیوں کی سرسبزی اور شادابی کو اپنی ملکیت تصوّر کرتے تھے اور دوسرے علاقوں کے باشندوں کا ان نعمتوں سے مستفید ہونا گواراہ نہیں سمجھتے تھے ۔ غرور، تکبر اور سرکشی ابلیس کی طرزِ فکر کا خاصہ ہے ۔ اہلِ سُدوم جب پوری طرح ابلیس کے پھیلائے ہوئے جال میں پھنس گئے اور ان کے اذہان میں شیطنت راسخ ہو گئی تو وہ ایسے اعمال سر انجام دینے لگے جن پر عمل پیرا ہو کر انسان مجسمۂ شر اور فساد بن جاتا ہے ۔ بد اَطوار قوم نے بداعمالیوں اور فواحش کی فہرست میں ایک ایسے عمل کا اضافہ کر دیا جو اس قوم کے صفحہ ہستی سے نابود کئے جانے کے لئے عذاب الٰہی کی بنیاد بن گیا۔ نفسانی خواہشات کی تکمیل کے لئے قدرت کا مقررہ کردہ طریقہ چھوڑ کر عورتوں کے بجائے مردوں اور لڑکوں سے اختلاط رکھنا اس قوم کا دستور بن گیا۔ خباثت اور بے حیائی کی انتہا یہ تھی کہ عوام الناس سے لے کر قوم کے سردار اور حاکم تک اس اخلاق سوز عمل کو عیب نہیں گردانتے تھے بلکہ علی الاعلان فخریہ انداز میں اس کا تذکرہ کرتے تھے اور بھری محفلوں میں ناپسندیدہ حرکات دہراتے تھے ۔ حضرت لُوط علیہ السلام اسی قوم کی طرف مبعوث کیے گئے تھے ۔ آپ نے اہلِ سُدوم کی بے حیائیوں اور خباثتوں کی ملامت کی۔ ان کے اندر موجود اخلاقی برائیوں کی نشاندہی کی ۔ قوم کو گمراہی اور ظلمت کے اندھیروں سے نکالنے کے لئے ربّ کائنات کی عطا کردہ نعمتوں کا شکر ادا کرنے اور شرافت اور پاکیزگی کے اعمال اپنانے کی ترغیب دی۔ اصلاح اور تزکیہ نفس کے لئے ہدایت و نصیحت کا یہ تربیتی اور ترغیبی پروگرام قوم پر بہت شاق گزرا۔ وہ حضرت لُوط علیہ السلام سے متنفّر رہنے لگے اور ان کی نصیحت آموز باتوں کواپنی عیش و عشرت کی زندگی کے لئے ایک رکاوٹ تصور کرنے لگے ۔ سُدوم اور عمورہ کی سرزمین پر آباد نوع انسانی کا یہ سرکش گروہ نافرمانی، بے حیائی اور اخلاق سوز کاموں پر مُصر رہا۔ اللہ کے فرستادہ بندے حضرت لُوط علیہ السلام نے انہیں ان کے ناپسندیدہ افکار کے باعث خدا تعالیٰ کی ناراضگی اور اعمال بد کے سبب نازل ہونے والے عذاب سے ڈرایا۔ قوم نے اس پند و نصائح کا اثر قبول کرنے کے بجائے حضرت لُوط علیہ السلام کا تمسخر اڑانا شروع کر دیا۔ حضرت لُوط علیہ السلام کو جب یقین ہو گیا کہ یہ لوگ ہدایت کی راہ اختیار نہیں کریں گے تو انہوں نے ربُّ العزّت کی بارگاہ میں قوم پر غالب رہنے کی دعا کی۔ بستی والوں کے اعمال کے سبب بارگاہِ الٰہی سے حکم ہُوا کہ اہلِ سُدوم کو نیست و نابود کر دیا جائے ۔ بستی کو ان کے مکینوں سمیت الٹنے کے لئے فرشتوں کی ایک جماعت مقرر ہوئی۔ یہ فرشتے انسانی روپ میں ظاہر ہوئے ۔ فرشتوں کی یہ جماعت جب حضرت لُوط علیہ السلام کے پاس پہنچی تو رات کا وقت تھا۔ فرشتے انسانی روپ میں تھے اور ملکوتی حسن اُن سے ہُوَیدا تھا۔ حضرت لُوط علیہ السلام کی بیوی گمراہ قوم کی ہم خیال تھی۔ اس نے مہمانوں کی آمد کی اطلاع اہلِ سُدوم کو کر دی۔ لوگ حضرت لُوط علیہ السلام کے گھر کے باہر جمع ہو گئے اور مطالبہ کرنے لگے کہ یہ مہمان ہمارے حوالے کر دیئے جائیں۔ حضرت لُوط علیہ السلام نے انہیں اس وقت بھی نصیحت کی اور اللہ کے عذاب سے ڈرایا لیکن اہلِ سُدوم پر جنون سوار تھا۔ انہوں نے حضرت لُوط علیہ السلام کی ایک نہ سنی۔ اللہ کے بھیجے ہوئے فرشتوں نے حضرت لُوط علیہ السلام کو تسلی دی اور اپنی حقیقت سے آگاہ کیا اور ساتھ ہی بستی سے چلے جانے کی تلقین بھی کی۔ حضرت لُوط علیہ السلام فرشتوں کی ہدایت کے مطابق اپنے متعلقین کے ہمراہ سُدوم سے رات کے وقت نکلے اور اس وادی سے ایک طرف ’’زغر‘‘ نامی مقام پر پہنچ گئے ۔ صبح کے نزدیک ایک ہولناک آواز بلند ہوئی اور اہلِ سُدوم کے حواس معطل ہو گئے ۔ آسمان سے ان پر کنکر اور پتھر برسائے گئے اور تمام بستیاں ان کے مکینوں سمیت الٹ دی گئیں۔ حضرت لُوط علیہ السلام اپنے ساتھیوں کے ہمراہ جس مقام پر موجود تھے ، وہ عذابِ الٰہی سے محفوظ رہا۔ قرآن حکیم سمیت تمام الہامی کتابوں میں مذکور یہ واقعہ نوع انسانی کو درس عبرت دیتا ہے اور بتاتا ہے کہ دنیا میں ایسی کوئی مثال سامنے نہیں آئی کہ ظالم کو اس کے ظلم کا بدلہ نہ ملا ہو۔ اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں ہے کہ شیطا نیت کے پیروکاروں کو زندگی میں سکونِ قلب کی دولت حاصل نہیں ہوتی۔ مُکافاتِ عمل کا یہ قانون ہے کہ کوئی انسان اس وقت تک رنگ و بو کی اس دنیا سے رشتہ منقطع نہیں کر سکتا۔ جب تک وہ مُکافاتِ عمل کا کفارہ ادا نہیں کر دیتا۔ کیا کوئی انسان یہ کہہ سکتا ہے کہ خیانت اور بددیانتی سے اس کی مسرت میں اضافہ ہوا ہو؟ کیا کوئی آدمی متعفن اور سڑی ہوئی غذا کھانے کے بعد بیماریوں، پریشانیوں اور بے چینی سے محفوظ رہ سکتا ہے ؟ کیا سیاہ کارانہ طرزِ زندگی اپنا کر اِرادوں میں کامیابی ممکن ہے ، ایسی کامیابی جس کامیابی کو حقیقی کامیابی اور مستقل کامیابی کہا جا سکے ؟ ظاہر ہے کہ ان تمام سوالات کا جواب یہ ہے کہ برے کام کا نتیجہ برا مرتب ہوتا ہے اور اچھے کام کا نتیجہ اچھائی میں ظاہر ہوتا ہے ۔ اس اصول کو لامحالہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ فلاح خیر میں ہے اور شر کا نتیجہ ہمیشہ تباہی کی صورت میں سامنے آیا ہے ۔ پیغمبروں کے کردار کو جب ہم عمیق نگاہی سے دیکھتے ہیں تو ہمیں اچھائی کے علاوہ کوئی دوسری چیز نظر نہیں آتی یعنی وہ ایسے کردار سے مستفیض ہیں جس کردار میں لطافت و حلاوت کے علاوہ کوئی دوسری چیز شامل نہیں ہے ۔ کردار کے تعین میں دو طرزیں بنتی ہیں۔ ایک یہ کہ آدمی شیطا نیت سے قریب ہو کر شیطان بن جاتا ہے اور دوسری یہ کہ آدمی سراپا رحمت بن کر اللہ کی سلطنت میں نمائندہ بن جاتا ہے ۔آخر الذکر ہی کو خیر اور بھلائی سے موسوم کیا جاتا ہے ۔