حضرت شاہ شمس سبزواری ؒکے عرس کی دو روزہ تقریبات اختتام پذیر ہو گئیں ، حیات مبارکہ پر بات کرنے سے پہلے یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ زائرین کو سہولتوں کا فقدان آج بھی موجود ہے ، عرس کی تقریبات کے دوران بارشوں کا سلسلہ جاری رہا ۔ مسافروں کے لئے رہائشی کمرہ جات کی کم یابی کے باعث زائرین طرح طرح کی مشکلات کا شکار رہے ۔ ملتان کو مدینۃ الاولیاء کہا جاتا ہے ، صوفیاء کرام کے اعراس کا سلسلہ سارا سال جاری رہتا ہے ۔ جس طرح کہ حضرت بہاؤ الدین زکریا ملتانیؒ اور حضرت شاہ رکن الدین عالم ملتانیؒ کے عرس پر لاکھوں کی تعداد میں زائرین آتے ہیں اور زائرین کو سہولتوں کا فقدان دیکھنے میں آتا ہے ۔ یہی سلسلہ حضرت شاہ شمس سبزواریؒ کے عرس پر بھی دیکھنے میں آیا ۔ وسیب کے لوگ ہمیشہ بر سر اقتدار رہے ۔ آج بھی اقتدار وسیب کے پاس ہے ، کل میاں برادران کا شکوہ کیا جاتا تھا ، سوال یہ ہے کہ آج کس سے شکوہ کریں ؟ حضرت شاہ شمس سبزواری کی ولادت با سعادت 15 شعبان 560ہجری کو ایران کے شہر سبزوار میں ہوئی۔ خاندانی شجرا کے مطابق آپ جعفری الحسینی ہیں۔ آپ کا شجرہ حضرت امام جعفر صادق سے ملتا ہے، اس لئے آپ کو جعفری کہا جاتا ہے ، اور آپ آل محمدؐ میں سے ہیں ، خاندانی شجرا کے مطابق آپ حسینی ہیں ، کیونکہ آپ کی نسبت حضرت امام حسینؓ سے ہے ۔ آپ کا شجرہ مبارک حضرت امام جعفر صادق سے ہوتا ہوا 19 ویں پشت پر حضرت علی ؓ سے ملتا ہے۔ حضرت شاہ شمس نے ابتدائی تعلیم اپنے والد محترم سید صلاح الدین محمد سے حاصل کی ۔16 سال کی عمر میں آپ نے تمام دینی اور دنیاوی تعلیم مکمل کر لی تھی ۔ آپ اپنے والد محترم کے ساتھ سبزوار سے دنیا کے مختلف ملکوں میں تبلیغ کی خاطر تشریف لے گئے ، جہاں جا کر آپ نے اسلام کی شمع روشن کی اور ہزاروں غیر مسلم لوگ آپ کے کرم و فیض سے مشرف بہ اسلام ہوئے ۔ حضرت شاہ شمس نے مولانا جلال الدین رومی کو بھی طریقت کے اسرار و رموز سے آگاہ کیا تو مولانا جلال الدین رومی نے پوری زندگی حضرت شاہ شمس ؒ کے نام کر دی اور آپ کے دستِ مبارک پر بیعت ہو گئے ۔صرف مسلمان ہی نہیں بلکہ دیگر مذاہب کے لوگ بھی آپ کی ولایت کے قائل تھے۔ آپ کی مذہبی رواداری کو دیکھتے ہوئے آپ کے عقیدت مند ہو گئے ۔ سکھوں کے روحانی پیشوا بابا گرو نانک کی کئی معتبر کتب میں تذکرہ موجود ہے کہ وہ حضرت شاہ شمس ؒ کے عقیدت مند تھے اور حضرت شاہ شمس کے مزار پر نہ صرف حاضری دیتے بلکہ چالیس دن تک جاروب کش بھی رہے اور فیض حاصل کرتے رہے ۔آپ کی وفات 28 صفر المظفر 675 ہجری ملتان میں ہوئی۔ آپ کی عمر 115 برس تھی ۔ آپ کی اولاد میں دو پسر سید نصیر الدین ، سید علاؤ الدین احمد تھے ، آپ کا روضہ مبارک کی اول تعمیر 667ھ میں ہوئی ۔ دوسری مرتبہ تعمیر 730 ہجری میں کی گئی ، آپ کے روضہ کی موجودہ تعمیر 1194ھ میں کرائی گئی ۔ آپ کا جشن ولادت ہر سال 14، 15 شعبان المعظم کو منایا جاتا ہے۔ آپ کی سالانہ برسی 28، 29 صفر المظفر کو منائی جاتی ہے ۔ جبکہ سالانہ عرس مبارک بسلسلہ کرامت آفتاب 19، 20 جیٹھ بمطابق یکم اور 2 جون کو منایا جاتا ہے۔ روایت ہے کہ 664ہجری میں حضرت شاہ شمسؒ بذریعہ کشتی دریائے دجلہ سے روانہ ہوئے ، آپ کے ہمراہ آپ کے مرید صادق مولانا جلال الدین رومی اور آپ کے چچا سید عبدالہادی ، قاضی قطب الدین کاشانی ، احمد جان بہاؤ الدین بلاکراں اور سید نعمت اللہ ، شہزادہ محمد نکودار بھی کشتی میں سوار تھے ۔طویل سفر کے بعد جب آپ ملتان پہنچے تو آپکی کشتی بھنور میں آ گئی۔ آپ نے اپنے تمام رفقاء سے فرمایا کہ کسی کے پاس مال دنیا تو نہیں ہے ، سب نے کہا کہ ہمارے پاس مال دنیا نہیں ہے ۔ شہزادہ محمد نکودار کے پاس چند ہیرے تھے آپ نے حضرت شاہ شمسؒ سے عرض کی کہ میرے پاس ہیرے ہیں ۔ آپ نے فرمایا کہ دریا میں پھینک دو ، جیسے ہی شہزادے نے ہیرے جواہرات کی پوٹلی دریا میں پھینکی تو کشتی صحیح سمت پر چل پڑی ۔ کچھ آگے چل کر آپؒ نے کشتی کو کنارے پر لگانے کا حکم دیا اور دریا سے باہر آ گئے اور فرمایا کہ ہمیں یہیں قیام کا حکم ہوا ہے ( یہ وہی جگہ ہے جہاں آپ کا مزار اقدس ہے )۔ آپؒ نے اپنے رفقاکو دیکھا تو شہزادے کا چہرہ مایوس نظر آیا ۔ آپؒ نے پوچھا شہزادے کیوں مایوس ہو؟ شہزادے نے عرض کی کہ وہ ہیرے جواہرات آپ نے دریا میں پھینکوا دیئے وہ بہت قیمتی تھے ۔ یہ بات سن کر آپ نے دریا کی طرف دیکھا اور مچھلیوں کو حکم دیا کہ اپنے منہ میں ہیرے جواہرات لے آؤ، جیسے ہی حکم ہوا تمام مچھلیاں ہیرے جواہرات لے کر دریا کنارے آ گئیں ۔ آپ نے شہزادے سے فرمایا کہ اپنے ہیرے پہچان کر لے لو ، جب شہزادے نے دریا کی طرف دیکھا تو جہاں تک نظر جاتی مچھلیاں ہیرے جواہرات لے کر کھڑی تھیں ۔ یہ منظر دیکھ کر شہزادہ آپؒ کے قدموں میں گر گیا اور کہا کہ مجھے ہیرے جواہرات کی ضرورت نہیں ۔ آج کی انتہا پسندی اور دہشت گردی کے دور میں صوفیاء کے پیغام کو عام کرنیکی ضرورت ہے ‘ انسان دوستی کی ضرورت ہے ، عدم برداشت سے چھٹکارے کی ضرورت ہے ، یہ اس وقت ممکن ہے جب صوفیاء کے پیغام کو حقیقی معنوں میں عام کیا جائے ۔ صوفیاء انسان دوست تھے اور انہوں نے انسان دوستی کا درس دیا ۔ صوفیاء کرام مذہب کے معاملے میں بھی روا دار تھے اور تمام مذاہب کا احترام کرتے تھے مگر آج افسوسناک صورتحال یہ ہے کہ بزرگان دین کے مزارات کو بھی مسلک اور فرقہ پرستی کے نام پر تقسیم کر دیا گیا ہے، جس سے صوفیاء کرام کا پیغام صحیح معنوں میں عام نہیں ہو رہا ۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ موجودہ سجادگان یا متولی بزرگانِ دین کے پیغام کو عام کریں ، انسان دوستی کو عام کریں ، قوم کو مسلک اور فرقہ واریت کے نام پر تقسیم نہ ہونے دیں کہ مذہب بہت ہی اعلیٰ چیز ہے ۔