برصغیر کی تاریخ تصوف اپنے اندر علوم و معارف کے کئی جہاں آباد کیے ہوئے ہے۔ بلاشبہ صوفیاء کرام رحمہم اللہ کے احوال و مقامات اس خطہ کی فکری، دینی اور تہذیبی تاریخ کا ایسا سنہرا باب ہیں، جس سے اس دور کے معاشرتی حالات، سیاسی رجحانات ، ادبی تحریکات اور مذہبی افکار سمیت مختلف امور سے آگاہی میسر آتی ہے۔ ’’تاریخ نویسی‘‘ اور ’’تاریخ نگاری‘‘ کے حوالے سے جن کا جاننا از حد ضروری ہے۔ لفظ تاریخ (History) کا معنی ہے "علم اور سچائی کی تلاش"۔"دریافت کرنے کے لیے تلاش کا عمل "۔ شمس الدین محمد بن عبدالرحمن السخاوی اپنی معروف تصنیف "تاریخ التاریخ" میں لکھتے ہیں کہ تاریخ کا موضوع ہے " انسان"اور " زمان"۔ تاریخ درحقیقت وہ فن ہے جس میں سارے زمانے کے واقعات سے متعلق بحث کی جاتی ہے۔ تاریخ گذشتہ حالات وواقعات کا ایسا مربوط اور مؤثر بیان یا ان کی وضاحت ہوتی ہے، جس کو صداقت اور دیانت کے مسلّمہ اصولوں کی روشنی میں جانچ اور پرکھ سے گزار کر تنقیدی زاویہ نگاہ سے لکھا جاتا ہے۔ تاریخ نویسی میں یہ امر بھی بڑی اہمیت کا حامل ہوتاہے کہ اس میں گذشتہ حالات وواقعات کو ان کے معاشرتی،عمرانی اور فکری پس منظر میں دیکھنا ہوتا ہے ۔ تاریخ کا میدان اتنا ہی وسیع ہے جتنا انسانی زندگی کا دائرہ۔اس کا اگرچہ تمام تر تعلق ماضی کے واقعات سے ہے، تاہم انسانی زندگی سے بھر پور ربط کے سبب،ان احوال وواقعات سے بہت کچھ سیکھا جا سکتا ہے۔ ماضی کو سامنے رکھ کر حال کے مسائل کا حل اور مستقبل کے بارے میں جامع لائحہ عمل اور مؤثر حکمت عملی مرتّب کی جا سکتی ہے ۔ تاریخ نویسی اور تاریخ نگاری میں مختلف حالات وواقعات کو تاریخی تناظر میں جانچنے کے ساتھ ساتھ ان کو اس طرح بھی دیکھنا ہوتا ہے کہ وہ ایک خاص فکری اور معاشرتی ماحول میں وقوع پذیر ہوئے ہیں۔ اس لیے ان کا ظہور الگ حیثیت سے نہیں ،بلکہ فکری اور معاشرتی عمل ہی کا ایک حصہ ہوتا ہے۔ کسی فرد کے سوانحی حالات بھی اسی وقت تاریخ میں معتبر ہوتے ہیں جب وہ اپنے زمانے کے معاشرتی ،سیاسی اور فکری تناظر کے ساتھ زیر بحث لائے جائیں اورصحیح نتائج کا حصول بھی اسی طرح ہی ممکن ہے۔زیر نظر موضوع بھی تاریخی اور تحقیقی اعتبار سے ایسی ہی حیثیت کا حامل ہے۔ بادی النظر میں کسی بھی سلطنت کے کسی بڑے شاہی تعمیراتی منصوبے کے لیے اعلیٰ سے اعلیٰ میٹریل کی فراہمی ترجیحات واہداف میں اہم، مگر سادہ سی بات ہے، جس کے حصول کو کسی بھی جگہ سے ممکن بنایا جاتا ہے۔ تاہم بعض اوقات یہ معاشرتی ،سیاسی اور فکری تناظر ہی، اس دور کے مختلف روّیوں تک رسائی کا ذریعہ بھی بنتے ہیں۔بادشاہی مسجد اورنگ زیب عالمگیر کے حکم سے تعمیر ہوئی، جو اس کے عہد کے چند عظیم ترین کا موں میں سے ایک ہے۔ محققین اور مؤرخین نے اس کی تعمیر میں استعمال ہونے والا" سنگ ِسرخ" جِسے "سنگِ خارا"کا نام بھی دیا گیا ہے، جو اپنی خوبصورتی اور دلآویزی کے سبب اپنے اندر ایک منفرد حسن وکشش رکھتا ہے، کے بارے میں مختلف آراء کا اظہار کیا ہے، جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ اس پتھر کے یہاں استعمال کے کچھ ایسے عوامل بھی تاریخ نگاروں کی نظر میں ہیں ،جن تک عام قارئین کی نگاہ نہیں پہنچتی۔معتبر اور مسلمہ تاریخ نگار اس امرپر متفق ہیں کہ بادشاہی مسجد میں استعمال ہونے والا یہ سنگ سرخ حضرت میاں میرؒ کے دربار کے تعمیراتی وتوسیعی منصوبہ جات کے لیے شہزادہ داراشکوہ نے لاہور میں اکٹھا کروایا تھا۔ اس کو موت نے آن لیا اور یوں اس کا یہ منصوبہ مکمل نہ ہوسکا۔ شہزادہ داراشکوہ، جو کہ شاہجہاں کا سب سے بڑا بیٹا تھا، ۲۰مارچ ۱۶۱۵ء کو ممتاز محل کے بطن سے پیدا ہوا ،قصیدہ گو شعراء نے "گُلِ اوّلین گلستانِ شاہی" سے موسوم کیا ۔’’رودِ کوثر‘‘ کے مطابق: "داراشکوہ شاہجہاں کا سب سے بڑا بیٹا تھا ۔ایک مدت تک شاہجہاں کے ہاں بیٹیاں پیدا ہوتی رہیں ۔اسے اولادِنرینہ کی بڑی خواہش تھی ۔چنانچہ اس نے حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیریؒ کی درگاہ ِعالیہ پر حاضرہو کر دُعا کی اور نذرونیاز مانی۔اس کے کچھ عرصہ بعد داراشکوہ بمقام اجمیر میں پید ا ہوا۔"داراشکوہ کی تعلیم وتربیت کا خصوصی اہتمام کیا گیا ۔اُس کے ایک استاد میرک شیخ ،جن کے بارے میں داراشکوہ "سکینۃ الاولیائ"میں لکھتا ہے کہ حضرت اخوند میرک شیخ علم ظاہر کے استاد اور عالم وفاضل ہیں۔زُہد وپرہیز گاری اور حق گوئی میں ان کا قدم نہایت استوار ہے ۔ میرک شیخ اس زمانے کے جیّد عالم اور داراشکوہ کے ادبیات فارسی وعربی ،تفسیر اور علوم متداولہ کے حوالے سے خصوصی استاد تھے ۔یہ بات بھی خصوصی توجہ کی حامل ہے کہ میرک شیخ کے علم اور زُہدکے سبب اوائل عمر میں ہی داراشکوہ انہیں اپنا روحانی مربّی سمجھنے لگا تھا ۔یوں داراشکوہ ،بالواسطہ طور پر حضرت میاں میرؒ سے فیض یاب ہونے لگا، جس کا اثر ساری زندگی اس پر رہا۔داراشکوہ کو اپنے والد بزرگوار شاہجہان، جن کو حضرت میاں میرؒ کے ساتھ بہت عقیدت تھی، کے ہمراہ حضرت میاں میرؒ کی بارگاہ میں حاضر ہونے کے بھی مواقع میسر آئے۔ داراشکوہ کوآپؒ کی بارگاہ میںپہلی مرتبہ ۷اپریل۱۶۳۴ئ، دوسری مرتبہ اس کے دو دن بعد اور پھر کشمیر سے واپسی پر دسمبر۱۶۳۴ء میں حاضری میسر آئی۔گویا حضرت میاں میرؒ کی دربار میں حاضری کے وقت داراشکوہ کی عمر تقریباً اُنیس سال تھی۔۱۶۳۵ء میں جب شاہجہاں لاہور میں قیام پذیر تھا تو داراشکوہ کو حضرت میاں میرؒ کی صحبت فیض اثر اکثر میسر آتی ،جس سے وہ روحانی زندگی کی طرف مائل ہو ا۔انہیں کی صحبت میں حضرت ملاشاہ بدخشی ؒ سے بھی ملنے کا اتفاق ہوا۔ داراشکوہ لکھتا ہے کہ اپنے والد گرامی شاہجہاں کے ساتھ ،حضرت کے حجرہ عالیہ میں حاضر ہوا تو آپ ؒ نے بادشاہ سے فرمایا:"عادل بادشاہ کو اپنی رعیت اور سلطنت کی خبر گیری کرنی اور تمام ہمت اپنی ولایت کی آبادی و سرسبزی میں صرف کرنی چاہیے کیونکہ اگر رعیت آسودہ اور ملک آباد ہے تو سپاہ آسودہ اور خزانہ پُر رہے گا"۔ ازاں بعد بادشاہ سے میری علالت کی کیفیت سن کر مجھے پانی دم کر کے دیا، جس سے ایک ہفتہ میں مجھے صحت کامل ہوگئی۔صاحبِ رودِ کوثر کے یہ الفاظ زیادہ جامع محسوس ہوتے ہیں:" اس کی روحانی نشوونما کی بسم اللہ شاید اُس دن ہوئی جب ۲۵فروری ۱۶۳۴ء کو شاہجہاں اسے لے کر حضرت میاں میر ؒ کی خدمت میں حاضر ہوا اور ان سے التجا کی کہ وہ اس کی صحت کے لیے دعا کریں ،اس وقت دارا کی عمر انیس سال کی تھی اور اگرچہ اس کے عقائد اور تاثرات کا اس وقت کوئی ذکر نہیں ملتا ،لیکن قرین قیاس ہے کہ صحت پاجانے پر جسے وہ حضرتؒ کی کرامات پر محمول کرتا ہے ،اس کی عقیدت اہل اللہ سے ضرور بڑھ گئی ہوگی ۔اس کے دس مہینے بعد جب دسمبر ۱۶۳۴ء کو شاہجہاں حضرت میاں میر ؒ کی خدمت میں حاضر ہوا تو داراشکوہ اس کے ہمراہ تھا اور اس وقت دارا کی عقیدت مندی کی یہ حالت تھی کہ وہ حضرتؒ کے مکان کی دوسری منزل میں جہاں حضرت کا قیام تھا ،برہنہ پا گیا اور جو لونگ وہ چبا چبا کر پھینکتے جاتے تھے انہیں اٹھا کر کھاتا رہا۔اس کے بعد جب بادشاہ چلا گیا تو داراشکوہ تنہا شیخ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ ان کے قدموں پر سر رکھ دیا،آپؒ بھی دیر تک اس کے سر پر ہاتھ پھیرتے رہے اور اس کے حق میں دعا کی۔"(جاری ہے )