’’کالم‘‘کے بارے میں،ہدایت تو یہی ہوتی ہے کہ حالاتِ حاضرہ سے آراستہ،کرنٹ آفیئرز سے مزیّن اور گردوپیش سے متصل ہو،اس حوالے سے،عام قاری کیلیے،تو آج کا موضوع شایداتنا بر محل "Relevant" نہ ہو،لیکن میرے اور بالخصوص 92کے قارئین کے لیے اس میں عقیدت و محبت کے ساتھ ساتھ... ہمارے سماج،مذہب اور رواج کے بہت سے پہلوؤں میں سے ایک یہ ہے کہ برصغیر کے مذہبی اور دینی کلچر میں ’’گیارھویں شریف‘‘کو ایک بڑا امتیازاور قبولِ عام میسر ہے، چونکہ یہاں دین صوفیاء کے دم قدم سے پہنچا،اور صوفیا باقاعدہ سلاسلِ طریقت سے وابستہ اور خود کو اپنے سلسلے کے قواعد و ضوابط کے پابند رکھتے،بنابریں ان کی خانقاہوں میں بڑے زور و شور سے اور کسی نہ کسی درجے مساجد میں اس کا ہر ماہ ضرور اہتمام ہوتا،اس کے ساتھ کم از کم پنجاب کی حد تک عام گھروں میں بھی اس یوم کی مناسبت سے خالص دودھ کی عمدہ’’کھیر‘‘۔۔۔ یا پھر کچھ نہ کچھ پکا کر، تقسیم کرنے کا رواج رہا،اور کسی نہ کسی درجے اب بھی ہے،یہ صرف ہمارے خطے تک ہی محدود نہیں بلکہ عالمِ اسلام کا شاید ہی کوئی قریہ ایسا ہو،جہاں تمام سلاسل سے تعلق رکھنے والے،اُس شاہبازِ لامکانی اور سلطانِ اقلیمِ روحانی کا یوم وصال ہر سال کمال عقیدت و محبت اور تزک و احتشام سے نہ مناتے ہوں۔ایصالِ ثواب کی محفلیں برپا ہوتی ہیں،غربا و مساکین میں کھانا تقسیم ہوتا ہے۔درگاہوں اور خانقاہوں میں روح پرور مناظر اور مظاہر دیکھنے کو ملتے ہیں۔ہمارے ہاں عیسوی کیلنڈر رائج ہونے کے سبب،بہت سے دینی اور مِلّی اہمیت کے حامل سنین و شہور،ماہ و سال اور ایام و تہوار بعض اوقات خاموشی سے گذر جاتے ہیں،ایسے ہی دنوں میں، ایک 11ربیع الثانی ہے،جو کہ محبوبِ سبحانی،غوثِ صمدانی، میراں محی الدین الشیخ سیّد عبدالقادر جیلانیؒ شہنشاہِ بغداد کے یوم وصال سے موسوم ہے۔گیارھویں شریف کے حوالے سے کوئی بھی اس کی’’فرضیت‘‘یا’’وجُوب‘‘کا قائل تونہیں،لیکن گذشتہ سینکڑوں سالوں سے اُمّتِ مسلمہ کے جلیل القدر علماء و مشائخ اور سلاسلِ طریقت سے وابستہ لاکھوں اہلِ ایمان اسے اپنا معمول سمجھتے اور حصول خیر و برکت کیلئے اس کے انعقاد کو مُستحسن خیال کرتے رہے۔اکثر بزرگانِ دین کے ایام کا اہتمام سالانہ بنیادوں پر ہوتا ہے،حضرت غوثِ پاک کو یہ فضیلت،اعزاز اور انفرادیت میسر ہے کہ ان کا عرس،ہر مہینے،پورے عالم اسلام میں منایا جاتا ہے۔یعنی آسمانِ فقرو ولایت کا یہ مہر درخشاں اور سپہر عُلُوم و معارف کا یہ نیّرِ تاباں،اکانویں(91) برس کی طویل مدت تک،اپنی خیرہ کُن ضیا پاشیوں،بے حدو بے حساب فیض رسانیوں اور حیرت انگیز جلوہ سامانیوں کے بعد،آج سے 881سال قبل، یعنی 11ربیع الثانی 561ھ شبِ شنبہ (سوموار) بعد از نمازِ عشاء عالم اَبَد کے معنوی مطلع پر ضیا بار ہوگئے۔جیسا کہ آپ نے از خود ہی فرمادیا: اَفَلَتْ شُمُوسُ الْاَوَّلِیْنَ و شَمْسُنَا اَبَدًا عَلٰی اُفُقِ الْعُلٰی لَا تَغْرُب یعنی:ہوئے غروب آفتاب،اقطابِ اوّلیں کے،مگر ہمیشہ بلندیوں کے اُفُق پہ چمکے گا نیّرِ ضوفشاں ہمارا آپ اٹھارہ سال کی عمر میں مزید تحصیلِ علم کے لیے گیلان سے بغداد پہنچے،جو اس وُقت’’مدینۃُ العلوم‘‘ہونے کے ساتھ اُس دور کے مشائخ کبار اور علمائے عظام کا مرکز تھا، جہاں شب و روز تشنگانِ علم ومعرفت کا ہجوم رہتا،عجیب اتفاق۔۔۔کہ آپ کے ورودِ بغداد کے سال ہی حجۃُ الاسلام امام غزالی نے بغداد سے رختِ سفر باندھا۔آپ نے9سال تک علوم ظاہری و باطنی کی تحصیل وتکمیل میں نہایت مشقت اُٹھائی،اسکے ساتھ ریاضاتِ کاملہ اور مجاہداتِ شاقہ میں پچیس سال کا طویل عرصہ...دشت پیمائی اور صحرانوردی میں صرف کیا،حیاتِ ظاہری کے آخری چالیس سال خلقِ خدا کے رشد و ہدایت اور اصلاحِ احوال میں گذارے،اور اُس کے بعد،سب سے عظیم جامعۂ مبارک المخرمی کے شیخ الجامعہ (پرنسپل) مقرر ہوئے۔جہاں آپ نے درس وتدریس اور اِفتأ کے ساتھ سلسلۂ وعظ و تبلیغ شروع کیا۔آپ جمعہ کی صبح اپنے جامعہ میں وعظ فرماتے،منگل کی شام خانقاہ میں اور اتوارکے دن علماء وفقہاکے مجمع میں مسند رشد و ہدایت اور منبرِوعظ آراستہ فرماتے۔سامعین کی تعداد میں اضافہ ہوا،تو جامعہ سے ملحق عمارات ورباط کو مدرسہ میں شامل کر کے توسیع کرنا پڑی،لیکن انسانوں کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر ان کوزوں میں سمونا مشکل تھا،بالآخر شہر کی آبادی سے باہر وسیع وعریض میدان کا انتخاب ہوا،حلقہ درس ستر ہزار نفوس سے متجاوز ہوجاتا،دور دراز سے آنے والے تشنگانِ علم،اپنی سواریوں پر ہی،میدان کے گرداگرد فصیل کی طرح دکھائی دیتے۔چار سو کاتب بیک وقت مجلس میں خطبات کے ’’نوٹس‘‘لینے کو موجود ہوتے،مجلسِ وعظ میں،آپکی کرامت کے سبب۔آنجنابؒ کی آواز دور و نزدیک یکساں پہنچتی اور پورا مجمع ہمہ تن سکون اور خاموشی کے عالم میں تحصیلِ علم میں مگن ہوتا۔حضرت شیخ عبدالقادر جیلانیؒ کی حیاتِ ظاہری کا آخری دور خصوصی طور پر خلقِ خدا کی رشد و ہدایت کے لیے وقف رہا،چالیس برس تک بغداد کی فضائیں آپ کے مواعظِ حسنہ اور ارشاداتِ عالیہ سے گونجتی اور آپؒ کے اس فرمانِ ذیشان کی سربلندی کی امین رہیں۔ "دَرَسْتُ العلمَ حَتَی صِرْتُ قُطْبَاً" یعنی:’’میں نے علم پڑھا،حتی کہ مقامِ قطبیت پر فائز ہوا‘‘ آپؒ کے وابستگان اگر تحصیلِ علم سے بے بہرہ ہوں تو پھر آپؒ کے ساتھ تعلق اور نسبت...؟جو شیخ اپنی قطبیت کی اساس علم کو قرار دے،وہ اپنے متعلقین اور متوسلین کوجاہل کیسے برداشت کر سکتا ہے،آپؒ کے چند اقوال تبرکاًپیش ہیں،اس خواہش کے ساتھ،کہ پیرانِ پیر کی گیارہویں کا اہتمام کرنے والے آپ کے افکار و اقوال پر بھی عمل پیرا ہوں: O۔چار باتیں تمہارے دین کو برباد کر دیں گی: i۔یہ کہ جس چیز کا تمہیں علم ہے،اُس پر تم عمل نہیں کرتے۔ii۔یہ کہ جس چیز کا تمہیں علم نہیں،اُس پر عمل کرتے ہو۔iii۔یہ کہ جس چیز کا تمہیں علم نہیں،اس کا علم حاصل نہیں کرتے۔ iv۔یہ کہ جس چیز کا تمہیں علم نہیں،دوسروں کو اس کا علم حاصل کرنے سے روکتے ہو۔ O۔علماء کی خدمت میں حُسنِ ادب،ترکِ اعتراض اور حصولِ فائدہ کے لیے حاضری دو،تاکہ ان کے علوم و برکات سے تمہیں فائدہ پہنچے۔ O۔پہلے اپنے آپ کو نصیحت کرو،پھر دوسروںکو۔ O۔تم اندھے ہو کر دوسروں کی رہنمائی کس طرح کر سکتے ہو کیونکہ لوگوں کی رہنمائی تو صاحبِ بصیرت ہی کر سکتا ہے۔ O۔اپنے دائیں ہاتھ سے صدقہ دیتے وقت کوشش یہ کرو کہ تمہارے بائیں ہاتھ کو خبر نہ ہو۔ O۔اگر تم متقی،متوکّل اور صاحبِ یقین بننا چاہتے ہو،تو صبر پر کاربند رہو،کیونکہ صبر ہر بھلائی کی بنیاد ہے۔O۔عمل پر غرور نہ کرو،کیونکہ اعمال کا دارومدار خاتمے پر ہے۔ O۔(کم از کم ) چالیس دن اپنے رب کے ساتھ اخلاص پر کاربند رہو،توتمہارے دل سے،تمہاری زبان پر حکمت و معرفت کے چشمے جاری ہوں گے۔ O۔دنیاداروں کے ساتھ تعزّز (بے نیازی و خود داری) سے پیش آؤ،جبکہ درویشوں کے ساتھ عجز و انکسار سے۔ O۔حرام روزی سے دل مردہ ہو جاتا ہے،جبکہ رزقِ حلال سے دل کو زندگی ملتی ہے۔