معروف صوفی شاعر، راہ سلوک کے نامور مسافر حضرت خواجہ غلام فریدرحمۃ اللہ علیہ نے اپنی محبت بھری شاعری اور دلوں کو جوڑنے والے افکار کی بدولت پنجاب بھر میں ایک خاص مقام حاصل کیا۔ان کا کلام ایک طرف تو محبت الہی کے نور سے منور تھا تو دوسری طرف بلندی خیالات کے باوجود عام آدمی کے دل میں گھر کر گیا ۔ وہ ان صوفی بزرگوں میں سے ایک تھے جنہوں نے اپنی شخصیت کے ساتھ ساتھ اپنے کلام سے بھی لوگوں کو متاثر کیا اور را ہ خدا سے بھٹکے ہوئے لوگوں کو ان کے خالق کی بارگاہ میں پیش کیا۔آپ نے اپنے جذبات و خیالات کے اظہار کے لئے شاعری کی صنف ’کافی‘ کو پسند فرمایا اور اس صنف میں طبع آزمائی کا وہ معیار قائم کیا کہ کئی استاد شعرا بھی دم بخود رہ گئے ۔ طویل غزل کے بجائے اختصار کو پسند کرنے والے حضرت خواجہ غلام فریدرحمۃ اللہ علیہ کی ہر کافی میں گویاکہ دریا کو کوزے میں بند کر دیا گیاہے ۔ اگر میں یہ کہوں تو غلط نہ ہو گا کہ سرائیکی زبان کو جو شناخت آپ نے عطا کی وہ شائد ہی کسی اور شخصیت نے دی ہو۔ حضرت خواجہ غلام فریدرحمۃ اللہ علیہ 25ذی قعد 1261ھ بمطابق 25نومبر 1845ء کو بہاولپور کے قصبہ چاچڑاں شریف میں پیدا ہوئے ۔ آپ کے والد ماجد کا نام مولانا خدا بخش عرف محبوب الہی رحمۃ اللہ علیہ تھا جو کہ ایک خدا رسیدہ بزرگ اور صاحب سلسلہ شیخ طریقت تھے ۔ اس دور کے اکثر روسا اور امراء آپ کے حلقہ ارادت میں شامل تھے ۔ نواب آف بہاولپور نواب فتح محمد آپ کے ارادت مندوں میں اور مریدین میں شامل تھے جبکہ مٹھن خان جتوئی جن کے نام پر کوٹ مٹھن آباد ہوا وہ بھی خصوصی ارادت مندوں میں شامل تھے ۔حضرت خواجہ خدا بخش کے وصال کے بعد آپ کے بڑے بیٹے خواجہ فخر جہاں رحمۃ اللہ علیہ مسند طریقت پر فائز ہوئے اور رشد وہدایت کا سلسلہ جاری رکھا۔حضرت خواجہ غلام فرید کا کا تاریخی نام خورشید عالم رکھا گیا تاہم آ پ غلام فرید کے نام سے ہی مشہور ہوئے ۔ آپ کا سلسلہ نسب کئی واسطوں سے حضرت سید نا عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے جاملتا ہے ۔ آپ کے خاندان میں ایک شخص شیخ کور بن حضرت شیخ پر یا تھا۔ امتداد زمانہ کی وجہ سے یہ کورکا لفظ کوریجہ بن گیا اس لئے اب کوریجہ آپ کے خاندان کی ایک شناخت کے طور پر جانا جاتا ہے ۔ آپ کی عمر مبارک جب ۴ سال تھی تو آپ کی والدہ ماجدہ کا انتقال ہو گیا جبکہ ۸ سال کی عمر میں والدکا سایہ بھی سر سے اٹھ گیا۔ آپ نے قرآن کریم کی ابتدائی تعلیم چاچڑاں شریف میں ہی میاں صدر الدین اور میاں محمد بخش سے حاصل کی۔ جبکہ فارسی کی تعلیم میاں حافظ خواجہ جی اورمیاں احمد یار خواجہ رحمۃ اللہ علیہم سے حاصل کی۔ آپ قریب ۴ سال اپنے والد کے مرید نواب آف بہاولپور کے محل میں قیام پذیر رہے جہاں پر مختلف جید اساتذہ سے اکتساب فیض کیا۔آپ نے 13برس کی عمر میں اپنے بڑ ے بھائی حضرت خواجہ فخر جہاں کے ہاتھ پر بیعت کی۔ بیعت کے بعد کافی عرصہ تک آپ کا واحد مشغلہ ذکر الہی رہا اور یاد خدا میں کئی کئی دن جنگلوں اور بیابانوں میں مقیم رہے ۔جب آپ کی عمر مبارک 27برس ہوئی تو آپ کے مرشد اور بڑے بھائی کا انتقال ہو گیا اور آپ ان کی جگہ اپنی درگاہ کے سجادہ نشین بنے ۔ نواب آ ف بہاولپور نواب صادق محمد خان رابع عباسی چاچڑاں شریف آئے اور ان کی دستار بندی کی۔ عوام الناس بھی جوق در جوق اس محفل میں شریک ہوئے اور اسی دن ہزاروں لوگوں نے حضرت خواجہ غلام فریدرحمۃ اللہ علیہ کے ہاتھ پر بیعت کی۔آپ نے تین شادیاں کیں ۔پہلی شادی 26سال کی عمر میں راجن پور کے ماڑھا خاندان میں ہوئی آپ کی زوجہ محترمہ کا نام بی بی زہرہ رحمۃ اللہ علیہاتھا۔ان کے وصال کے بعددوسری شادی ملتان میں ہوئی جبکہ تیسری شادی چولستان میں انجام پائی۔حضرت خواجہ غلام فرید ایک ہفت زبان شاعر تھے ۔ تاہم ان کا زیادہ کلام سرائیکی زبان میں ہے ۔ آپ نے سرائیکی کے علاوہ اردو، پنجابی، فارسی، ہندی، عربی اور پوربی زبانوں پر بھی عبور حاصل تھا۔ آپ نے سرائیکی زبان میں 271کافیاں تصنیف فرمائیں جن کو دیوان فرید کے نام سے ایک جگہ جمع کیا گیا ہے ۔آپ کے کلام میں جو بلندی اور علو ہے وہ کسی بھی اور سرائیکی شاعر کے کلام میں موجود نہیں ۔ اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ سرائیکی شعرا کی اکثریت انہیں اپنا روحانی استاذ تسلیم کرتی ہے ۔ آج کے دور کے معروف سرائیکی شاعر شاکر شجاع آباد ی نے بھی آپ کے کلام کی بلندی کے سامنے سر جھکا یا ہے ۔آپ کا نام دنیا بھر میں ہر جگہ مقبول ہے اس کلا م کی یہ خاصیت ہے کہ اس کو جہاں بھی پڑھا جاتا ہے لوگ اس کو نظر انداز نہیں کر سکتے ۔آپ کے کلام میں امیر خسروؔ جیسی موسیقیت، رومیؔ جیسی تڑپ اور سعدی جیسا مشاہدہ نظر آتا ہے ۔ حضرت خواجہ غلام فریدرحمۃ اللہ علیہ نے کافیوں کو گانے کے لئے مختلف راگ اور راگنیاں بھی دیوان فرید میں جمع کی ہیں ان کو دیکھ کر یہ معلوم ہوتا ہے کہ آپ علم موسیقی میں بھی یگانہ روزگار تھے ۔ آپ نے کلام تحریر فرماتے ہوئے سُر اور سنگیت کی تمام اصناف سے استفادہ کیا ہے ۔ آپ کی اکثر کافیوں میں لفظوں کے باہمی تکرار سے ایسی صوتی ہم آہنگی پیدا ہوتی ہے جو سننے والے کو ایک خاص لطف عطا کرتی ہے ۔شاعری کے ساتھ ساتھ آ پ نے راہ سلوک کو بھی مضبوطی سے تھامے رکھا۔ آپ نے ساری زندگی شریعت مطہرہ کی پابندی کی۔ اپنی درگاہ پر کوئی بھی خلاف شریعت حرکت کی اجازت کبھی نہ دی۔ آپ ہمیشہ اپنے مریدین کو اسوۂ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر عمل پیرا ہونے کی تلقین فرماتے ۔ آپ نے اپنے مریدین کو نماز پنجگانہ کی پابندی کا حکم دیتے ۔ آپ نے ذاتی طور پر انتہائی سادہ زندگی گزاری آپ نے اپنے کردار و اخلاق سے مخلوق خدا کو گرویدہ بنایا۔حضرت خواجہ غلام فرید نے بزرگوں کی روایات پر عمل کرتے ہوئے درگاہ پر ایک وسیع و عریض لنگر کا اہتمام فرمایاجہا ں پر ہر مہمان کی بھرپور خاطر مدارت کی جاتی۔ آپ کا لنگر ہر وقت مخلوق خدا کے لئے کھلا رہتا اور ہر امیر و غریب اس سے پیٹ بھر کر کھانا کھاتا۔آپ نے دینی تعلیم کے لئے چاچڑاں شریف میں ایک دینی مدرسہ بھی قائم کیا جس سے بے شمار طلبہ نے ظاہری اور روحانی علوم حاصل کئے ۔ آپ کی درگاہ پر کئی غیر مسلموں نے اسلام بھی قبول کیا۔آپ کے لنگر کا روزانہ خرچ 12من چاول اور 8من گندم تھا۔آپ طبعاً ایک سخی انسان تھے ۔ جوکچھ بھی خدمت میں پیش کیا جاتا لوگوں میں تقسیم فرما دیتے اور بہت کم ایسا ہو تا کہ آپ کے پاس کوئی رقم بچ جاتی۔ نواب بہاولپور جب بھی حاضر ہوتے تو 30ہزار یا چالیس ہزار سکہ رائج الوقت بطور نذرانہ پیش کرتے لیکن حضرت خواجہ غلام فرید شام ہونے سے قبل وہ ساری رقم غرباء میں تقسیم فرما دیتے ۔آپ اکثر امرا اور خاص طور پر نواب بہاولپور کو یہ نصیحت فرماتے ’’ زیر تھی، زبر نہ بن متاں پیش امدی ہوں‘‘ یعنی نرمی اختیار کرو ، سختی نہ کیا کرو ورنہ تم پر (اللہ کی طرف سے ) بھی سختی ہو سکتی ہے ۔24جولائی 1901ء کو آپ کا وصال ہوااور آپ کوٹ مٹھن میں آسودہ خاک ہوئے ۔ آپ کا ایک صاحبزادہ جن کا نام گرامی حضرت خواجہ محمد بخش عرف نازک کریم تھا۔آپ کا مزار مرجع خلائق ہے ۔5 تا7ربیع الثانی آپ کا عرس مبارک منعقد ہوتا ہے اور لاکھوں عقید ت مند شرکت کرتے ہیں۔