ملتان(نیوز رپورٹر)چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ قاسم خان نے ریمارکس دیئے ہیں مملکت پاکستان کے خلاف سازش کرنے والوں کے خلاف کارروائی ہوتی ہے توتوہین کرنے والوںکے خلاف بھی فوری کارروائی ہونی چاہئے ،حضرت محمدﷺ اور صحابہ کرامؓ کے احترام میں مجھے کوئی بھی قدم اٹھانا پڑے تو میں قانون میں رہتے ہوئے گریز نہیں کرونگا۔عدالت نے گوگل سے توہین آمیز مواد ہٹانے سے متعلق درخواست پر سماعت ڈپٹی اٹارنی جنرل کی استدعا پر20 جنوری تک ملتوی کردی۔دوران سماعت سرکاری وکلا نے بتایا مکمل میکنزم بنانے کے لئے گزشتہ روزاٹارنی جنرل کے دفتر میں میٹنگ ہوچکی ہے جس میں معاملے سے پورے طریقے سے نمٹنے کیلئے بریفنگ دی گئی،اٹارنی جنرل عدالت کی معاونت کرنا چاہتے ہیں، اس لئے مہلت کی استدعا ہے ۔چیف جسٹس نے کہا رول 154 کے تحت اطلاع پر مقدمہ درج کرنے میں کوئی رکاوٹ نہیں، ڈی جی ایف آئی اے کو باور کرایا جاتا ہے کہ وہ کسی بھی شکایت پر مقدمہ درج کرلے ،تفتیش اور شواہد بعد کی بات ہے ،چند ایک لوگوں کو اشتہاری قرار دینے سے کوئی فرق نہیں پڑتا تاہم ریاست مدینہ والوں سے پوچھ لیں کہ انہیں کوئی اعتراض تو نہیں کیونکہ ان کی سفارتی مجبوریاں بھی ہوتی ہیں، پی ٹی اے موثر کارروائی کرنے میں ناکام ہے جبکہ پرچے کے بعد ایف آئی اے بہتر نتائج دے سکتا ہے ۔ڈی جی ایف آئی اے واجد ضیا نے کہا یہ ایسا ایشو ہے کہ اس کے ایکشن کے لئے وقت درکار ہے ،گوگل ایک سرچ چینل ہے ،اس پر مٹیریل ڈالا جاتا ہے ، رولز میں 9 ماہ کا وقت دیا گیا ہے ، وہ اپنے آفس پاکستان میں کھول رہے ہیں تو ہم ان کو پکڑنے کے قابل ہوں گے ۔چیف جسٹس نے کہا اگر کسی ملک کے خلاف کوئی بات ہو تو اس پر مقدمہ درج ہونا چاہئے اور ملزم پکڑا جائے تو اس کے خلاف ایکشن ہونا چاہئے ، زیادہ سے زیادہ وہ لوگ ایک ملک کے لئے اشتہاری ہو جائیں گے تو پاکستان نہیں آئیں گے ، پہلے وہ کونسا پاکستان آتے ہیں،اینٹی کرپشن لاء کے تحت اور رولز کے مطابق ڈائریکٹ ایف آئی آر ہو سکتی ہے ، اگر نہیں ہو سکتی تو وہ مجھے بتا دیں، میں ملکی آئین اور قانون کے تحت پا بند ہوں ،شائع ہونے والے مواد کی ایک ویب سائٹ بند کر دیں تو دو گھنٹے بعد اس نے دوسری بنالینی ہے ، ایک بندہ دس دس ویب سائٹ بنا کر چلا دے گا تو ویب سائٹوں کو کتنا بند کریں گے لیکن اگر پرچہ ہوا اور بندہ اشتہاری بن جائے تو پھر یہ کام رک سکتا ہے ۔