یادش بخیر! یہ دسمبر 1986ء کا لاہور ہے۔ اورینٹل کالج کے شعبۂ اردو میں ڈاکٹر خواجہ محمد زکریا کی صدارت میں منعقد ہونے والے ادبی اجلاس جس میں ڈاکٹر سہیل احمد خاں، ڈاکٹر سجاد باقر رضوی، ڈاکٹر عبید اللہ خاں، ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی، ڈاکٹر تحسین فراقی ، جناب فخرالحق نوری اور ایم اے اردو سالِ اول و دوم کے طلبہ و طالبات کی موجودگی میں پڑھے جانیوالے اپنے پہلے مزاحیہ مضمون ’’آج جمعرات ہے‘‘ کی قرأت کے دوران چند مقامات پر بجنے والی تالیوں اور اساتذہ کرام کے چند تعریفی جملوں کا اتنا فائدہ تو ہوا کہ سٹیج پر آنے کا ’جھاکا‘ کھل گیا، طلبہ و طالبات نے در خورِ اعتنا سمجھا، اساتذہ کی نظروں میں آ گئے۔ ڈاکٹر سجاد باقر رضوی نے دفتر میں بلا کے چائے پلائی، دسمبر کی چھٹیوں میں ایسا ہی ایک اور مضمون لکھنے کا وعدہ لیا، میری ڈائری میں آٹو گراف کے طور پر دو شعر لکھے: عشق تو ساری عمر کا اِک پیشہ نکلا کیا سمجھے تھے اس کو یارو ، کیا نکلا پتھر کا دل پگھلے تو کیا نکلے گا دل کا پتھر پگھلا تو دریا نکلا ڈاکٹر تحسین فراقی نے شام کو چینیز لنچ ہوم میں منعقد ہونے ولے حلقۂ ادب کے اجلاس میں آنے کی دعوت دی، جس کے وہ جنرل سیکرٹری تھے۔ راقم کو بھی اصغر عابد، آفتاب حسین اور ڈاکٹر ضیا الحسن کے بعد ایک سال تک اس حلقے سے بطور جوائنٹ سیکرٹری منسلک رہنے کا موقع ملا، جہاں لاہور کے تقریباً تمام بڑے قلم کاروں سے ملاقاتوں کے مواقع میسر آئے۔ سفید شلوار کے اوپر جچتی ہوئی کالی شیروانی، سر پہ سجی ہوئی جناح کیپ، ہاتھ میں ضروری کواغذ اور مِسلوں سے لبا لب روایتی بیگ، خوب صورت انداز میں تراشی ہوئی نسبتاً تیکھی ڈاڑھی، کترواں لبیں، آنکھوں پہ سیاہ فریم میں جَڑے سفید شیشوں والا سادہ چشمہ، ہونٹوں پہ چمکیلے دانتوں کو نمایاں کرتی دل کش مسکراہٹ، بات کو باوقار بناتا پُر اعتماد لہجہ، چہرے پہ علمی اور کاروباری انداز کی ملی جلی تمکنت ، گفتگو میںعربی زبان اور اُردو ادب سے شناسائی کا بھروسا، بعد ازاں ان کے خلوص اور محبت کے تسلسل کی بنا پر یہ تعارف عقیدت اور نیاز مندی میں تبدیل ہوتا چلا گیا۔ مجھے یاد ہے کہ اس زمانے میں ، مَیں نے ان کے خاکے میں لکھا تھا کہ ان کاکردار ایسا ہے کہ سرکاری ٹی وی پہ نو بجے والا خبرنامہ بھی پڑھنے چلے جائیں تو لوگ سچ سمجھنے لگ جائیں۔ ہفتہ 22 فروری 2020ء کی صبح ڈاکٹر امجد طفیل کی طرف سے موصول ہونے والے موبائل میسج’’ جناب حفیظ الرحمن احسن قضائے الٰہی سے انتقال کر گئے ہیں، ان کا جنازہ ایک بجے 191 ستلج بلاک، علامہ اقبال ٹاؤن سے اٹھایا جائے گا۔‘‘ کے بعد ذہن کی سکرین پر ایک فلم سی چلنے لگی۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ مَیں نے 1988ء میں ایم اے اردو کرنے کے بعد ایم اے فارسی میں داخلہ لے لیا۔ اب کا تو علم نہیں لیکن اس زمانے میںہم جیسے طالب علموں کا پنجاب یونیورسٹی میں، دوسرے ایم اے میں داخلہ دو ہی مقاصد کی خاطر ہوتا تھا: ہاسٹل میں قیام اور نوکری کی تلاش۔ پکی نوکری کے لیے تو سروس کمیشن کے کسی امتحان کا انتظار کرنا تھا، چنانچہ وقتی مشکل کشائی کی خاطر اپنے ہاسٹل کے پچھواڑے واقع اردو بازار میں جناب حفیظ الرحمن احسن کی عملی ادارت میں نکلنے والے ماہنامہ سیارہ میں ان کی معاونت شروع کر دی۔ جناب نعیم صدیقی کی ادارت میں نکلنے والا یہ پرچہ برِ صغیر میں نظریاتی ادب کا بہت بڑا ترجمان تھا۔ حفیظ صاحب اس پرچے سے 1967ء سے منسلک چلے آ رہے تھے، جس کے انھوں نے پچاس سے زائد شمارے مرتب کیے۔ میری خوش قسمتی کہ ’البلاغ‘ کے اسی دفتر میں کچھ دن پروفیسر امان اللہ خاں آسی ضیائی علیگ، جو مرے کالج سیالکوٹ میں احسن صاحب کے استاد رہ چکے تھے، کی ہم نشینی کا بھی موقع ملا۔ حفیظ الرحمن احسن نو اکتوبر 1934ء کو پسرور ضلع سیالکوٹ میں پیدا ہوئے۔مرے کالج کے ہونہار طالب علم اور ذہین مقرر رہے۔ عربی اور اردو میں ایم کیا۔کچھ عرصہ تدریس سے منسلک رہنے کے بعد 1966ء میں ’’ایوانِ ادب‘‘ کے نام سے اپنے اشاعتی ادارے کا آغاز کیا۔ اپنے اساتذہ آسی ضیائی اور طاہر شادانی کی معاونت سے ’’تحسینِ اُردو‘‘ کا ڈول ڈالا۔ 1960ء میں اپنی چچا زاد محترمہ نسیم اختر کے ساتھ رشتۂ ازدواج میں منسلک ہوئے، تین بیٹوں اور چار بیٹیوں کے باپ بنے۔علامہ اقبال ٹاؤن میں ڈاکٹر سلیم اختر، ڈاکٹر انور سدید، عطاء الحق قاسمی اور اسلم کمال جیسے اہلِ قلم کے جلو میں رہائش پذیر رہے۔ 22 فروری 2020ء کو اسی گھر سے ان کا جنازہ اٹھا۔ نمازِ جنازہ میں ڈاکٹر تحسین فراقی، فرید پراچہ، ڈاکٹر غفور شاہ قاسم، ڈاکٹر زاہد منیر عامر، ڈاکٹر امجد طفیل، غازی علم الدین، سلیم منصور خالد ، افضل آرش اور عارف کلیم وغیرہ شریک ہوئے۔جناب حفیظ الرحمن احسن تمام عمر ایک مضبوط نظریاتی جماعت سے وابستہ رہے۔ان کی حمدوں، نعتوں، نظموں، غزلوں، تقاریر، مضامین ، اداریوں حتّٰی کہ بچوں کے لیے کی گئی شاعری میں بھی وہی اصلاحی، اخلاقی نظریہ جھلکتا ہے۔ انداز ملاحظہ ہو: تتلی کے پر کتنے ہیں؟/کان تمھارے جتنے ہیں/تیرے دوست بہت سے ہیں/ان میں اچھے کتنے ہیں؟ لیکن ان کی زندگی میں محض بچوں کی نظموں کا ایک مجموعہ ’’ننھی مُنی خوبصورت نظمیں‘‘ اور ’’فصلِ زیاں‘‘ ہی مرحلۂ اشاعت طے کر پائے۔اس کے علاوہ ان کے نو مجموعے ( سات شعری: غبارِ خزاں، نوائے راز، ستارہ شامِ ہجراں کا، موجِ سلسبیل، رشحاتِ تسنیم، نغماتِ طفلی اور کلامِ احسن، جب کہ دو نثری: صراطِ مستقیم[۸۶ ریڈیائی تقاریر] اور بو قلموں[متفرق علمی و ادبی مضامین] ) عرصۂ دراز سے اشاعت کے منتظر ہیں۔ پھر ان کی زندگی کی آخری ایک ڈیڑھ دہائی بھی نہایت کس مپرسی کے عالم میں گزری ہے۔ اس وقت سوچنے کی بات یہ ہے کہ درجِ ذیل شعر میں جناب حفیظ الرحمن احسن کا اشارہ کہیں محبوب کی بجائے اپنی محبوب جماعت کی طرف تو نہیں ہے؟ دولتِ حُسن سے غیروں کو نوازا اس نے رابطہ ہم سے فقط خیر خبر تک رکھا