’یوم استحصال کشمیر‘ پورے جوش وخروش سے منایا گیا۔ اگر ریلیوں، صدر، وزیراعظم اور دیگر عمائدین حکومت کی تقریروں سے کشمیر آزاد ہو سکتا تو 5 اگست کو کشمیریوں پر ظلم کی طویل سیاہ رات ختم ہو جاتی لیکن پُرجوش اور جذباتی تقریروں کے بعد ہمیں زمینی حقائق کا بھی غیرجذباتی انداز سے بنظر غائرجائزہ لینا چاہیے۔ حقائق کس انداز سے ہمارا منہ چڑا رہے ہیں، میڈیا رپورٹس کے مطابق اس کی عملی تصویر ہمارے برادر اسلامی ملک کے اس فیصلے سے آشکار ہو جاتی ہے کہ سعودی عرب نے یکدم پاکستان کو یہ الٹی میٹم دے دیا کہ 3 ا رب ڈالر کا قرضہ جو ڈیڑھ سال قبل مالی مشکلات سے نمٹنے کیلئے دیا گیا تھا اس میں سے ایک ارب ڈالر واپس کر دیا جائے۔ سٹیٹ بینک کے پاس رکھی یہ رقم ریاض کو واپس کر دی گئی ہے۔ شاید دنیا میں ہمارا واحد دوست چین پھر ہماری مدد کو آیا اور اس نے سعودیہ کی جانب سے مالی امداد محدود کئے جانے کے فیصلے کے منفی اثرات زائل کرنے کے لیے ایک ارب ڈالر قرضہ فراہم کردیا ہے۔ واضح رہے کہ اکتوبر 2018ء میں سعودی عرب نے پاکستان کو 3 سال کے لیے 6.2 ارب ڈالر کا مالیاتی پیکیج دینے کا اعلان کیا تھا۔ اس پیکیج میں 3 ارب ڈالر نقد اور 3.2 ارب ڈالر مالیت کی موخر ادائیگی پر تیل اور گیس کی سہولت شامل تھی۔ پاکستان تین ارب ڈالر کی امدا دپر 3.2 فیصد قسط بھی ادا کر رہا تھا۔ اس بات نے تمام مبصرین اور خود حکومت کو حیران و ششدر کر دیا ہے کہ سعودی عرب نے مقررہ وقت سے پہلے ہی ایک ارب ڈالر واپس مانگ لئے۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی شا ہراہ کشمیر کا نام سرینگر ہائی وے رکھنے کے موقع پر بہت زیادہ جذباتی ہو گئے تھے، انھوں نے کہا کہ ہم سرینگر پر فتح کا جھنڈا گاڑیں گے اور جامع مسجد سرینگر جسے تالے پڑے ہوئے ہیں وہاں نماز ادا کریں گے لیکن اب انھوں نے بڑے سخت لہجے میں سعودی عرب کو للکارا ہے اور کشمیر پر اسلامی کانفرنس تنظیم کے وزرائے خارجہ کا خصوصی اجلاس نہ بلانے پر خوب برسے اور دھمکی دی ہے کہ اگر وہ ا جلاس نہیں بلاتا تو پاکستان خود اسلامی ممالک کا اجلاس بلائے گا۔ بعض باخبر مبصرین کے مطابق سعودی عرب اور بعض خلیجی ممالک پاکستان پر شدید دباؤ ڈال رہے ہیں کہ ’را‘ کے رنگے ہاتھوں پکڑے جانے والے جاسوس کلبھوشن یادیو کو رہا کر کے بھارت کے حوالے کر دیا جا ئے، اسی دباؤ کی بنا پر کلبھوشن یادیو کو وکیل فراہم کرنے کے لیے آرڈیننس جاری کیا گیا جسے بعد میں قومی اسمبلی میں پیش کیا گیا۔ جی ہاں! یہ وہی کلبھوشن یادیو ہے جس کے حوالے سے میاں نوازشریف سے سوچا سمجھا سوال کیا گیا تھا کہ وہ بھارتی جاسوس کا نام کیوں نہیں لیتے اور نہ ہی اس کی مذمت کرتے ہیں اور ساتھ ہی نعرہ بلند کیا گیا تھا ’مودی کا جو یار ہے وہ غدار ہے‘۔ آج عمران خان پر بھی دوستوں کی طرف سے دباؤ ڈالا جا رہا ہے کہ وہ کلبھوشن یادیو کے بارے میں حکومت کی پالیسی پر نظرثانی کریں۔ اس قسم کی صورتحال میں جیسا کہ برادر مشاہد حسین سید نے 92 چینل پر میرے پروگرام ’ہو کیا رہا ہے‘ میں کہا تھا کہ ایک دوسرے کے جاسوسوں کا تبادلہ کر کے معاملہ ختم کردیا جاتا ہے جیسا کہ1960ء میں سوویت یونین نے امریکی جاسوس طیارے یو 2 کو مار گرایا اور اس کے پائلٹ فرانسس گیری کو زندہ گرفتار کر لیا تھا بعدازاں امریکی جیل میں قید ایک روسی جاسوس کی رہائی کے عوض تبادلہ ہو گیا تھا۔ خان صاحب کا اس معاملے میں اپنا روایتی یوٹرن لینا اتنا آسان نہیں ہو گا کیونکہ وہ یہ ثابت کرنے کیلئے کہ میاں نوازشریف بھارت نواز ہیں ان پر تسلسل سے کلبھوشن کی لاٹھی کا استعمال کرتے رہے ہیں۔ یہ تو اظہر من الشمس ہے کہ ہم بیانات اور سطحی اقدامات کر کے خود کو تو خوش کر سکتے ہیں کہ ہم نے کشمیر فتح کرنے کے لیے بہت ہمت ماری ہے۔ قوم کا لہو گرمانے کے لیے خان صاحب کا یہ بیان کہ مودی پھنس گیا ہے، اب کشمیر آزاد ہو گا، بڑا خوش آئند ہے لیکن کشمیر کاز پر چین کی وزارت خارجہ نے یہ بیان دیا ہے کہ کشمیر کے سٹیٹس کو یکطرفہ طور پر نہیں بدلا جاسکتا لیکن ہمارے باقی نام نہاد دوست اس ضمن میں منہ میں گھنگنیاں ڈالے بیٹھے ہیں۔ امریکہ ،یورپ،روس اور ہمارے اسلامی بھائی اس حوالے سے ٹس سے مس ہونے کو تیار نہیں۔ جیسا کہ میں نے اپنے ایک کالم میں لکھا تھا… قرض کی پیتے تھے مے لیکن سمجھتے تھے کہ ہاں رنگ لاوے گی ہماری فاقہ مستی ایک دن غالب کے اس شعر کی عملی تعبیر سعودی عرب کے رویئے سے مل جاتی ہے۔ نہ جانے ہماری حکومت کی خارجہ پالیسی سطحی اور علامتی اقدامات پر کیوں مبنی ہے۔ خان صاحب کی یہ خام خیالی تھی کہ وہ سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلطان کو ایئرپورٹ سے خود گاڑی چلا کر وزیراعظم ہاؤس لائیں گے تو ان کا دل پسیج جائے گا اور وہ پاکستان کے حامی اور مدد گار بن جائیں گے۔ یقینا سعودی عرب پاکستان کا دوست اسلامی بھائی ہے اور پاکستان سکیورٹی کے معاملات میں تاریخی طورپر اپنی برادر اسلامی ریاست کا مددگار رہا ہے۔ اب بھی اسلامی فوجی اتحاد کے سربراہ پاکستان کے سابق آرمی چیف جنرل راحیل شریف ہیں لیکن پاکستان کی طرح ہر ملک کی خارجہ پالیسی اپنے قومی اور اقتصادی مفادات کی روشنی میں بنائی جاتی ہے۔ بھارت کے سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے ساتھ قریبی سیاسی اور اقتصادی تعلقات ہیں۔ ان ممالک میں لاکھوں بھارتی کام کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ سعودی کمپنیوں بالخصوص سب سے بڑی تیل کمپنی آرامکو نے بھارت میں100 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کر رکھی ہے۔ بھارت کے برعکس پاکستان کشکول لے کر پھرنے پر مجبور ہے۔ یہ ایسی تلخ حقیقتیں ہیں جنہیں ہمارے حکمران طبقوں کوخواہ وہ حکومت میں ہوں یا اپوزیشن میںہرگز نظراندا ز نہیں کرنی چاہئیں۔ وزیراعظم نے حال ہی میں کہا ہے کہ وہ امریکی صدر ٹرمپ کی فرمائش پر سعودی عرب اور ایران کے درمیان ثالثی کروا رہے ہیں جو ان کے مطابق انتہائی سلو پراسس ہے لیکن کیا ہم عرب وعجم کی اس لڑائی میں صلح کرانے کی پوزیشن میں بھی ہیں؟۔ میری رائے میںیہ ایں خیال است و محال است و جنوں کے مترادف ہے۔ وزیر اعظم آزاد کشمیر راجہ فاروق حیدر نے اسمبلی سے اپنے خطاب میں درست کہا ہے کہ کشمیری اب پاکستان سے عملی اقدامات چاہتے ہیں۔ یہ عملی اقدامات جارحانہ سفارتکاری کے سوا اور کچھ نہیں ہو سکتے کیونکہ دونوں ایٹمی طاقتوں کو اچھی طرح علم ہے کہ جنگ تباہ کن ہو گی لیکن سفارتکاری اسلام آباد میں بیٹھ کرنہیں ہو پائے گی ۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی دنیا کے اہم دارالحکومتوں، اقوام متحدہ اور اسلامی کا نفرنس تنظیم کا بنفس نفیس دروازہ کیوں نہیں کٹھکٹاتے؟ کیا انھیں اس حوالے سے خان صاحب کی باقاعدہ اجازت کی ضرورت ہے؟ بلکہ مشاہد حسین سید جیسی شخصیات جو سیاسی طور پر اپوزیشن میں ہونے کے باوجود سینٹ میں خارجہ امور کمیٹی کے سربراہ بھی ہیں اور ان معاملات کو اچھی طرح سمجھتے ہیں انھیں اور ان جیسی خارجہ امور کا ادراک رکھنے والی شخصیات کو بھی اس اہم مشن پر باہر بھیجنا چاہیے۔ قریشی صاحب عملی طور پر پارٹ ٹائم وزیر خارجہ ہیں کیونکہ ان کی پاکستان کی سیاست میں گہری دلچسپی ہے اور نہ جانے کیوں وہ اپنا خاصا وقت اندرونی سیاست گری پر صرف کرتے ہیں، انھیں بھی اپنی اس حکمت عملی پر نظرثانی کرنی چاہیے۔ خان صاحب کو اس زعم میں مبتلا نہیںرہنا چاہیے کہ ہم نے کشمیر پر بہت بڑا تیر مار لیا ہے حالانکہ ان کی پیشرو حکومتیں بھی اپنے اپنے انداز سے اس مسئلے کواجاگر کرتی رہی ہیں اور ہم مسئلہ کشمیر پر بھارت کے ساتھ چار جنگیں لڑ چکے ہیں۔