قبل از اسلام عرب معاشرہ جو کہ کئی خرابیوں کا شکار تھا اس کا سب سے بڑا عیب بچیوں کو زندہ درگور کر دینا تھا۔حضرت صعصہ بن ناحیہ رضی اللہ عنہ کا تذکرہ اس لحاظ سے بھی اہمیت کا حامل ہے کہ آج کل ہر طرف سے اسلام کے تشخص پر ایک خاص طرز کے حملے کئے جارہے ہیں۔ اسلام کا امن پسند چہرہ مسخ کرنے کی بات ہورہی ہے ۔اسلامی تعلیمات کا تمسخر اڑانے کا سلسلہ جاری ہے بعض نام نہا د لبرلز اس بات پر زور دیتے ہیں کہ اسلام نے عورتوں کے حقوق پر پابندی اور قدغن لگائی ہے اسلام نے عورتوں کی آزادانہ حیثیت کو ختم کیا ہے ۔ سب سوالوں کا جواب اور ان الزامات کا رد حضرت صعصہ بن ناجیہ رضی اللہ عنہ کے تذکرہ جمیل میں موجود ہے ۔ اس سے قبل اس کاجائزہ ضروری ہے کہ اسلام پر خواتین دشمنی کا الزام لگانے والے خود دنیا کی نصف سے زائد آبادی کے ساتھ کس طرح کے سلوک کے مرتکب ہو رہے ہیں۔ اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے کی ایک رپورٹ کے مطابق گزشتہ سال (2018-19)میں 87000خواتین کو قتل کیا گیا ان میں سے 137عورتیں اپنے گھر والوں کے ہاتھوں قتل ہوئیں۔ 3000 سے زائد عورتیں مختلف صنفی وجوہات کی بابت قتل کی گئیں اسلامی تعلیمات سے دور معاشرہ کی ایک اور تصویر کے مطابق دنیا کی مجموعی خواتین میں سے 40فیصدخواتین کی زندگی خطرے میں ڈالی گئی۔ جرمنی سے جاری شدہ ایک رپورٹ کے مطابق 2018میں ایک لاکھ چودہ ہزار خواتین کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا جس میں سے 14ہلاک بھی ہوئیں۔اگر پاکستان کے اعداد و شمار کا جائزہ لیا جائے تو 2018میں4506عورتوں کو قتل کیا گیا ۔ پاکستان کے سرکاری اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ دس سالوں میں 198خواتین کو جلا کر قتل کیا گیا ان میں سے 163عورتوں کو تیزاب کے ذریعہ جلایا گیا۔جبکہ وزارت انسانی حقوق کی ایک رپورٹ کے مطابق2011سے 2017تک 51ہزار 324خواتین کو تشد کر کے جان سے مارنے کے واقعات رجسٹر ہوئے ۔ یہ اس معاشرے کی تصویر کی ایک معمولی سی جھلک ہے جو اسلام کے چاند سے زیادہ روشن چہرے پر تھوکنے کی کوشش کرتے ہیں۔اس پس منظر میں حضرت صعصہ بن ناجیہ کے 1500سال قبل کے کردار کا جائزہ لیتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ عورتوں کے حقوق کے حوالہ سے اسلام کی سمت کس قدر واضح اور غیر مبہم ہے ۔حضرت صعصہ کے والدکا نام ناجیہ تھا۔ آپ قبیلہ بنو تمیم سے تعلق رکھتے تھے ۔آپ کا حسب و نسب کچھ اس طرح سے ہے صعصہ بن ناجیہ بن عقال ابن محمد بن سفیان بن مجاشع بن دارم بن مالک بن زید بن مناۃ بن تمیم ۔ آپ اسلام سے قبل سلیم الفطرت شخصیت کے طور پر معروف تھے ۔ آپ اپنے قبیلہ میں ایک موثر شخصیت کے طورپر جانے جاتے تھے اور با اثر سرداروں میں شمار کئے جاتے ۔حضرت صعصہ بن ناجیہ قبل از اسلام بھی ایک سخی، بہادر ، مہمان نواز اور دلنواز شخصیت تھے ۔ جو بھی آپ کے دروزے پر آتا آپ اس کو خالی ہاتھ نہ لوٹاتے ۔ آپ بتوں کی پوجا سے سخت نفرت کرتے اور دین ابراہیمی کے مطابق ایک خدا کی عبادت کرتے ۔ اگرچہ اس وقت دین ابراہیمی اپنی اصل شکل میں موجود نہ تھا تاہم ایک خدا پر یقین رکھنے کی حد تک ان کی طبیعت میں دین صالح موجود تھا۔ 8 ہجری میں بنو تمیم کے وفد کے ساتھ مدینہ منورہ حاضر ہوئے ۔ بنو تمیم کے اس وفد کی قیادت قیس بن عاصم نے کی۔ اس وفد میں70 یا 80 افراد شامل تھے بعض کتب تاریخ میں یہ بھی درج ہے کہ بنو تمیم کا وفد دوپہر کے وقت مسجد نبویﷺ پہنچا اس وقت حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے آرام کا وقت تھا۔ وفد میں معززین کے علاوہ کچھ دیہاتی لوگ بھی شامل تھے جو اس وقت بارگاہ رسالت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ادب سے بے خبر تھے ان لوگوں نے وفد کے اہل علم کی ہدایات کو نظر انداز کرتے ہوئے بلند آواز میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو آوازیں دینا شروع کر دیں جس پر سورۃ حجرات کی آیت نمبر 4 نازل ہوئی کہ جو لوگ آپ کو حجروں کے باہر سے پکارتے ہیں ان میں سے اکثر آپ کے دربار عالی کی تعظیم کی سمجھ نہیں رکھتے ۔ پھر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم باہر تشریف لائے حضرت صعصہ بن ناجیہ ان خوش نصیب لوگوں میں سے ایک تھے جنہوں نے حضور ﷺکی زیارت کرتے ہی اسلام قبول کر لیا۔حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کو آیات قرآنی ارشاد فرمائیں جس پر حضرت صعصہ رضی اللہ عنہ نے پوچھا یار سول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جو نیکیاں میں نے قبل از اسلام کی ہیں کیا مجھے ان کا بھی اجر ملے گا؟ اس سوال کے جواب کی تفصیل علامہ آلوسی رحمۃ اللہ علیہ نے طبرانی کے حوالہ سے نقل کی ہے ۔ آقائے دوعالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پوچھا کہ تم نے کون سی نیکیاں کی ہیں تو آپ نے حضوراکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی باگاہ میں ایک واقعہ عرض کیا کہ ایک دفعہ میری10، دس ماہ کی حاملہ دو اونٹنیاں گم ہو گئیں۔ میں اپنی تیسری اونٹنی پر بیٹھ کران کی تلاش میں نکل کھڑاہوا۔دور صحرا کے اندر ایک مکان نظر آیا میں وہاں پہنچا تو دیکھا میری گم شدہ اونٹنیاں ادھر کھڑی ہیں ۔گھر کے مالک نے مجھے کہا کہ آپ اپنی اونٹنیاں لے جا سکتے ہیں اسی اثناء میں اس کے گھر کے اندر سے عورت کی آوازآئی کہ بچے کی ولادت کا مرحلہ آن پہنچا ہے ۔ گھر کے مالک کے چہرے پر پریشانی کے آثار ظاہر ہوئے میرے پوچھنے پر اس نے کہا میں پریشان ہوں کہ اگر میری بیٹی پیدا ہوئی توکیا ہو گا۔ میں نے پوچھاکہ تم کیا کرو گے اگر ایسا ہو اتو اس نے برملا کہاکہ وہ اس کو ماردے گا یہ جواب سن کر میرا دل دہل گیا اور میں وہیں بیٹھ کر خبر کا انتظار کرنے لگا کچھ دیر کے بعد اطلاع آئی کہ بیٹی پیدا ہوئی ہے وہ اس نومولود بچی کو قتل کرنے کے درپے ہوا میں نے کہا کہ تم یہ بچی مجھے دے دو میری اس سے تکرار بڑھ گئی جس پر میں نے کہا کہ تم یہ دونوں اونٹنیاں رکھ لو اور بچی مجھے دے دو۔ اس نے کہا کہ تینوں اونٹنیاں دو گے تو بچی دوں گا میں نے تیسری اونٹنی بھی دے دی اور بچی کو بچا لیا۔ اس کو اپنے ساتھ گھر لایا اس کی خوب پرورش کی اورمزید عرض کیا کہ یار سول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس نیکی سے مجھے اتنا لطف و سرور آیا کہ میں ان قبائل کی طرف نکل جاتا جو بچیوں کو زندہ درگور کرنے میں مشہور ہوتے میں قبل از وقت لوگوں کو آگاہ کرتا کہ اگر بچی پید اہوئی تو مجھے اطلاع کرنی ہے میں زر کثیر خرچ کر کے ان سے بچیاں لے آتا۔ میں نے ان بچیوں کے لئے الگ کنیزیں رکھیں جو انکا خیال رکھتیں ان کی پرورش کرتیں۔ پھر عرض کی یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بعض اوقات بچی میرے سینے پر چڑھ جاتی میری پگڑی سے کھیلتی میری داڑھی کے بالوں سے کھیلتی، اس اندازمیں میں نے 360بچیوں کو زندہ درگور ہونے سے بچایاہے ۔یہ واقعہ سننے کے بعد سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آنکھوں سے خوشی کے آنسو رواں ہو گئے آپ ﷺنے حضرت صعصہ رضی اللہ عنہ کو سینے سے لگایا اور ان کے ماتھے پر بوسہ دیا ارشاد فرمایا کہ آپ نے جو بلا تامل اسلام قبول کیا ہے یہ قبل از اسلام اس نیکی کا اجر ہے تمہارے لئے آخرت میں بھی اجر ہی اجر ہے ۔ حضرت صعصہ جنگجوطبیعت کے مالک نہ تھے بلکہ تعلیم و تعلم کا شوق رکھتے تھے ۔ اس لئے اسلام قبول کرنے کے بعد باقی ساری زندگی تبلیغ اسلام میں صرف کی اور پاک نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دین کا پرچم بلند کرنے میں مصروف عمل رہے اور سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بتائے ہوئے رستہ پر چلتے ہوئے اپنی زندگی گزاری۔ لوٹ جا عہد نبی کی سمت رفتار جہاں پھر مری پسماندگی کو ارتقا ء درکار ہے