’’ہمارا بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ہم بڑے فیصلوں کے لئے بڑا وقت لیتے ہیں ۔۔۔اس وقت بھی بہت دیر کر رہے ہیں ‘‘ شیخ صاحب نے تشویش زدہ لہجے میں خدشات کا اظہار کئے بنا سارے خدشات ظاہر کئے اورلائن کاٹ دی ،شیخ صاحب کی ساری حیاتی وزارت خارجہ میں تھری پیس سوٹ پرٹائی نکٹائی لگا کر مہنگے سگریٹ پیتے ، الفاظ کا محتاط استعمال کرتے اپنا نکتہ نظر سمجھانے کے لئے دوسروں کا نکتہ نظر سمجھتے گزری ہے وہ شدت پسندی کی شدت سے مخالفت کرنے والے سخت گیر افسر کے طور پر جانے جاتے تھے ،انکی کال آئی میرا حال احوال پوچھا بچوں کی خیریت دریافت کی اور کہنے لگے اس ایک وائرس نے پوری دنیا کو اتھل پتھل کر دیا ہے کسی ملک کی کہیں کوئی فارن پالیسی رہی ہے نہ اکنامک پالیسی ،اس وقت تو بس کرونا پالیسی چل رہی ہے ،پھر جاتے جاتے کہنے لگے کہ کرونا نے ہماری فارن پالیسی کو بھی داخل دفتر کر دیا ہے ہماری دہشت گردی کے خلا ف جنگ اور شدت پسندی کے خلا ف بیانئے کو دنیا سراہ رہی تھی ہم نے جو پرائے پھڈوں میں ٹانگ نہ اڑانے اوراپنی زمین کا بیرونی استعمال روکنے کا بیانیہ دیا ہے،اسے خاصا مانا جارہا تھادیکھو ناں ! برطانوی شاہی جوڑا او ر بڑی بڑی شخصیات پاکستان آئیں اس سے ہمیں خاصا فائدہ پہنچ رہا تھا کہ کم بخت کوروناآگیا۔ شیخ صاحب کی فارن پالیسی پر تبصرے پر میں خاموش ہی رہا لیکن ان کی آخری بات دل پر لگی واقعتًا ایسا ہی ہے ہم بڑے فیصلے کرنے میں بڑی تاخیرکر دیتے ہیں ،میری جنم پل کراچی کی ہے جس کی آبادی ڈھائی کروڑ کا ہندسہ چھونے کو ہے میں جانتا ہوں کہ اس وقت بولٹن مارکیٹ،لی مارکیٹ، جوڑیا بازار، حیدری، بابر مارکیٹ لانڈھی اور طارق روڈ کے شاپنگ مالز بند ہیں پوش علاقوں کی سڑکیں سنسان ہیں ، متوسط طبقے کے علاقو ں میں بھی احتیاط ہو رہی ہوگی لیکن اورنگی ٹاؤن ،لیاری،کورنگی،رنچھوڑلین میں ’’چھٹیاں‘‘ منائی جارہی ہیں ،کراچی کے میرے گھر میرے محلے ماری پور گریکس میںنماز جمعہ ادا کی گئی ،گریکس کے فٹبال گراؤنڈ میں محلے کے بچے لڑکے اسی طرح شور غل مچا رہے ہیں پکڑم پکڑائی ہو رہی ہے کھیلنا کود نا لگا ہواہے۔ میرے دوست مدثر یاسین جھجھ نے مجھے حجرہ شاہ مقیم سے کسی کا بھیجا ہوا وڈیو کلپ دکھایا جس میں بے غم بے فکر ے لوگ زندگی کے معمولات جاری رکھے ہوئے ہیں۔ یہا ں اسلام آباد میں خاصی احتیاط برتی جا رہی ہے لیکن وطن عزیز میں ’’اسلام آباد ‘‘ ہیں ہی کتنے، پاکستان کی غالب آبادی دیہات میں رہتی ہے ۔ 2017ء کی مردم شماری کے نتائج کو درست مان لیا جائے تو پنجاب کی گیارہ کروڑ کی آبادی میں سے سات کروڑاور سندھ کے پونے پانچ کروڑ میں سے 48فیصد یعنی تقریبا دو کروڑ اسی لاکھ دیہات میں رہتی ہے ،خیبر پختونخواہ کی پونے چار کروڑ کی آبادی میں سے 81فیصد یعنی تین کروڑ تین لاکھ سے زائد کا تعلق دیہات سے ہے اور کوئٹہ کو چھوڑ کر بلوچستان تو سارے کا سارا ہی دیہات سمجھیں جسکی آبادی ایک کروڑ تیئس لاکھ ہے ہم جانتے ہیںکہ ہماری شرح خواندگی کیا ہے اور ہم کتنے باشعور سمجھدار ہیں اس حوالے سے ہمارے ماضی کا ریکارڈ شاید ہی کبھی اچھا رہا ہو،پھر سمجھ بوجھ کے اس گراف کے سامنے ہمیں جو طبی سہولیات حاصل ہیں اسے سامنے رکھ کر سامنے کورونا کو رکھیں تو انجانے خوف سے دل بے طرح دھڑک اٹھتا ہے۔ 26مارچ کو نیویارک کے گورنر اینڈریو کومو نے پریشان کن لہجے میں طبی سامان کی فراہمی کی اپیل کرتے ہوئے کہاکہ یہ وائرس بلٹ ٹرین کی رفتار سے پھیل رہا ہے،وائس آف امریکہ نے رپورٹ کیا کہ نیویارک اور نیواورلینز میں مریضوں کو بستروں کی کمی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے ،امریکہ چین کے بعد کرونا وائرس کا سب سے بڑا مرکزبن چکا ہے دنیا بھر میں متاثرین کی تعداد پانچ لاکھ ستانوے ہزار ہے جس میں ایک لاکھ سے زیادہ امریکی ہیں یہ موذی مرض پندرہ سو امریکیوںکی جان لے چکا ہے اٹلی کو کورونانے ویرا ن کردیا ،اس خوبصورت ملک میں اب تک 9134افراد ہلاک ہوچکے ہیں،برطانیہ میں بیس مارچ تک اس وائرس کی بھینٹ چڑھنے والے افراد کی تعداد200تک تھی جو چوبیس مارچ تک400اور ستائیس مارچ تک759تک پہنچ چکی تھی،یعنی سات دنوں میں 759لوگ اپنی جانوں سے گئے اوسطا یومیہ سو برطانوی شہری مرتے رہے ہر تین دن بعد مرنے والوں کی تعداددگنی ہوتی رہی،برطانوی نشریاتی ادارے نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ اس وائرس سے برطانیہ کا جانی نقصان 7000تک ہو سکتا ہے۔ یہ سب وہ ملک ہیں جہاں دنیاکی بہترین طبی سہولیات موجود ہیں نہ ہوتیں تو ہمارے حکمران وہاں کیوں دوڑے دوڑے جاتے ،ان ممالک میں شرح خواندگی مثالی اوران کا نظم و ضبط شاندار ہے ،یہ لوگ مشکل وقت میںکسی قوم کی طرح برتاؤ کرتے ہیں ہمارا ان سے کوئی موازنہ ہی نہیں ہماری سماجی ذمہ داریوںکا حال یہ ہے کہ لاہور کی فیشن ڈایزانئر کے باورچی میں کرونا کی تشخیص ہوتی ہے اور اس بیچارے کا علاج کرانے کے بجائے وہاڑی روانہ کردیا جاتا ہے ،ذرا اس سفاکانہ خودغرضانہ رویئے کو دیکھیں اور سوچیں کہ اس باورچی نے بس اڈے سے لے کر گھر تک کہاں کہاں کرونا کو پھیلایا ہوگا؟ ہم اس اجتماعی شعور کے ساتھ نام نہاد لاک ڈاؤن سے کس کو دھوکا دے رہے ہیں ؟ کیا ہم خدا نخواستہ پاکستان کے ’’کورونستان‘‘ بننے کا انتظار کر رہے ہیں؟ وزیر اعظم صاحب کی یہ تشویش بجا کہ بیچارے دیہاڑی دار کیا کریں گے کیسے کمائیں گے کیسے کھائیں گے ؟ لیکن وہ یہ بھی تو فرمائیں کہ جب پورے ملک میں بڑے بازار ،مارکیٹیں ،شاپنگ سینٹر بند ہوں تو دیہاڑی دار ،چھابڑی فروش کن جن بھوتوں کو چنا چاٹ ،چوڑیاں،پکوڑے اور موزے بیچ رہے ہیں؟ جب سارے تجارتی مراکز ہی بند کر دیئے تو رکشہ والا کس واسطے پانچ سو روپے کاپٹرول ڈلوا کر دھندے پر نکلاہے؟ انڈس اسپتال کے سینئر ڈاکٹر عبدالباری خان کا خدشہ ہے کہ ہماری ستر فیصد آبادی کرونا سے متاثر ہوسکتی ہے،ستر فیصد کا مطلب ہے پندرہ کروڑ ،ایسا نہ بھی ہو خدا کرے کہ یہ غلط ہو، چلیں ہم کہہ لیتے ہیں کہ پانچ فیصد کرونا سے متاثر ہوسکتے ہیں تو بھی یہ تعدادایک کروڑ پچاس لاکھ بنتی ہے ،اب بتائیں کہ ان ڈیڑھ کروڑ متاثرین کو ہم کہاں سے طبی امداد دیں گے ؟ کہاں قرنطینہ میں رکھیں گے ؟