عالمی رہنمائوں کی طرف سے چیئرمین تحریک انصاف عمران خان کو الیکشن میں کامیابی پر مبارکبادوں کا سلسلہ جاری ہے۔ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے نئے دور کا آغاز کرنے کی خواہش کا اظہار کیا ہے جبکہ عمران خان نے تمام مسائل جنگوں کی بجائے مذاکرات سے حل کرنے کی تجویز دی ہے۔ شہد سے میٹھی اور سمندر سے گہری دوستی رکھنے والے چین نے بھی اصلاحات اور قانون کی بالادستی کے حوالے سے پی ٹی آئی کے وژن کی حمایت کا اعلان کیا ہے۔ پاکستان میں ایک لمبے عرصے کے بعد ایسی حکومت آئی ہے جس کے وژن کی ساری دنیا حمایت کرتی ہے۔ 90ء کی دہائی سے لے کر اب تک جتنی بھی حکومتیں آئی ہیں ان میں قومی وژن منقسم رہا۔ اہل سیاست بھی بٹے رہے اور دانشوروں میں بھی اختلاف پایا جاتا رہا۔لیکن الیکشن کے بعد عمران خان نے جو پہلی تقریر کی اس میں نہ صرف ملکی خوشحالی، روشن مستقبل اور مسائل کا حل موجود تھا بلکہ عالمی سطح پر ہمسایہ اور دیگر ممالک کے ساتھ تعلقات کو فروغ دینے کا بھی منصوبہ موجود تھا۔ عمران خان کی شخصیت عالمی سطح پر پہلے ہی جانی پہچانی ہے، ایک دنیا ان کے حوصلے‘ جدوجہد،بہادری اور محنت کی معترف ہے۔22سال کی جہد مسلسل کے بعد جب عمران خان کی جماعت کو کامیابی ملی ہے تو عالمی شخصیات بھی اس کے سحر میں گرفتار ہو گئی ہیں۔ اس کی وجہ عمران خان کے موقف کی صداقت اور صحت پر اعتماد کامل ہے‘ پاک سعودی تعلقات ہمیشہ مضبوط رہے ۔ سعودی عرب نے ہر مشکل وقت میں پاکستان کی مدد کی، ماضی میں حکمران طبقے نے صرف ذاتی دوستیاں مضبوط کیں ،گھریلو تعلقات کو وسعت دی، بیرون ممالک ذاتی فیکٹریاں لگائیں اور ملک سے پیسہ لوٹ کر شہزادوں کے ساتھ کاروباری شراکت داری شروع کی۔اپنے اس حریصانہ طرز عمل کی وجہ سے وہ نہ صرف پاکستانی عوام بلکہ غیر ملکی اقوام کی نفرت کا شکار ہوئے‘ جبکہ عمران خان نے آج تک ایسی کسی خواہش کا اظہار کیا نہ ہی بیرون ملک ان کی کوئی جائیداد ہے۔ چین کے ساتھ تعلقات کو ہمالیہ کی بلندیوں سے اونچا لے جانا دونوں ممالک کی مجبوری ہے۔ کیونکہ سی پیک منصوبے پر چائنہ نے 46بلین ڈالر کی رقم مختص کر رکھی ہے اسی لیے چین نے پاکستان کے زرمبادلہ کے زوال پذیر ذخائر کو سہارا دینے کے لیے 2ارب ڈالر دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ معاشی طور پر پی ٹی آئی کی حکومت نے نئے چیلنجز کا سامنا کرنا پڑے گا کیونکہ ماضی کی حکومتی پالیسیوں کی وجہ سے اس وقت ہر شعبے کی حالت دن بدن تنزلی کا شکار ہے۔ تحریک انصاف نے اپنے منشور میں قوم سے جو وعدے کیے ہیںان کے پورا کرنے کے لیے معاشی استحکام پہلی سیڑھی ہے۔ تعلیم، صحت ‘ اور سیاحت کو فروغ دینے کے لیے معیشت کا مضبوط ہونا بہت ضروری ہے۔ چین نے اقتصادی راہداری منصوبہ شروع کیا تو پیپلز پارٹی اس کا کریڈٹ لینے کے لیے بیتاب نظر آئی جبکہ مسلم لیگ ن ابھی تک اس منصوبے کو اپنی کاوش قرار دے رہی ہے ان دونوں پارٹیوں نے حالیہ انتخابات میں اس عظیم منصوبے کو اپنے کھاتے میں ڈال کر الیکشن مہم چلائی اور انہوں نے چینی صدر کے ساتھ بھی ذاتی تعلقات کو مضبوط بنانے کی کوشش کی لیکن چین کا ایسا مزاج ہی نہیں جس بنا پر انہیں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔ میاں نواز شریف نے ترک صدر کے ساتھ بھی ملکی سطح پر تعلقات مضبوط کرنے کی بجائے ذاتی راہ و رسم کو ترجیح دی۔ طیب اردوان کی بیٹی کے نکاح میں بطور گواہ دستخط کیے اور اپنی نواسی کی شادی میں بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کو شرکت کی دعوت دی۔ مودی کے ساتھ میاں نواز شریف نے دوستی کے خبط میں ممبئی حملوں کی ذمہ داری بھی اپنے دفاعی اداروں پر ڈالنے کی بھونڈی کوشش کی۔ افغان صدر اشرف غنی اور مالدیپ کے صدر نے بھی عمران خان کو فون پر مبارکبادیں دی ہیں، ایرانی سفیر نے خط کے ذریعے نیک خواہشات کا اظہار کیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ عالمی برادری کو اس بات کا علم ہے کہ آنے والی حکومت کے ساتھ تعلقات کو مضبوط کر کے ہم بھی اس خطے میں اپنے دوستوں کی تعداد میں اضافہ کر سکتے ہیں حالیہ صورت حال سے یہ محسوس ہو رہا ہے کہ اگر ماضی میں بھی ہمارے حکمران اپنے ذاتی مفاد کی بجائے ملکی مفاد کو ترجیح دیتے تو تعلقات بڑھانے کے وسیع مواقع موجود تھے۔ گو ماضی میں غفلت بھی ہوئی اور سیاسی جماعتوں نے ڈنڈی بھی ماری لیکن اب تحریک انصاف کی حکومت کو خارجہ پالیسی کو ازسر نو تشکیل دے کر دوست ممالک کی تعداد میں اضافہ کرنا ہو گا۔ عالمی سطح پر عمران خان کی جو پزیرائی ہو رہی ہے وہ قابل رشک بھی ہے اور سیاستدانوں کے لیے اس میںایک سبق بھی ہے کہ اگر کوئی ملک کے ساتھ مخلص ہو تو عالمی سطح پر اس کو ایسی ہی عزت ملے گی لیکن جب آپ کے اپنے عوام آپ کے خلاف جلوس نکالیں ،چوکوں اور چوراہوں میں چور چور کے نعرے لگائیں‘ عدالتوں میں کرپشن پر پیشیاں بھگتی جائیں‘بیرون ممالک میں آپ کے محلات کی کہانیاں عالمی اخبارات کی زینت بن رہی ہوں‘اوورسیز پاکستانی لندن میں آپ کے خلاف سراپا احتجاج ہوں تو پھر آپ کی عزت کون کرے گا؟تب ہر ذی فکر آپ کے ساتھ معاہدے کرنے سے گریز کرے گا۔ عالمی سطح پرعمران خان کی پزیرائی کا سلسلہ جاری ہے۔ دیگر سربراہان ممالک کو دیکھتے ہوئے نریندر مودی بھی عالمی سطح پر یہ تاثر دینے کی کوشش میں ہے کہ وہ پا کستان کے ساتھ دو طرفہ تعلقات کو توسیع دینے اور تمام مسائل بات چیت کے ذریعے حل کرنے پر تیار ہے۔ مودی ہمیشہ ایسے موقع کی تلاش میں ہوتا ہے۔ اب بھی کچھ لوگ عمران خان کو یہ مشورہ دیتے نظر آ رہے ہیں کہ نریندر مودی کو حلف برداری تقریب میں مدعو کیا جائے ایسے دانشور یا مشیر عمران خان کو قبل از وقت عوام کی نظروں میں گرانا چاہتے ہیں۔ اس سے عوام میں ناپسندیدگی پیدا ہو گی۔ پاک بھارت تعلقات بہتر ضرور ہونے چاہئیں لیکن برابری کی سطح پر۔ میاں نواز شریف نے ایسی ہی جلد بازی کا مظاہرہ کیا تھا جس کے باعث وہ عوام کی نظروں سے گر گئے۔ ایسے مشیر عمران خان کے کبھی بھی خیر خواہ نہیں ہو سکتے۔ عمران خان کو ان سے بچنا چاہیے۔ پانچ سال یہ عمران کی پالیسیوں پر تنقید کرتے رہے۔ آج انھیں مودی کے ساتھ گلے لگانے پر تلے ہوئے ہیں۔ بھارت جب تک کشمیر میں ظلم و ستم ختم نہیں کرتا، حریت رہنمائوں کی نظر بندیاں ختم نہیں کرتا اور کشمیری عوام کو جینے کا حق نہیں دیتا تب تک مودی کے ساتھ بات چیت سے گریز کیا جائے۔بھارت کے علاوہ سارک ممالک ،چین‘ متحدہ عرب امارات‘ سعودی عرب ‘ یورپی یونین ممالک سمیت دیگر سربراہان مملکت کو لازمی دعوت دیں کیونکہ اب ملک کو تنہائی سے نکال کر دیگر ممالک کے ساتھ کھڑاکرنا ہے اس لیے ہمیں زیادہ سے زیادہ دوستوں کی ضرورت ہے۔ غربت کے خاتمے، تنازعات کے حل اور معاشی استحکام کے نئے دور کا آغاز مل کر کرنا چاہیے۔