اردو زبان کا محاورہ ہے ’’جوتیوں میں دال بٹنا‘‘ تحریک انصاف کو اقتدار میں آئے جمعہ جمعہ آٹھ دن ہوئے ہیں‘ سات ساڑھے سات ماہ میں اُجڑی معیشت اور بگڑے سماج کو سدھارنا ‘ سنوارنا آسان ہے نہ عوام کو قرار واقعی ریلیف دینا ممکن۔ مگر ’’ جوتیوں میں دال بٹنے لگے گی‘‘ یہ توقع کسی کو بھی نہ تھی۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کو جہانگیر ترین کے وفاقی کابینہ کے اجلاس میں بیٹھنے پر اعتراض ہے‘ سو فیصد درست اور اخلاقی و قانونی تقاضوں سے ہم آہنگ اعتراض مگر کیا یہ پارٹی کا اندرونی معاملہ نہیں؟ قریشی صاحب پارٹی اجلاس میں اور عمران خان کے روبرو اپنے نقطہ نظر کا اظہار نہیں کر پائے یا ان کی کوئی سننے والا نہیں؟ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کا نام تبدیل کرنے کے حوالے سے بھی شاہ محمود قریشی نے اپنا نقطہ نظر پریس کے ذریعے بیان کیا۔ وزیر خارجہ چودھری فواد حسین ‘ نعیم الحق اور ایم ڈی پی ٹی وی کے ایک دوسرے کے خلاف اخباری بیان پڑھ کر کون دعویٰ کرے کہ حکومتی ارکان نظم و ضبط کے لفظ سے آشنا ہیں؟۔ یہ سوال زیادہ اہم ہے کہ آخر شاہ محمود قریشی اور فواد چودھری ایسے اہم وفاقی وزیروں کو اپنا نقطہ نظر پریس کے ذریعے بیان کرنے کی ضرورت کیوں پیش آتی ہے؟۔کابینہ میٹنگز اور پارٹی اجلاسوں میں کیا ہوتا ہے؟ ذوالفقار علی بھٹو مرحوم اور میاں نواز شریف کے بارے میں مشہور تھا کہ وہ اپنی کابینہ کے ارکان اور قریبی ساتھیوں کو ایک دوسرے سے لڑا کر خوشی محسوس کرتے ہیں‘ مولانا کوثر نیازی ‘ خورشید حسن میر‘ بابائے سوشلزم شیخ رشید احمد ‘ غلام مصطفی کھر اور محمد حنیف رامے اور غلام مصطفی جتوئی اورممتاز علی بھٹو کی باہمی چپقلش کو واقفان حال قائد عوام کی افتاد طبع کا نتیجہ قرار دیتے۔ میاں صاحب بھی چودھری نثار علی خاں اور جاوید ہاشمی اور پرویز رشید‘ چودھری نثار علی خاں کی کشمکش سے محظوظ ہوتے۔ انگریز برصغیر میں بدنام تھے کہ انہوں نے Divide and rule(لڑائو اور حکومت کرو) کی پالیسی کے ذریعے حکمرانی کی مگر یہ حقیقت ہے کہ انہوں نے برصغیر کی مختلف اقوام‘ مذاہب اور نسلوں کو باہم لڑایا لیکن خود بھی متحد تھے اور اپنے وفاداروں کو بھی مل جل کر رہنے اور اقتدار کے مزے اڑانے کی تلقین کرتے۔ ہمارے حکمران مگر اندرونی صفوںمیں بھی انتشار پسند واقع ہوئے ہیں ورنہ عمران خان اپنی کابینہ کے ارکان اور قریبی ساتھیوںکو اندرونی معاملات باہر اچھالنے سے منع کر سکتے ہیں کہ جوتیوں میں دال بٹنے کی نوبت نہ آئے اور ووٹر وکارکن پریشان و مایوس نہ ہوں۔ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کا نام تبدیل کرنے کے معاملے میں شاہ محمود قریشی اور چودھری فواد حسین کے بیانات میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ بلا شبہ اس پروگرام سے غریب خاندانوں کو مالی فائدہ ہوا۔ ورلڈ بنک نے پروگرام کو سراہا اورایک بڑی تعداد کو اپنے پائوں پر کھڑے ہونے کا موقع ملا ‘مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ بڑی تعداد میں من پسند لوگوں کو نواز کر ووٹ بٹورا گیا‘ ان پڑھ اور سادہ لوح خواتین کو یہ تاثر ملا کہ ان کی کفالت محترمہ بے نظیر بھٹو کے وارث ذاتی جیب سے کر رہے ہیں اور میں ایسے لوگوں سے بھی واقف ہوں جو اس آمدنی کو کافی جان کر محنت مزدوری سے جی چرانے لگے۔ عمران خان کے حوالے سے جو ویڈیو وائر ل ہے اس میں پروگرام کو بند اور مستفید خاندانوں کو محدود آمدن سے محروم کرنے کی تجویز ہے نہ وزیر اعظم نے صاد کیا۔ پروگرام کا نام تبدیل کرنا اور اسے سرے سے بند کر دینا دو الگ چیزیں ہیں۔ بے روزگاری اور مہنگائی کے اس دور میں جب پٹرول‘ گیس‘ بجلی کی قیمتیں بڑھا کر اور ڈالر کے مقابلے میں روپے کو ٹکے ٹوکری کر کے اسد عمر نے عوام کی چیخیں نکلوا دی ہیں‘ پروگرام کی بندش ظلم ہو گا اورعوامی جذبات و احساسات سے یکسر لاعلمی کی سزا بالآخر بندش کے ذمہ دار بھگتیں گے‘ مگر نام کی تبدیلی پر ناک بھوں چڑھانا اور اسے سیاسی انتقام قرار دینا پوائنٹ سکورنگ کے سوا کچھ نہیں۔ بے نظیر بھٹو کو عوام نے دو بار وزیر اعظم بنایا مگر وہ اپنے والد ذوالفقار علی بھٹو کے نعرے روٹی ‘کپڑا اور مکان کو عملی جامہ پہنا سکیں نہ عام آدمی کو آسودہ کر پائیں۔ چاہتیں تو شوہر گرامی کو کاروبار مملکت سے الگ کرکے کرپشن‘ اقربا پروری اور نااہلی کے الزام سے بچ سکتی تھیں مگر رشتہ‘ حلف پر غالب رہا۔2008ء میں آصف علی زرداری کو اقتدار ملا تو وہ اندرون و بیرون ملک اربوں ڈالر کی جائیداد اور بنک اکائونٹس میں سے ساٹھ ستر ارب روپے کی رقم ٹرسٹ بنا کر اپنی وفا شعار و نامور اور مظلوم شریک حیات کے نام پر صدقہ جاریہ کا اہتمام کرسکتے تھے مگر حلوائی کی دکان پر نانا جی کی فاتحہ پڑھنے کو ترجیح دی اور سرکاری وسائل سے بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام شروع کیا‘ ایک بین الاقوامی ہوائی اڈے اور بسے بسائے شہر کا نام بھی تبدیل کر کے محترمہ سے منسوب کیا گیا۔ سوئٹزر لینڈ کے بنکوں سے نکلوائی‘ سرے محل کی فروخت سے حاصل کی گئی رقم ٹرسٹ کے لئے کافی تھی مگر ہمارے حکمران اور سیاست دان کسی نیک مقصد کے لئے جیب کو ہوا لگوانا پسند کرتے ہیں نہ غریب ووٹروں پر خرچ کرنا ان کی عادت ہے۔ شریف خاندان البتہ اس کلیے سے کسی نہ کسی حد تک مستثنیٰ ہے۔ شریف میڈیکل سٹی اور اتفاق ہسپتال سے فیضیاب ہونے والوں کی تعداد بلا شبہ لاکھوں میں ہے۔ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کا نام تبدیل کرنے میں حرج ہے نہ یہ کوئی گناہ ہے آصف علی زرداری‘ بلاول بھٹو اور خورشید شاہ اربوں میں کھیلتے ہیں اور خدا توفیق دے تو اپنے اور انور مجید جیسے دوستوں کی نیک کمائی سے یہ پروگرام بہتر اندازمیں چلا سکتے ہیں ۔حکومت کے وسائل سے چلنے والے پروگرام کا نام تبدیل کرنا ‘نہ کرنا حکومت کی صوابدید ہے۔ حکومت کے وزیر مشیر باہم لڑائیوں سے فرصت پا کر پیپلز پارٹی کی قیادت سے صرف یہ پوچھ لیں کہ گزشتہ دس گیارہ سال کے دوران زرداری گروپ‘ اومنی گروپ نے لاڑکانہ‘ نوڈیرو اور رتو ڈیرومیں کتنے غریب گھرانوں کی مدد کی۔ سندھ میں ذاتی و خاندانی وسائل سے کتنے تعلیمی‘ طبی اور رفاہی ادارے قائم کئے‘ تو شاید خورشید شاہ جیسوں کو بڑھ چڑھ کر بولنے اور یہ کہنے کی ضرورت پیش نہ آئے کہ ’’عمران خان کے بس میں ہو تو وہ کرنسی نوٹوں سے قائد اعظم کی تصویر غائب کر دیں‘‘ فواد چودھری کا موقف درست ہے کہ ’’پیپلز پارٹی بھٹو اور بے نظیر کا نام بیچنا بند کرے‘‘ آخر آصف علی زرداری‘ بلاول بھٹو اور خورشید شاہ محترمہ سے عقیدت و محبت کے جذبے کے تحت سو پچاس ارب روپے کا انڈومنٹ فنڈ قائم کر کے یہ نیک کام کیوں جاری نہیں رکھتے؟ تحریک انصاف مگر اس ایشو پر خود تقسیم ہے من چہ می سرایم و طنبورہ من چہ می سراید‘ فواد چودھری اور عمران اسماعیل کچھ کہہ رہے ہیں اور شاہ محمود قریشی بالکل برعکس۔ عمران خان کس کی سنیں اور کس کی مانیں‘۔ ’’لائے ہیں اس کی بزم سے یار خبر الگ الگ‘‘ ملک معاشی بحران سے دوچار ہے‘عوام بے چارگی کے احساس میں مبتلا اور مخالفین مایوسی و بے یقینی کے بیوپار میں مصروف۔ عمران خان کے بارے میں تاحال یہ حسن ظن قائم کہ وہ پاکستان کی تقدیر بدلنا چاہتا ہے اور شبانہ روز ریاضت میں مگن‘ مگر ان کے ساتھی‘ باہم دست و گریبان اور اپنی اپنی الگ راہ پر گامزن۔ بجٹ سر پر ہے اور گزشتہ آٹھ دس ماہ میں مہنگائی ‘ بے روزگاری‘ بجلی و گیس کی لوڈشیڈنگ کا عذاب بھگتنے والے عوام پرامید کہ حکومت کم از کم ان کے لئے عارضی ریلیف کا بندوبست کرے گی‘ تنخواہ دار طبقہ مہنگائی سے زیادہ متاثر ہوا ‘وہی زیادہ بے چین ہے اگر عمران خان نااہل اور عوامی خواہشات سے بے پروا ‘وزیروں کو فارغ کر کے ناامیدی کو امید‘ نااہلی کو اہلیت میں نہیں بدلتے ’’تو عوام کو لوڈشیڈنگ میں کمی ‘‘ ’’بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام ‘‘اور ’’ووٹ کو عزت دو ‘‘ جیسے کھلونوں سے بہلانے والے عناصر کو سازشی کہانیاں پھیلانے سے کون روک پائیگا‘ جو بالآخر قومی و سیاسی عدم استحکام میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ جوتیوں میں دال بٹنے لگے تو مخالفین کو فائدہ اٹھانے سے کون روک سکتا ہے۔؟