موجودہ غیر یقینی صورتحال عدالت عظمیٰ، نیب، ایف آئی اے اور حکومتی زعما کی کارروائیوں اور بیانات کے گرد گھوم رہی ہے۔ میاں نواز شریف ہوں یا شہباز شریف، آ صف زرداری ہوں یا ان کے برخوردار بلاول بھٹو اور ہمشیرہ فریال تالپور ہوں سب کرپشن کے مقدمات میں پھنسے ہوئے ہیں۔ نواز شریف اور شہباز شریف توپہلے ہی پابند سلاسل ہیں جبکہ آصف زرداری کا معاملہ ہر چند ہے کہ نہیں کے مترادف ہے۔ انھیں جعلی اکاؤنٹس کیس میں بینکنگ کورٹ نے 23 جنوری تک ضمانت دے دی ہے۔ دوسری طرف سپریم کورٹ نے یہ کیس جے آئی ٹی رپورٹ کی روشنی میں نیب کو بھیج دیا ہے۔ اب تحقیقات کا ایک اور دور شروع ہو گا اور نیب اسے دوماہ میں نبٹائے گا نہ جانے یہ معاملہ کہاں جا کر رکے گا۔ پاکستان کی تاریخ میں شاید پہلی بار بیک وقت 172 افراد کو بیرون ملک جانے سے روکنے کے لیے ان کے نام ای سی ایل میں ڈال دئیے گئے ہیں۔ سپریم کورٹ پہلے ہی حکم دے چکی تھی کہ ان ناموں پر فی الفور نظرثانی کی جائے لیکن کابینہ نے غالباً ایک سوچی سمجھی حکمت عملی کے تحت یہ ڈنگ ٹپائو کام کیا کہ ہر کیس کا انفرادی طور پر جائزہ لیا جائے گا۔ چیف جسٹس آف پاکستان میاں ثاقب نثار وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ، بلاول بھٹو اور فاروق ایچ نائیک کے نام ای سی ایل پر ڈالنے پر معترض تھے۔ لگتا ہے کہ حکومت کے اسی لیت و لعل کی حکمت عملی کے پیش نظر ہی چیف جسٹس نے ان تینوں شخصیا ت کے نام ای سی ایل سے نکال دیئے۔ دوران سماعت چیف جسٹس نے جے آئی ٹی کے وکیل سے استفسار کیا کہ جے آئی ٹی نے بلاول بھٹو کو معاملے میں کیوں ملوث کیا، بلاول معصوم نے پاکستان میں آکر ایسا کیا کردیا؟ بلاول صرف اپنی ماں کا مشن آگے بڑھا رہا ہے۔ کیا جے آئی ٹی نے کسی کو بدنام کرنے کے لیے ایسا کیا، کیا کسی کے کہنے پر بلاول بھٹو کا نام رپورٹ میں ڈالا ہے؟۔ انھوں نے بجا طور پر کہا جے آئی ٹی نے تواپنے وزیراعلیٰ کی بھی عزت نہیں رکھی اور ان کا نام بھی ای سی ایل میں ڈال دیا۔ فاروق ایچ نائیک جو آصف زرداری کے وکیل بھی ہیں کو ای سی ایل میں ڈالنے سے نئی ریت پڑ جاتی کہ ہر وکیل صفائی کو ای سی ایل میں ڈال دو۔ شاید اسی بنا پر فاضل چیف جسٹس نے بلاول اور فاروق نائیک کا نام جے آئی ٹی سے نکالنے کا حکم دیا ہے۔ ادھر وزیر اطلاعات فواد چودھری مصر ہیں کہ ای سی ایل میں نام ناموں کی بنا پر نہیں بلکہ کرتوتوں کے بنا پر ڈالے جاتے ہیں۔ وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے احتساب شہزاد اکبر اور وزیر اطلاعات فواد چودھری کے ارشادات سے یہ محسوس ہوتا ہے کہ وہ اپنے ہی بلبلے میں رہ رہے ہیں اور پاکستان اور دنیا کے معروضی حالات کی انھیں ذرہ برابر پروا نہیں۔ جے آئی ٹی کی رپورٹ دانستہ طور پر لیک کرنے اور اس کے بعد ای سی ایل میں نام ڈالنے کی روشنی میں تحریک انصاف کی حکومت میں گویا کہ ایک ہیجانی سی کیفیت طاری ہو گئی۔ وزیراعظم عمران خان کے نادان مشیروں نے نمبر گیم دیکھے اور سندھ میں حکومت گرانے کے محرکات کا جائزہ لیے بغیر ہی علی محمد مہر، ذوالفقار مرزا اور ان کی اہلیہ فہمیدہ مرزا سے رابطہ کرنے کا کہا۔ فواد چودھری ان عقابوں میں پیش پیش تھے جنہوں نے رضاکارانہ طور پر کہا میں سندھ جا کر وہاں کی حکومت گراتا ہوں۔ اس حوالے سے انھوں نے اسی روز شام 6 بجے کی فلائٹ پر کراچی جانے کے لیے بکنگ بھی کرالی بعدازاں جب ہوش نے جوش پر غلبہ پایا تو احساس ہوا کہ اول تو یہ مشن ناکام ہو گا اور اگر کامیاب ہو بھی گیا تو اس کے نتائج خوفناک ہونگے کہ وفاقی حکومت نے سندھ حکومت کو چاروں شانے چت کر دیا ہے۔ وزیراعظم عمران خان نے فوراً فواد چودھری کو ہدایت کی کہ کراچی جانے کا پنگا نہ لیں لیکن اس لحاظ سے حکومتی حکمت عملی کو سیٹ بیک اور آصف زرداری کو فائدہ ہوا کہ ایک ایسا مسئلہ جس کا تعلق خالصتاً کرپشن سے تھا اسے حکومت نے اپنی حماقت سے خود ہی سیاسی رنگ دے دیا۔ اگر جے آئی ٹی کی رپورٹ لیک کرنے کا مقصد آصف زرداری اینڈکو کا میڈیا ٹرائل کرنا تھا تواس کا الٹا نقصان ہو گیا۔ ایف آئی اے کا یہ کہنا سفید جھوٹ تھا کہ ہم نے جے آئی ٹی کی رپورٹ لیک نہیںکی لیکن حقیقت یہ ہے کہ اگر اس رپورٹ کے مندرجات میں تھوڑی سی بھی صداقت جو کہ شاید ہو بھی، میڈیا ٹرائل کی چنداں ضرورت نہیں تھی۔ اب جے آئی ٹی اور ای سی ایل والے معاملے کی بنا پر پیپلز پارٹی فرنٹ فٹ پر کھیل رہی ہے۔ آصف زرداری برملا کہہ رہے ہیں کہ الزام لگاؤ، مقدمے چلاؤ، پھانسی چڑھا دو، بے وقوفوں اور جاہلوں کے ہتھکنڈوں سے نہیں ڈریں گے۔ انھوں نے فوج کو بھی نام لیے بغیر بالواسطہ طور پر مشورہ دیا ہے کہ غیرسیاسی لوگ بھی دیکھیں کہ ملک کدھر جا رہا ہے۔ نہ جانے عمومی طور پر یہ تاثر کیوں جاگزین ہوتا جا رہا ہے کہ حکومت کی ترجیحات ہی غلط ہیں۔ یہ عذر لنگ ہے کہ ہم تو کچھ کر ہی نہیں رہے یہ تو احتسابی عمل خودبخود چل رہا ہے اور ہم کرپٹ لوگوں کو معاف نہیں کریں گے لیکن دوسری طرف جے آئی ٹی کی رپورٹ لیک کرنے اور درجنوں افراد کے نام ای سی ایل میں ڈالنے کے ذمہ دار وہ ادارے یا افراد ہیں جو حکومت کی براہ راست نمائندگی کرتے ہیں۔ بہت سے خانسامے ہوں تو کھانا بدمزہ ہو جاتا ہے کے مصداق حکومت کو اپنی میڈیا سٹریٹیجی پر بھی نظرثانی کرنی چاہیے۔ اس وقت فواد چودھری وزیر اطلاعات ہیں، اس لحاظ سے وزارت اطلاعات کے وسیع نیٹ ورک کی سربراہی کرتے ہیں۔ ان کے ساتھ معاون خصوصی برائے اطلاعات افتخار درانی کو بھی نتھی کر دیا گیا۔ دو نجی چینلز کے مالکان یوسف بیگ مرزا اور طاہر اے خان بھی اسی شعبہ کے مشیر ہیں۔ یہ حضرات قریباً ہر روز وزیراعظم سے اکٹھے ملاقات کرتے ہیں۔ سنا ہے کہ میڈیا کے معاملات کے علاوہ سیاسی سٹرٹیجی پر بھی مشاورت ہوتی ہے گو یا کہ فواد چودھری اور ان کی ٹیم کی جارحانہ حکمت عملی کو وزیراعظم کی مکمل آشیرباد حاصل ہے۔ نہ جانے فواد چودھری بھی جوش خطابت میں تھوڑی سی زیادتی کیوں کر جاتے ہیں۔ سوشل میڈیا پر اپنے حالیہ ٹویٹ میں وہ اس بات پر سخت برہم تھے کہ یہ کیوں کہا گیا ہے کہ متحدہ عرب امارات کے ولی عہد شیخ محمد بن زیدالنیہان صرف دو گھنٹے کے لیے اسلام آباد آئے تھے۔ ان کے مطابق اصل مسئلہ یہ ہے کہ فارن افیئرز کو کور کرنے والے آفیشل وزٹ، سٹیٹ وزٹ اور پرائیویٹ وزٹ کا فرق جانتے ہیں، اب بات عطائیوں کے ہاتھ ہے کس کس کو سمجھائیں کہ بھائی پہلے دو دن دورہ نجی تھا آخری دن آفیشل تھا۔ انہوں نے کہا کہ جس نے کبھی زندگی میں دفتر خارجہ نہیں دیکھا وہ بھی خارجہ پالیسی کا ماہر رپورٹر بنا ہوا ہے،، خبر سے پہلے کچھ تحقیق ہی کر لینی چاہیے تھی۔ وزیر اطلاعات کو صحافیوں کے بارے میں ایسا تضحیک آمیز رویہ اختیار نہیں کرنا چاہیے تھا کیونکہ متعلقہ رپورٹر تکنیکی طور پر ٹھیک کہہ رہا تھا اور جہاں تک فواد چودھری کا تعلق ہے کہ وہ بطور حکومتی ترجمان ہر موضوع پر رائے زنی کرتے ہیں جو ان کا حق ہے۔ نہ وزیر موصوف کے لیے اور نہ ہی متعلقہ رپورٹر کے لیے خارجہ امور پر پی ایچ ڈی ہونا ضروری ہے۔ حکومت کو نئے محاذ کھولنے کے بجائے اپنا پورا فوکس اقتصادیات اور گورننس کو درست کرنے کی طرف رکھنا چاہیے کیونکہ حالت انتہائی پتلی ہے۔ بین الاقوامی ریٹنگ ایجنسی فچ کے مطابق پاکستانی معیشت کی نمو رواں مالی سال 2018-19ء میں 4.4 فیصد رہے گی جبکہ بجٹ خسارہ گزشتہ مالی سال کے مقابلے میں 5.8 فیصد سے بڑھ کر رواں مالی سال 6 فیصد رہنے کا امکان ہے۔ فچ کے مطابق پاکستان کی برآمدات کی ڈالر مالیت سال در سال قریباً 13فیصد اور ڈالر میں 20 فیصد کم ہو چکی ہیں۔ اس وقت پاکستان کو دوست ممالک سے جس رفتار سے چند ارب ڈالر کی امداد مل رہی ہے، اسی سرعت سے خر چ ہو رہی ہے۔ فچ کے مطابق روپے کی قیمت میں مزید بیس سے تیس فیصد کمی ہونے کا امکان ہے اور اسے روکنے کے لیے سٹیٹ بینک ہر روز ڈالر مارکیٹ میں پھینک رہا ہے گویا کہ ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر کو گرنے سے روکنے کیلئے اسحق ڈار فارمولا استعمال کیا جا رہا ہے جس پر پی ٹی آئی کے ماہرین اقتصادیات تنقید کرتے رہے ہیں، یہ صورتحال تو افسوسناک ہے۔ اس سے چند روز قبل کی فچ رپورٹ کے مطابق سعودی عرب، چین اور امارات کی طرف سے امداد سے فوری طور پر پاکستان کی مالی ضروریات پوری ہو سکتی ہیں، تاہم ہمسایہ ممالک سے کشیدگی کے باعث (خاکم بدہن) پاکستان کو جغرافیائی رسک ہو سکتا ہے۔