پرانے پاکستان میں حوا کی بیٹی کوان گنت مسائل درپیش تھے۔ کیونکہ اس معصوم ذات کے اوپر گھر کی چاردیواری کے اندر بھی مظالم ڈھائے جاتے تھے اور باہر بھی ۔ غیرت کے نام پر اس کا قتل گناہ سمجھا جاتاتھا نہ ہی چند پیسوں کے عوض اس کی نیلامی برائی کے زمرے میںآتاتھا۔قصورکی زینب کی طر ح اسے اغوا اور ریپ کرنے کے بعدموت کے گھاٹ اتارنابھی معمول کی بات تھی اورڈیرہ اسماعیل خان کی شریفاں بی بی کی صورت میں اس جنس کو برہنہ کرکے گلیوں میں گھمانا بھی ایک معمولی واقعہ تصور ہوتاتھا۔حواکی بیٹی کو ہرکونے میں اپنی جاں کی امان اور عزت کی فکر دامن گیر رہتی ہے۔ حوا کی بیٹی کے ساتھ ایسی زیادتیاں اس لئے بھی ہوتی رہیں کہ پورے پورے کے تھانے بکتے رہے اورپولیس عوام کی بجائے اشراف اور حکمرانوں کی حفاظت پر مامور رہی ۔ 25 جولائی کے بعد ملک میں ایک مدنی ریاست کی بنیاد رکھی گئی جہاں پر قانون کی حاکمیت کے دعوے بھی کیے گئے اور ہرکسی کی جان ، مال اور آبرو کے محفوظ ہونے کی گارنٹی بھی دی گئی۔ ہمیں بتایا جاتاتھاکہ اس نئی ریاست میںقانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکار تو اتنے الرٹ ہونگے کہ حوا کی بیٹی کو ترچھی نظروں سے بھی کوئی نہیں دیکھ سکے گا۔ لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑرہاہے کہ اس نئے پاکستان میں بھی حواکی بدنصیب بیٹی کے دن نہیں پھرے ہیں ۔ وہی حوا کی بیٹی ہے اور پرانے پاکستان کی طرح نئے پاکستان میںبھی ظلم اس بے چاری کا پیچھا کررہا ہے۔ نئی حکومت کے قیام کو اب دو مہینے پورے ہورہے ہیں لیکن حوا کی بیٹی اب بھی چیخ چیخ کر رو رہی ہیں کہ اس کی عزت اور جان کو درپیش خطرات اب بھی نہیں ٹلے ہیں ۔ اکتوبر کے پہلے ہفتے میں دارالحکومت اسلام آبادمیں پولیس کمانڈوخاتون کے ساتھ جنسی زیادتی کا واقعہ پیش آنا اس بات کی دلیل ہے کہ نیاپاکستان بھی حوا کی بیٹی کیلئے محفوظ جگہ نہیں ہے ۔المیہ تو یہ بھی ہے کہ پہلے حوا کی ایک عام بیٹی کی عزت اور جاں کو زیادہ خطرات لاحق تھے لیکن نئے پاکستان میں پولیس کمانڈوخواتین کی عزت پر بھی ڈاکے ڈالے جارہے ہیں ۔ریپ کا شکار ہونے والی پولیس کمانڈوخاتون اس وقت انتہائی نگہداشت کے وارڈ میں زیر علاج ہیں ۔ کہا جاتاہے کہ جس مقام کی نشاندہی اس متاثرہ پولیس کمانڈو خاتون نے کی ہے وہاں کا سی سی ٹی وی کیمرہ خراب نکلا ہے ۔پولیس کمانڈو خاتون کے ساتھ پیش آنے والے واقعے کے مجرم تاحال گرفتار نہیں ہوئے ہیں کہ پنجاب کے شہر سرگودھا میں حوا کی ایک اور بیٹی کے ساتھ سفاکیت کا واقعہ پیش آیا ۔ اطلاعات کے مطابق ہارون بی بی نامی بارہ سالہ لڑکی کو اپنے گھرسے غواء کیا گیا لیکن آٹھ دن گزرنے کے باوجود پولیس تاحال اس کی بازیابی میں ناکام رہی ہے ۔ ہارون بی بی کا تعلق بلوچستان کے مشہور علاقے ضلع ژوب کے کاکڑ خراسان سے بتایا جاتا ہے۔ اس خاندان کے لوگ معاشی زبوں حالی کے ہاتھوں کئی سال پہلے سرگودھا میں قیام پذیر ہوئے اور یہیں پر محنت مزدوری کررہے ہیں۔پچھلے دنوں میڈیا کے نمائندے سے بات کرتے ہوئے بچی کی والدہ کا کہنا تھا کہ ان کی معصوم بچی کو شام کے وقت ان کے گھر سے اغوا کیا گیا جو تاحال لاپتہ ہے۔ ہارون بی بی کی بے بس والدہ کا کہنا تھا کہ حکمران انہیں انصاف دلائیں اور ان کی معصوم بچی کے اغواکاروں کو انصاف کے کٹہرے میں لائیں۔ہارون بی بی کی رہائی کے سلسلے میں پنچاب پولیس سے کہیں زیادہ پھرتی ژوب کے علاقے کے طالبعلم انجینئر حمیداللہ مندوخیل نے دکھادی ہے جواس لاہور کے پنجاب یونیورسٹی میں زیر تعلیم ہیں۔ انجنیئرحمیداللہ مندوخیل اور ان کے ساتھی مسعود خان اور پشتو زبان کے شاعر محمد یارزیارکش نے اس سلسلے میں گزشتہ دنوں وزیراعلیٰ پنجاب سے ملاقات کرکے ان سے اس واقعے کے اوپر فوری طور ایکشن لینے کا مطالبہ کیا ہے۔