حوروں کا تذکرہ ہو تو کس کے کان کھڑے نہیں ہوئے‘ عمران خان نے حوروں والے ٹیکے کا ذکر کر کے لوگوں کے لئے اچھا خاصہ مسئلہ کھڑا کر دیا ہے۔ اصل واقعہ یوں ہوا کہ جب خان صاحب لفٹ سے گرے تھے تو ان کی ہڈیاں ٹوٹ گئی تھیں۔ بقول خان صاحب ڈاکٹر عاصم نے ان کو پتہ نہیں کون ساٹیکہ لگایا کہ انہیں نرسیں حوریں نظر آنے لگیں۔ انہوں نے مزید بتایا کہ ٹیکے کے اثر سے باہر آنے کے بعد انہوں نے خواہش کی کہ وہی ٹیکہ انہیں پھر لگایا جائے مگر ڈاکٹر عاصم نے انکار کر دیا۔ خان صاحب نے انہیں دھمکایا بھی مگر ڈاکٹر ٹس سے مس نہ ہوا۔ کہنے کا مقصد یہ تھا کہ ان کا عملہ خواہ وہ ڈاکٹر ہو خان صاحب کی دھمکی سے بھی مرعوب نہیں ہوتا اور اپنی ذمہ داریاں ادا کرتا ہے۔ڈاکٹر بہتر جانتا تھا کہ خان صاحب کہ ٹیکہ کب لگانا اور وہ کتنے ٹیکوں کے متحمل ہو سکتے ہیں خان صاحب تو اتنی بات کر کے فارغ ہو گئے مگر لوگ مارکیٹوں میں حوروں والا ٹیکہ ڈھونڈتے پھر رہے ہیں ویسے دیکھا جائے تو یہ بات نرسوں کے خلاف بھی جاتی ہے کہ وہ حوریں نظر آنے لگیں۔ دوسری بات یہ کہ اس خواب نما منظر میں خان صاحب کی روحانیت کا بھی عمل دخل ہے۔ مجھے اپنے پروفیسر افتخار احمد کا سنایا ہوا نہایت دلچسپ قصہ یاد آ گیا کہ ایک مریض ڈاکٹر کے پاس گیا اور وزن کم کرنے کا مشورہ مانگا۔ ڈاکٹر نے اسے گولیاں دیں اور روزانہ سونے سے پہلے ایک گولی لینے کی ہدایت کی۔ مریض نے رات گولی کھائی تو اس کے خواب میں ایک نازک اندام حسینہ آ گئی جس کے تعاقب میں مریض ساری رات دوڑتا رہا اور صبح جب آنکھ کھلی تو وہ پسینہ سے شرابور تھا۔ اس نے حیرت سے ادھر ادھر دیکھا اور اٹھ کر کھڑا ہو گیا۔ اسے محسوس ہوا کہ وہ دوڑ دوڑ کر تھک چکا ہے۔ مگر ہلکا پھلکا محسوس کر رہا ہے اس نے وزن کیا تو دس پائونڈ وزن کم ہو چکا تھا اس نے اس کا تذکرہ اپنے ایک دوست سے کیا جو اس کی طرح کا بھاری بھرکم تھا۔ وہ دوست بھی ڈاکٹر سے ملنے ہسپتال جا پہنچا۔ اسے بھی ڈاکٹر نے گولی دی اور اس نے رات گولی کھائی اور سو گیا۔ مگر اب کے تو ایک ایک حبشی اس کے خواب میں آیا اور اس حبشی سے ڈر کر یہ مریض ساری رات بھاگتا رہا مگر وزن اس کا بھی وزن کم ہو گیا۔ اس نے ڈاکٹر صاحب سے جا کر شدید احتجاج کیا کہ پہلے مریض کو دوشیزہ دکھائی اور مجھے حبشی۔ ڈاکٹر نے کہا وہ میرا پرائیویٹ کلائنٹ تھا تم سرکاری ہسپتال میں آئے تھے ڈاکٹر عاصم خان کا پرائیویٹ ڈاکٹر تھا۔ ویسے بھی زیادہ تر خواب میں یا لاشعور میں وہی کچھ آتا ہے جو ہر وقت دماغ میں ہو اور خیالوں میں ہو۔ خان صاحب کی زندگی تو ایسی چیزوں سے بھری پڑی ہے۔ کمال تو یہ ہوا کہ خان صاحب کی اس مزاحیہ اور دلچسپ بات کو جو کہ یقینا خان صاحب نے تفنن طبع کے تحت کی تھی، کتنے اینکرز نے پروگرام کر ڈالے اور حوروں والے ٹیکے کا تذکرہ رات گئے تک ہوتا رہا۔ کچھ نے تو خواہش ظاہر کی کہ وہ ڈاکٹر عاصم سے ملنا چاہیں گے: گل پھینکے ہے اوروں کی طرف بلکہ ثمر بھی اے خانہ برانداز چمن کچھ تو ادھر بھی شکر ہے ابھی تک اس پر مولانا فضل الرحمن کا کوئی بیان نہیں آیا وگرنہ وہ کہتے کہ عمران خاں کا حور وں سے کیا علاقہ۔ وہ دھرنے کو اس خواب یا مدہوشی کے ساتھ ضرور جوڑتے۔ویسے شیخ حضرات کے ساتھ حوروں کو علاقہ تو ہے: شیخ مسجدمیں سر جھکاتا ہے حور جنت میں کانپ جاتی ہے حوروں والے انجکشن کا تذکرہ سوشل میڈیا پر بہت زیادہ ہوا۔ سب خان صاحب کی آنکھوں پر رشک کرتے رہے کہ یہ منظر انہوں نے جاگتی حالت میں کھلی آنکھوں سے دیکھا وگرنہ انہیں کیسے پتہ چلتا کہ جو حوریں وہ دیکھ رہے ہیں یہ نرسیں ہیں۔ یقینا ڈاکٹر عاصم انہیں جادوگر دکھائی دیا ہو گا کہ لفٹ سے گرے ہوئے شخص کو اس نے ٹیکہ لگا کر اتنا بلند کر دیا کہ اسے حوریں نظر آنے لگیں۔ ناصر کاظمی یاد آ گئے: چاند نکلا تو ہم نے وحشت میں جس کو دیکھا اسی کو چوم لیا یہ تو پھر ٹیکہ ہے بعض اوقات عینک لگانے سے کیا کچھ بدل جاتا ہے۔ ایک مرتبہ شہزاد احمد نے اپنے کالج کے دنوں میں نظر والی عینک لگا لی۔ ان کے بے تکلف استاد صوفی تبسم نے کہا:شہزاد ! یہ کیا لگا لیا ہے۔ عینک لگا کر تم بجّولگ رہے ہو‘ شہزاد احمد نے برجستہ کہا’’سر اگر میں عینک نہ لگائوں تو آپ لگیں گے۔ ویسے تو حسن آنکھ میں ہوتا ہے۔ بعض لوگوں کو ٹیکے کے بغیر بھی نرسیں حوریں نظر آتی ہیں یا پھر سچ مچ کی حوریں نرسیں محسوس ہوں۔ ہماری شاعرہ نیلما ناہید درانی تو ویسے ہی حوروں کے خلاف ہیں کہ جنت میں اس کے مرد تو حوریں ملیں گی اور وہ وہاں تنہا رہ جائے گی۔ گویا ایسی جنت میں وہ نہیں جائے گی۔ ویسے یہ تو کسی نے بھی اب تک نہیں سوچا کہ جو ٹیکے حکومت عوام کو آئے دن لگا رہی ہے کہ کبھی بجلی مہنگی ‘تو کبھی پٹرول ‘کبھی گیس ‘تو کبھی آٹا ان ٹیکوں کے بعد عوام کو محبوبائیں بھی چڑیلیں نظر آئی ہوں گی۔ میں نے قصداً بیویوں کا تذکرہ نہیں کیا۔ اصل میں یہ سارا مسئلہ تو نفسیات کا ہے’’ دل تو میرا اداس ہے ناصر شہر کو سائیں سائیں کرتا ہے‘‘عوام کے سامنے جب بل آتے ہیں تو تب ان پر منکشف ہوتا ہے کہ کس کس مد میں انہیں ٹیکہ لگا دیا گیا ہے۔ کبھی کوئی ایڈجسٹ منٹ اور کبھی کوئی فرضی واجبات۔ یوٹیلیٹی بلوں والا ٹیکہ ہے بھی اجتماعی۔ ایک آدھ نہیں سب ہی زیر عتاب ہیں تو کسی کو اعتراض نہیں رہتا۔ آخری بات یہ کہ ہسپتالوں میں حوروں والے ٹیکے تو کیا ملنے ہیں وہاں تو عام ٹیکے بھی دستیاب نہیں۔ وہ جو غریبوں کو مفت دوائی مل جاتی تھی اب یکسر بند کر دی گئی ہے۔ جب مریضوں کو دوائی نہیں ملے گی تو دلبرداشتہ ہو کر وہ کیا کریں گے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ مایوس ہو کر وہی ٹیکے لگوانے لگیں جو چرسی لگواتے ہیں اور پھر وہ جہاز کہلاتے ہیں اور کچھ نہیں تو بے چارے تنگ دست لوگوں کو کچھ نہ کچھ دوا تو سرکاری ہسپتال میں میسر آ جائے کہ بعض کے پاس تو زہر کھانے کو بھی پیسے نہیں ہوتے۔ ایک شعر کے ساتھ اجازت: تم محبت کو تجارت کی طرح لیتے تھے یوں نہ ہوتا تو تمہیں اس میں خسارا ہوتا