شہر میں آگ لگی تو ہم کو یاد آئے تھے اس شہر میں پھول کھلانے والے لوگ مولا! ہمیں تو تیرہ شبی نے مار دیا کہاں گئے وہ دیپ جلانے والے لوگ ملک کی صورتحال آپ سب کے سامنے ہے۔ سب مغموم اور پریشان ہیں۔ افواہیں پھیلانے والے اپنی جگہ ڈیوٹی پر ہیں۔ معاملے کو سلجھانے کی ضرورت ہے۔کہیں ہم دشمن کا ایجنڈا ناسمجھی اور لاعلمی میں پورا تو نہیں کر رہے۔ اس وقت اپنے پیارے وطن کو انارکی سے بچانے کی ضرورت ہے۔ ایسے ہی مجھے یاد آیا کہ کبھی ہم انگریزی کے کورس میں ایک مضمون پڑھایا کرتے تھے۔ عنوان اس مضمون کا فرانسیسی میں تھا جس کا مطلب تھا I love france یہ جرمن کے حملے اور قبضے کے بعد لکھا گیا تھا۔ تب ہمیں فرانس کے ساتھ ہمدردی محسوس ہوتی تھی مگر آج میں اپنے دل و دماغ سے کہنا چاہتا ہوں کہ I hate france کا سلوگن میرے سینے پر ہے۔ وجہ اس کی بالکل عیاں ہے کہ اس ملک کے لوگوں ہی نے نہیں حکومت نے بھی مسلمانوں کو آزادی اظہار کے نام پر کاری زخم لگایا اور اس پر نمک پاشی کی۔ یوں وہ دہشت گردی ہی کے مرتکب نہیں ہوئے بلکہ انتہائی سفاک اور غلیظ اور بدبودار لوگ ہیں جو اخلاقیات سے یکسر عاری ہیں۔ وہ پوری دنیا کے سکون کو برباد کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ وہ اس بات پر پیچ و تاب ہی نہیں کھاتے بلکہ غصے سے بھر گئے ہیں کہ مسلمان آخر ایسا ردعمل کیوں دیتے ہیں انہیں اقبال کی بات شاید نہیں پہنچی کہ اقبال ان شیطانوں سے بہت پہلے واقف تھے اور ان کی عکاسی انہوں نے ابلیس کی زبان سے کروا دی تھی۔ یہ فاقہ کش کہ موت سے ڈرتا نہیں کبھی۔ روح محمدؐ اس کے بدن سے نکال دو۔ یہ جو کچھ بھی ہوا ہے یہ فطری اور ضروری ردعمل تھا: نہ جب تک کٹ مروں میں خواجہ یثرب کی عزت پر خدا شاہد ہے کامل میرا ایماں ہو نہیں سکتا کاش اسے قومی مسئلہ بنایا جاتا اور سفارتی سطح پر اس کا صرف اظہار ہی نہیں بلکہ عملی طور پر ردعمل دیا جاتا مگر آپ تو عالمی عدالتی میں بھی نہیں گئے کہ انہیں باور کروا سکیں کہ یہ آزادی اظہار کیسے ہو ئی کہ آپ ایک ارب سے زیادہ مسلمانوں کو روحانی اور باطنی طور پر گھائل کر یں آپ اس ہستی کی توہین کرنے کی ناپاک جسارت کر رہے ہیں جو ہمیں اپنی جانوں سے زیادہ عزیز ہے یہ سوال بھی پوچھا جا سکتا ہے کہ ہالو کاسٹ کا ذکر آزادی اظہار میں کیوں نہیں آتا۔ میں سمجھتا ہوں ہر سطح پر فرانس سے نفرت کا اظہار سب مسلمانوں کو کرنا چاہیے۔ مگر یہ کیا ہم نے تو اپنے ہی ملک میں جلائو گھیرائو توڑ پھوڑ شروع کر دی ہے پولیس والوں کو شہید کرنے والے عاشق رسول ﷺ ہو سکتے ہیں نا محب الوطن لوگ ۔یہ تو شرپسند عناصر اور دشمن ملک کے جاسوس کا ایجنڈا ہے ایسا ہی جیسے لال مسجد کا معاملہ تھا۔ یہ مولانا فضل الرحمن کس کے ایجنڈے پر کام کر رہے ہیں جوکہا کہ یہ سراسر فرانس اور پوری دنیا کو خوش کرنے کے لئے ہوا۔ بھلا اس حساس موضوع پر حکومتی مخلفت اور سیاست چمکانے میں حکمت کہیں نظر نہیں آتی۔ اس کے نتائج بالکل اچھے نہیں ہونگے: پھر مرے ہاتھ پائوں چلنے لگے جب مرے ہاتھ سے کنارا گیا میرے بازو نہیں رہے میرے لو مرا آخری سہارا گیا اس سے پیشتر سعد رضوی کا بیان بہت اچھا تھا کہ ان کے سارے کارکنان واپس گھروں کو چلے جائیں لگتا تھا کہ سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا۔ فرانس کے مکروہ عمل کے ردعمل میں حکمت بہر طور ضروری تھی کہ اس میں عوام اور حکومتی املاک کو نقصان نہیں پہنچنا چاہیے تھا۔ یہی تو پاکستان کے دشمنوں کا ایجنڈا ہے کہ مذہبی طبقے کو مشتعل کر کے ریاست سے بھڑا دو۔ ایسے میں کسی طرف کا نقصان بھی ہو پاکستان کا نقصان ہے ماشاء اللہ سب مسلمان ہیں یہ مل جل کر کرنے والا کام ہے کچھ بے احتیاطی حکومت سے بھی ہوئی کہ پہلے معاہدہ کر لیا کہ فرانس کے سفیر کو ملک بدر کر دیا جائے گا۔ حیرت کی بات ہے کہ انہیں معلوم تھا کہ وہ یہ نہیں کر سکیں گے مگر وقتی طور پر ٹالنے کے لئے اور وقت حاصل کرنے کے لئے معاہدہ کر لیا۔ سب سے تکلیف دہ عمل یہ ہوا کہ بے چارے جو پولیس والے زخمی ہوئے انہیں لے جانے کی ایمبولینس کو اجازت نہیں دی گئی۔ حد ہو گئی کہ آقاؐ پہ قربان ہونے کا دعویٰ کرنے والوں نے یہ غیر اسلامی اور غیر انسانی حرکت کی۔کیسی بے حسی کی بات ہے۔یہ ہمارا وطن ہے ۔ اور اسلام کے نام پر یہ سب کچھ ہو رہا ہے۔ مفتی منیب صاحب کی اپیل پر آج پورے ملک میں پہیہ جام ہڑتال ہے جو جلتی پر تیل کا کام کرے گی حالانکہ اس وقت ضرورت ہے کہ یہ تمام علماء اپنے فرقہ وارانہ سوچ اور فکر سے آزاد ہو ملک وقوم کی بہتری کیلئے کوشش کریں۔ ایک اللہ اور ایک اس کا محبوبؐ اور یہی وجہ نجات ہے: فرقہ بندی ہے کہیں اور کہیں ذاتیں ہیں کیا زمانے میں پنپنے کی یہی باتیں ہیں اقبال کا پیغام بھی کیا پیغام ہے: دل مردہ دل نہیں ہے اسے زندہ کر دوبارہ کہ یہی ہے امتوں کی مرض کہن کا چارہ اردوان نے یہ کر دکھایا مگر ہماری حکومت کو تو قدم قدم پر بقا کا مسئلہ درپیش ہے کہ وہ اپنی سانسوں پر نہیں بلکہ مستعار آکسیجن پر ہے۔ لوٹ مار کی نشاندہیاں کی جا رہی ہیں مگر حرام ہے کہ کسی سے ایک دھیلہ انہوں نے وصول کیا ہو۔ کوئی محل بنائے اور دوسرا گرائے تو عوام کو اس سے کیا ملے گا۔ انہیں تو آپ نے دو وقت کی روٹی سے محروم کر رکھا ہے۔ اتنی بے حکمتی اور بے تدبیری۔ میں یرغمال ڈی ایس پی کی بات سن رہا تھا جو بری طرح زخمی بھی تھا۔ وہ کس بے بسی سے کہہ رہا تھا کہ وہ بھی مسلمان ہے۔ خدا کے لئے کوئی حل نکالا جائے۔رمضان میں یہ سب کچھ ہو گیا۔کچھ تو خیال کیا جاتا یہ کہاں کا اسلام ہے۔ اقبال کے شعر پر ہی ختم کرتے ہیں: نہیں اللہ کو اس مومن کی پروا کہ جس کی روح خوابیدہ ہے اب تک