ہر وہ شخص جو ملکی سیاسی صورتِ حال پر نظر رکھتا ہے ،حکومتی بوکھلاہٹ کو محسوس نہیں کر پارہا ،حالانکہ حکومت کے لیے یہ وقت گھبرانے اور بوکھلاہٹ میں مبتلا ہونے کا ہے۔سوال یہ ہے کہ موجودہ حکومت بوکھلاہٹ میں کیوںگھِری ہوئی نہیں دکھائی دیتی؟ ذرا توقف کریں!ہم دوہزار تیرہ میں منتخب ہونے والی حکومت پی ایم ایل این کی پانامہ پیپرز سے پہلے کی بوکھلاہٹ پر ایک اجمالی نظر ڈالنے کی کوشش کے ذریعے موجودہ حکومت بوکھلاہٹ زَدہ کیوں نہیں ،پرغور کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ مئی دوہزار تیرہ میں منتخب ہو کر سامنے آنے والی حکومت کا خیال تھا کہ انہیں فوری طور پر دہشت گردی اور انرجی بحران کے چیلنجزسے نبردآزماہونا پڑے گا،یوںابتدا ہی سے ان بحرانوں پر قابو پانے کیلئے سرگرم ہو گئی تھی ۔انرجی بحران کے ضمن میں توانائی کے کچھ پرانے منصوبوں میں نئی رُوح پھونکی جانے لگی توکچھ نئے منصوبوں کا آغاز بھی کیِاگیاتھا۔اُن دِنوں دہشت گردوں کی جانب سے پے دَرپے حملے کیے جارہے تھے،حکومت نے اوّل اوّل دہشت گردی پر قابو عسکریت پسندوں سے مذاکرات کی صورت ڈھونڈا تھا۔ اس کا فیصلہ ستمبر دوہزار تیرہ میں آل پارٹیز کانفرنس میں کیا گیا۔ توانائی بحران پر فوری قابو پانا قطعی ممکن نہیں تھا، یوں حکومتی اقدامات کے باوجود بجلی کی طویل بندش کے ہاتھوں عوام کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوتا چلا گیاتھا۔ہر طرف سے تنقید شروع ہو گئی تھی۔فیصل آباد جہاںمسلم لیگ نواز کا بہت زور تھا ،کے صنعتکاروں نے ایک موقع پرعابد شیر علی کی خوب خبر لی تھی۔بجلی بحران کے حوالے سے ملک بھر سے ہونے والی تنقید حکومت کو بوکھلاہٹ کے حوالے کر گئی تھی۔حکومتی بوکھلاہٹ کا دوسراسبب دہشت گردی کا معاملہ تھا۔9ستمبر دوہزارتیرہ کو اے پی سی کے انعقاد سے 15 جون مذاکرات کا قصہ تمام ہونے تک کے درمیانی عرصہ میں حکومتی بوکھلاہٹ چند ایک واقعات میں نمایاں رہی تھی۔یہ حکومتی بوکھلاہٹ ہی کا نتیجہ تھا کہ مذاکراتی عمل کے دوران عسکریت پسندوں کو ریاستی سطح پر اسٹیک ہولڈر کا درجہ دیا گیا تھااوراسلام آبادایف ایٹ کچہری حملے کے بعد کالعدم تحریکِ طالبان سے اس واقعہ کے ذمہ داران کی بابت پوچھا گیاتھا ۔ حکومتی بوکھلاہٹ کا بھرپور آغاز کراچی ایئرپورٹ کا واقعہ ٹھہراکیونکہ یہ واقعہ مذاکراتی کہانی کو اختتامی موڑ دے گیا تھا۔ دہشتگردوں کے خلاف آپریشن کا فیصلہ جو کراچی ائیرپورٹ واقعہ کے فوری بعد ہی کر لیا گیا تھا ،حکومتی اراکین کے مابین تقسیم پیدا کر گیا تھا۔اُس وقت کے وزیرِ داخلہ چودھری نثار علی خان جو کراچی ائیر پورٹ واقعہ سے پہلے تک سیاسی منظر نامے میںسرگرم نہیں تھے ، شمالی وزیرستان آپریشن کے خلاف تھے۔جبکہ کچھ دیگر وزراء جو اس فیصلے کے حق میں تھے ،کے درمیان فاصلے پیدا ہوگئے تھے،جس سے حکومتی سربراہان کے ہاں بوکھلاہٹ پیدا ہو گئی تھی۔پرویز مشرف کے معاملے میں بھی حکومتی بوکھلاہٹ کا مظاہرہ سامنے آیا تھا۔مشرف کے معاملے میں بھی حکومتی اراکین دو حصوں میں بٹے ہوئے پائے گئے۔ پی ایم ایل این کے وزیرِ داخلہ چاہتے تھے کہ مشرف کو بیرون ملک جانے دینا چاہیے ۔مگردوسری طرف اُس وقت کے وزیرِ دفاع اور وزیرِ ریلوے نے بھی زور دار بیانات کا سلسلہ جاری رکھا ہوا تھا۔ ہردو کے بیانات سے پاک فوج کے ہاں تشویش پائی گئی تھی ۔یہ بیانات حکومت اور فوج کے درمیان دُوری کا سبب بنے تھے،جس کا احساس حکومت کو بھی تھا ، جبھی باربار کہا جاتا رہا کہ حکومت اور فوج ایک صفحے پر ہیں۔انھی دنوں یہ خبریں گردش کرتی رہیںتھی کہ چودھری نثار کے اپنی حکومت سے تعلقات درست نہیں ہیں۔اُنھی دِنوں میں سے کسی ایک دن عمران خان نے ایک نجی چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا تھاکہ حکومت کے پاس اگر کوئی کام کا بندہ ہے تو وہ نثار علی خان ہیں۔ تحریکِ انصاف کے سربراہ کے بیان سے چودھری نثار اور حکومت کے مابین تعلق کی نوعیت کا ادراک کیِا جاسکتا تھا۔ہم نے کالم کی ابتدائی سطروں میں کہا تھا کہ دوہزار تیرہ میں منتخب ہونے والی حکومت اپنے لیے دو بڑے چیلنج دہشتگردی اور انرجی بحران محسوس کرتی تھی ۔اُن لمحوں میں حکومت کو سیاسی عدمِ استحکام کے چیلنج کا احساس نہ ہو سکا تھا اور بعدازاں حکومتی بوکھلاہٹ کا سب سے بڑا ذریعہ سیاسی نظامِ عمل میں عدمِ استحکام بنا تھا۔ لاہور ماڈل ٹائون کا واقعہ اورطاہر القادری کا ردِعمل حکومتی بوکھلاہٹ کی بڑی مثال بن گیا تھا۔ جس صبح طاہر القادری کے طیارے نے اسلام آباد ایئر پورٹ پر لینڈ کرنا تھا، اُس رات اسلام آباد کے تمام داخلی راستوں کو بند کردیا گیا تھا ۔ بعدازاں اُن کے طیارے کو اسلام آباد سے لاہور بھیج دیا گیا تھا۔11مئی 2014 کو عمران خان نے اسلام آباد جبکہ طاہر القادری نے راولپنڈی سمیت ملک کے مختلف شہروں میں دھرنے اور احتجاج کا اعلان کر رکھا تھا مگر حکومت نے بوکھلاہٹ کی وجہ سے تحریکِ انصاف کو احتجاجی جلسے کی مشروط اجازت دی تھی۔عمران خان نے تو حکومت کو پہلے دن سے ہی سکھ کا سانس نہیں لینے دیاتھا ۔ عمران خان کے مطالبات میں شدت گیارہ مئی 2014کے اسلام آباد جلسے سے آئی تھی ۔پھر جلسوں کا ایک سلسلہ چل پڑا تھا۔سیاسی سطح پر حکومتی بوکھلاہٹ میںعمران خان کے بعد سب سے زیادہ حصہ طاہرالقادری نے ڈالا تھا۔ ہم یہاں موجودہ حکومت کی جانب کی طرف آتے ہیں۔حکومتی اقتدار کے لگ بھگ اِن تین سال میں ایسے کئی مواقع آئے ،جہاں حکومت کا گھبرانا اور بوکھلاہٹ میں مبتلا ہونا بنتا تھا ،مثال کے طورپر اسدعمر سے خزانہ کی وزارت نہ سنبھالی گئی اور آئی ایم ایف میں تاخیر سے جانے کا خمیازہ معیشت کو بھگتنا پڑا،مگر حکومت نہ گھبرائی ،اسد عمر کو منصب سے محروم کیا گیا تو وہ خوشی سے پھولے نہ سمائے۔اسی طرح حکومت اپنے سو دِن کے اہداف کے تعاقب میں بُری طرح ناکام ہوئی ،مگر کسی طرح کی بوکھلاہٹ محسوس نہ کی گئی۔مزید بھی کئی مثالیںدی جاسکتی ہیں۔تازہ ترین صورتِ حال میں ایک صفحہ سلامت رہتا دکھائی نہیں دے رہا ،مگر حکومت اس طرح مطمئن ہے کہ جس کی کوئی مثال نہیں۔مہنگائی نے عوام کا جینا دوبھر کردیا ہے ،بے روزگاری نے نوجوانوں کو پریشان کررکھا ہے ،مگر حکومت کو اس کا ادراک ہی نہیں ۔حکومت کا یہ رویہ سب سے زیادہ خطر ناک ہے ۔جو حکومت گھبرائے گی نہیں اور بوکھلاہٹ زَدہ نہیں ہوگی تو اِس کا مطلب ہے کہ اُس کے نزدیک سب کچھ ٹھیک چل رہا ہے۔ایسی صورت حال میں پھر حکومت سے کسی بہتری اور عوام کی فلاح کی توقع نہیں کی جاسکتی۔