ایک چوہا کسی جنگل میں بھوک کی مصیبت سہتا تھا لیکن آزادی سے رہتا تھا۔ نہ کسی دشمن کا ڈر اور نہ ہی کسی چیز کا خطرہ۔ایک دن قصبہ سے چوہے کا ایک مہمان آیا اور جنگل میں دو روز گزارنے کے بعد اس چوہے سے بولا۔’’ تمہاری زندگی قابل افسوس ہے۔ فاقوں مرتے ہو اور روکھی سوکھی کھاتے۔ چلو تم میرے ساتھ میرے گھر، وہاں تمہیں مرغن غذائیں، گھی، دودھ، پستہ، بادام، گری اور اخروٹ وغیرہ کھلاؤں گا۔’’ جنگل کے چوہے کے منہ میں پانی بھر آیا۔ بڑا خوش ہوا۔ اس کے ساتھ تیاری کرکے اس کے گھر قصبہ میں آ گیا۔ ہر طرف عیش و عشرت کا سامان دیکھ کر خوشی سے پاگل ہو گیا۔ اچھی اچھی چیزوں پر ٹوٹ پڑا اور دل میں کہتا جاتا تھا کہ اب کبھی جنگل میں نہ جاؤں گا۔ رات دن یہیں رہوں گا اور مزے اڑاؤں گا۔ ابھی وہ مزے لوٹ ہی رہا تھا کہ ایک بچہ اندر آیا۔ اس نے چوہا دیکھا تو ایک پتھر اٹھا کر مارا۔ اگر جنگلی چوہا بھاگ کر بل میں نہ گھس جاتا تو اس کا کچومر نکل جاتا۔ تھوڑی دیر کے انتظار کے بعد جنگلی چوہا گری بادام کے مزے کے لیے دوبارہ باہر نکل آیا۔ بڑی احتیاط سے گری بادام کی طرف سرکنا شروع کیا۔ ابھی اس نے گری پر دانت جمائے ہی تھے کہ دوبارہ دروازہ کھلا اور آنے والے نے پھر پتھر پھینکا۔ چوہے کی قسمت اچھی تھی کہ نشانہ چوک جانے سے پھر بچ گیا اور بھاگ کر بل میں چھپ گیا۔ مارے ڈر کے اس کا برا حال ہو رہا تھا۔ اپنے دل میں کہنے لگا کہ لعنت ہے ایسی گری بادام کھانے پر جس میں جان جانے کا ڈر ہو۔ ایسا عیش بیکار ہے جس میں جینا دشوار ہے۔ جنگل میں تو مجھے کچھ خوف نہ تھا۔ روکھی سوکھی ہی سہی لیکن حرام موت مرنے کا کوئی ڈر نہ تھا۔ جو مزا آزادی میں ہے وہ کسی چیز میں نہیں ہے۔ یہ کہہ کر وہ چپکے سے جنگل کی طرف روانہ ہو گیا۔ حاصل کلام: آزادی سب سے بڑی نعمت ہے۔ غلامی میں سونے کے نوالے کس کام کے جہاں ہر وقت موت کا ڈر خوف ہو۔