مرزا نوشہ نے کہا تھا: کیوں گردش مدام سے گھبرا نہ جائے دل انسان ہوں پیالہ و ساغر نہیں ہوں میں واقعتاً کچھ ایسا ہی ہے‘ زندگی اسی کا نام ہے اک پل چین نہیں۔ کچھ زمین گردش میں ہے اور کچھ ہمارے پائوں میں چکر ہیں۔ ہمیشہ ایسا ہی لگتا ہے منیر نیازی کی طرح’’ایک اور دریا کا سامنا تھا منیر مجھ کو۔ میں ایک دریا کے پار اترا تو میں نے دیکھا‘‘یہ چیلنجز سب کے راستے میں کب آتے ہیں یہ بھی خوش قسمتی ہے مگر ایسے میں ہی جوہر کھلتے ہیں۔ لیکن یہ فطری بات ہے کہ مسافر تھک بھی جاتا ہے مگر کچھ راہ رو کو راہ منزل ہوتی ہے: ہم رہروان شوق کی منزل کوئی نہ تھی منزل بنے ہیں نقش ہمارے دھرے ہوئے مجھے کچھ پتہ نہیں کہ میں کیا لکھنے بیٹھا ہوں۔ بندے کے اختیار میں کچھ نہیں بس سب کچھ ایسے چلتا جا رہا ہے مگر ایسے بھی نہیں کچھ اختیار آپ کا بھی تو ہے کہ اچھائی اور برائی آپ میں الہام کر دی گئی ہے جسے اختیار کرنے کے لئے عقل و دل آپ کو دے دیے گئے ہیں۔ بات یہ اپنی جگہ مگر جب انسان اپنے اردگرد پھیلی کائنات کی پہنائیوں‘ گہرائیوں اور وسعتوں کو دیکھتا ہے تو کچھ گھبرا سا جاتا ہے اور یہ فطری بات ہے آپ جتنا غورکرتے جائیں اور سوچتے جائیں اتنا ہی آپ بے وقعت ہوتے دکھائی دیں گے کتنے آئے اور کتنے گئے۔ آخر کو پھر سب غالب کی طرح ہی کہنے پر مجبور ہوئے: غالب خستہ کے بغیر کون سے کام بند ہیں روئیے زار زار کیا کیجیے ہائے ہائے کیوں وہی کہ ناگزیر لوگوں سے قبرستان بھرے ہوئے ہیں۔ دوسری طرف دیکھیے کہ آپ کے بغیر کائنات میں یہ کیا کون شہادت دے گا’’منظور تھی یہ شکل تجلی کو نور کی قسمت کھلی ترے قدو رخ پر ظہور کی‘‘ یہ سب کچھ کس کے لئے کیا گیا’’سجنا اے محفل اساں تیرے لئی سجائی اے۔ پھر انسان کو شرمندہ احسان ہی نہیں سراپا شکر گزار ہوجانا چاہیے ۔ انسان کا تعارف کیا ہے: یہ اپنی حد سے نکل کر حدود ڈھونڈتی ہے یہ خاک باردگر بھی قیود ڈھونڈتی ہے بہارہو کہ خزاں ہونہیں ہیں میرے بغیر یہ کائنات تو شاید شہود ڈھونڈتی ہے خوف تو آتا ہے‘ ڈر تو لگتا ہے اور انسان کانپتا تو ہے جب پڑھتا ہے کہ وہ آزمایا جائے گا۔ اس کا امتحان تو ہو گا وہ تو امتحان گاہ کو پناہ گاہ سمجھ بیٹھا‘ وہیں ڈیرہ لگانے کی ٹھان لی۔ اس کے گمان نے وہم کو حقیقت بنا کے دکھا دیا۔ پھر وقت اس کو یاد دھانی کرواتا ہے۔ چند لمحے جو ملے مجھ کو ترے نام کے تھے سچ تو یہ ہے کہ یہی لمحے مرے کام کے تھے یقین کرنا ہی پڑتا ہے کہ وہاںذرہ برابر نیکی اور ذرہ برابر بدی سامنے آ جائے گی اسی طرح انفاق کے بارے میں ہے کہ جو خرچ کر دیا گیا یعنی اللہ کے راہ میں دے دیا گیا وہی بچ گیا۔ زکوٰۃ سے پیسہ بڑھتا ہے بھئی حساب آپ کا الٹ بتاتا ہے کہ دولت کم ہوتی مگر حقیقت میں بڑھتی ہے یہ سب کچھ معاشرے کو خوبصورت بنا دیتاہے ایثار اور قربانی سب کچھ اسی رویہ میں ہے اور اللہ اسی کا فروغ چاہتا ہے یہی کردار سازی ہے اور شخصیت کا حسن ہے وگرنہ سود پر مدار کرنے والے غیر فطری زندگی کرتے ہیں جس میں لالچ ہوس اور ظلم کے سوا کچھ نہیں۔ یہ دوسرے کی زندگی اجیرن کرنے والی بات ہے اس کے مقابلے میں قرضہ حسنہ کی فضیلتیں اور برکتیں جب سامنے آتی ہیں تو بندہ شکرانے کے لئے سجدہ ریز ہو جاتا ہے۔ یہی انسانیت ہے جس کی اساس پر وہ اشرف المخلوق کہلایا۔ دوسری طرف شیطانی استحصالی نظام اجاگر کیا۔ وہی کہ سود ایک کالا کھوں کے لئے مرگ مفاجات۔ ازرباآخر چہ فی زائد؟ فتن بے خبر از لذتِ قرض حسن یعنی سودے سے کیا فائدہ کہ اس سے فتنہ کے سوا کچھ حاصل نہیں۔ جبکہ قرض حسنہ سے لذت حاصل ہو گی لوگ اس سے بے خبر ہیں سود کتنا بڑا جرم اور ظلم ہے کہ اللہ نے اسے اپنے اور اپنے رسولؐ کے ساتھ جنگ قرار دیا ہے۔ بات یوں ہے کہ سوچنے بیٹھو تو راست رسائی میں خیر ہی خیر نظر آتی ہے کیوں نہ ہو کہ خالق کو مطلوب ہی یہ ہے وہ کہتا ہے کہ ہو گا وہی جو وہ چاہے گا اور جو تو اپنی چاہت کے پیچھے بھاگے گا تو تھکا دیا جائے گا ۔جو رزق کی لالچ کچھ زیادہ ہی کرتے ہیں تو ان کا رزق بھی مرغی کے دانوں کی طرح بکھر جاتا ہے اور وہ چنتے چنتے تھک جاتے ہیں۔ یہ بات عجیب سی بھی لگتی ہے کہ بعض اوقات تحریر آپ کے بس میں نہیں رہتی ۔کتنا عوامی سا شعر ہے مگر کتنا بلیغ ہے: کرو مہربانی تم اہل زمیں پر خدا مہرباں ہو گا عرش بریں پر