کوئی شائبہ اب باقی نہیں رہا ‘مغرب کے مذہبی جنونی اپنی تاریخ کی پرانی سیاہی سے دہشت گردی کی نئی تاریخ رقم کر رہے ہیں۔ یہودیوں کی تاریخی زہرناکیاں اور نصاریٰ کی صلیبی جنگیں اپنی سیاہ ناکی کبھی بھی تاریخ کے اوراق سے محونہیں کر سکتی ہیں۔ دلوں میں دہشت ناک کی آگ اس طرح سے بھری ہوتی ہے کہ مسلمانوں سے نفرت کا الائو کبھی بھی مدھم نہیں ہوتا۔ان کی حکومتیں ان کے دانشور اور ان کے سیاستدان اپنی سوچ کے محدود دائرے کے اسیر ہیں۔ دہشت گردی‘ قزاقی‘ مظلومیت‘ محرومیت کے مغربی پیمانوں میں مشرق اور مسلمان بہرحال درجہ دوم سے لے کر درجہ چہارم تک کے شہری قرار پاتے ہیں۔ 9/11کی واردات میں ان کا قصہ حیرتناک حد تک منافقانہ تھا۔ بغیر تحقیق اور بغیر درست فیصلے کے ان لوگوں نے اپنا بدگمان رویہ پوری دنیا کے لئے جواز فساد بنا لیا تھا اور قدرتی دولتوں سے آباد اسلامی ممالک کو اپنی ہوس رانی کا ہدف بنائے ہوئے پاکستان اور افغانستان میں جنگ کا جنونی ڈرامہ شروع کیا‘ ان کا یہ مزاحیہ‘ طنزیہ ‘ طربیہ بھیانک اسلحہ بیچنا ان کا رزق کارڈ تھا اور مداری تھے یہ لوگ جن کے ہاتھ میں بین الاقوامی سیاسی عمل کی جدول ہمیشہ ہی رہتی ہے۔ عراق کو پامال کیا۔ شام میں ابھی تک اپنی ابلیسی سیریز کامیابی سے چلا رہے ہیں۔ لیبیا کا تاریخی حشر دنیا نے دیکھ لیا۔ ایران سے پنجے لڑاتے ہیں اور کبھی گھورتے ہیں۔ البتہ ایک مزاحمت ان کی دندان شکنی کو آلام زدہ کرتی ہے کہ ان کا مذہبی استحکام اور عسکری یکجہتی مغرب کو پسپائی کی طرف موڑتی ہے۔ باقی کس کس دست آموز طاہران بے پر کا ذکر کریں جو ہمہ حالات مغرب کو اپنا قبلہ حرکت بنائے رہتے ہیں۔پاکستان اور پاکستان کا ہر دگرگوں لمحہ ان کے لئے نئی مشق کا لقمہ آسان نظر آتا ہے۔ کسی چور کو تھپکی دی‘ کسی ڈاکو کو اشارہ ابرو سے نئی ہدایات جاری کیں اور جو کسی قدیم منافق کو آشیر باد بخشتے۔ کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کرتے‘ ایک مستقل کام اور دنیا کو فتح کرنے کا مسلسل عزم ان ابلیسی طاقتوں کو نچلا نہیں بیٹھنے دیتا،جس بدبخت نے اپنے طے شدہ دماغی ارادے اور بھر پور جذباتی تعصب سے مسلمانوں کی عبادت گاہ اور مسلمان عبادت گزاروں پر جبرو ظلم کا مظاہرہ کیا اور معصوم بچوں کو ذبح کیا اس سانحے کا ہر زاویہ دردناک ہے۔ شرمناک ہے اور انسانی احساس کے ہر پہلو پر الم در الم کا گہرا اثر ہے۔ اگر مذہبی حساسیت بیدار ہے تو ہر مسلمان کا دل بے تابی‘ اضطراب اور افسوس میں مبتلا ہی نہیں۔ اعضاء جو ارح متحرک ہونے پر پوری طرح سے آمادہ ہیں اور اگر انسانیت کی رمق کسی بھی آدم زاد میں متحرک ہے تو پوری انسانی برادری میں اپنی بقا اور مستقبل کے خدشات کا تازہ احساس پایا جانا فطرت کی آواز ہے۔ فطرت کی آواز اور فطرت کی حرکیت کا اپنا زاویہ کار ہے۔ اپنی اپنی جگہ تسلسل سے وہ مسائل بہ عمل ہیں۔ منظر نامہ تبدیل ہو گیا۔ ویلنگٹن کی ایک محدود کائنات میں اشک شوئی کا مہذب سلسلہ جاری ہے۔ اخلاقی اقدار کا پاس کرتے ہوئے ان کی وزیر اعظم نے فسادات کے آگے دانشمندی سے حوصلے اور صبر کا پل باندھا ہے۔ خیالات کا رخ مغربی دانش کی خاموش اور گہری حکمت کا سہارا لے کر موڑ دیا ہے۔ رخ بدل گیا ہے۔ مغربی پریس آتا ہے ہم پھر وہی فکری کاسہ لیس‘ ادھار کی بات پر ہوائی محلات بنانے کے پرانے خوگر‘ ہمارے قلم باز بلے بازوں سے زیادہ قوت سے الفاظ کی گیند اچھالنے کے کھلاڑی ہیں۔جیسنڈرا کو سلاموں کا سلسلہ لامتناہی ہے۔ تازہ واردات کراچی میں کروا ڈالی اور مغرب کا پریس پوری ڈھیٹ توانائی‘ دھیمے لہجے اور اعتماد سے مفتی تقی عثمانی کے حملے کو اچھال رہا ہے کہ تمہارے اپنے کون ہیں کہ جو تمہارے اسلامی ملک میں تمہارے مقتدر عالم دین کے قتل پر آمادہ ہیں۔ عالم دین مراکز دینی کا خود وجود ماسکہ ہوتا ہے۔ تمہارے ہاں تو مرکز دین کو سرراہ قتل کیا جاتا ہے اب بحث کا رخ بدل گیا۔ مغرب نے واردات کی بساط اور وسیع کر دی ہے کچھ تبصرہ نگاہ بھولے بادشاہ ہیں اور کچھ قلمکار مقروض ہیں۔ کسی کا قلم پرانی روشنائی پی کر سانس لیتا ہے۔ بے ڈھنگ ڈھولچی تماشہ دکھانے کے لئے ایک ہاتھ سے ڈھول پیٹے جا رہے ہیں کہ مغرب میں اخلاقی برتری برقرار ہے۔ جھوٹ کے طومار باندھنے کے لئے سوچ کے ہوائی شامیانے تانتے ہیں اور ہر جا بے جا بات پر قوم کو گمراہ کرنے کا مغرب ہدایت پر مبنی بیانیہ آواز رقت بن جاتی ہے۔ سمجھوتہ ایکسپریس کے 40مسلمان شہداء کے چار قاتل بری ہو گئے۔ 80مسلمانوں کا قاتل تو ایک ہے۔ جنون پروری کا مارا تھا۔ اتنا غلیظ اور گھنائونا اقدام کر ڈالا اب ان کی عدالت میں اس کی جنون کیفیت کو مکمل پاگل پن قرار دینے کے وہ دلائل بیان ہونگے کہ مشرق اور مسلمانوں کا ایک عقل باختہ گروہ تسلیم کرے گا کہ ہم دلائل کو تسلیم کرنے پر مجبور ہیں۔ وہاں کے دستور کا حوالہ ہو گا۔ عدالت کے احترام کا غلغلہ ہو گا۔ بات ختم ہو جائے گی۔ مغرب پھر زندہ باد رہے گا۔مسلمان حکمران اکیلے ہی تو ان حالات کے ذمہ دار نہیں ہیں ۔ بہت سے قزاقوں نے ان کے گرد گھیرا ڈالا ہوا ہے۔ دین فروشی کے خود پرست ماہرین نے ان کو ظل اللہ بنا کر مسند اقتدار کیا ہے۔ کچھ فتویٰ فروش اپنی زنبیل میںسوائے مدحت شاہ کے کچھ اور مواد رکھتے ہی نہیں۔ واعظ خوش بیان مخمور ہے کہ لغت حجازی کو اپنے فنکاری کے لہجے میں دیکھ کر منافقت و بے عمل اور غلط فکر کی شراب تیار کرتا ہے۔ نوجوان مست بچے خوش‘ بوڑھے گناہوں سے پاک جنت میں داخلے کا انتظار کر رہے ہیں کشمیر بھول گئے۔ ہندوستان کی جارحیت کے خدشات بھی ذہن سے محو ہو گئے۔ واشنگٹن ڈور ہلا رہا ہے اقوام متحدہ ‘ اقوام مغرب کی اقوام متحدہ ہے۔ اس لئے اقوام متحدہ ہے کہ الکفر ملۃ واحدۃ۔ ٹرمپ فرعون وقت ہے۔ چالاک کفر ضمیر اور مغربی مسلم دشمن فکر کا متحرک نمائندہ ہے۔80مسلمانوں کا قاتل فرعون وقت کی داد کا سب سے بڑا مستحق ہے او آئی سی ‘ عزتوں‘ دولتوں‘ شہرتوں کا بنام دین ایک مردہ ادارہ ماتم کیجیے۔