حکمرانی کے جوہر دکھانے‘تبدیلی لانے اور پاکستانی عوام کی تقدیر بدلنے کے لئے جتنے سازگار حالات جناب عمران خان کو ملے ہیں اتنے ماضی قریب بلکہ ماضی بعید کی سول حکومتوں کو نہ ملے تھے۔ پچھلی کی دوہائیوں سے جاری دہشت گردی کا خان صاحب کے برسر اقتدار آنے سے پہلے ہی بڑی حد تک خاتمہ ہو چکا تھا۔سوائے مولانا فضل الرحمن کے ساری اپوزیشن منقارزیر پر ہے۔ جب انصاف گھر کی دہلیز پر تو کجا ،خستہ حال عوام کو لاکھ جتن کے بعد بھی نہیں ملتا اور خان صاحب کے ریاست مدینہ کے دعوے دھرے کے دھرے رہ جاتے تو وہ اپنا سارا غصہ میڈیا پر نکالتے ہیں۔ پہلے وہ ریگولر میڈیا کے پر کاٹنے کے درپے تھے۔ اب سوشل میڈیا کی باری آ گئی ہے۔ جناب عمران خان کو اچھی طرح اندازہ ہو گا کہ جیسے ہوا کو مٹھی میں بند نہیں کیا جا سکتا اسی طرح خبر کو پابند سلاسل نہیں کیا جا سکتا۔ آج تو شب و روز کی ہر ساعت میں خبروں کے پھیلنے کے سینکڑوں ذرائع ہیں۔ تب خبر کو پھیلنے سے نہ روکا جا سکتا تھا آج کس کس ذریعہ ابلاغ پر پابندی لگا کر خبر کو پابہ جولاں کیا جائے گا۔ بقول ڈاکٹر خورشید رضوی : آنکھ میچو گے تو کانوں سے گزر آئے گا حسن سیل کو دیوار و درسے واسطہ کوئی نہیں خان صاحب تو پاکستانی میڈیا کے انتہائی قدر داں تھے اور بار بار یہ اعتراف بھی کر چکے ہیں کہ انہیں اس منصب عالی تک پہنچانے میں میڈیا کا بڑا مرکزی کردار ہے۔اس وقت آزادی تحریر و تقریر کے حوالے سے عرب دنیا میں بھی سوشل میڈیا پر ایسی قدغنیں نہیں جیسی پاکستان میں عائد کرنے کی تیاری کی جا رہی ہے۔ غیر جمہوری حکمران بھی پریشر ککر میں موجود سیفٹی والو کی اہمیت سے بخوبی آگاہ ہیں۔ وزیر اعظم کے مشیروں اور ترجمانوں کو شاید معلوم نہ ہو مگر خان صاحب کو تو ادراک ہو گا کہ آہ پر پابندی عائد کی جا سکتی ہے نہ فریاد کو بلند ہونے سے روکا جا سکتا ہے۔ برسوں پہلے اسداللہ غالب نے یہ حقیقت حکمرانوں کو سمجھا دی تھی: فریاد کی کوئی لے نہیں ہے نالہ پابندِ نے نہیں ہے نہ جانے سوشل میڈیا پر قدغن جناب وزیر اعظم کی اپنی اختراع ہے یا ان کے دانش مند مشیروں کا مشورہ ہے۔ تحریک انصاف کے یہ دانا دوست اس شاخ کو کاٹنے کا مشورہ دے رہے ہیں جس شاخ پر اس جماعت نے آشیاں بندی کی تھی اور پاکستان کی سیاسی تاریخ میں پہلی مرتبہ سوشل میڈیا مہم ہی کے ذریعے متوسط کلاس سے تعلق رکھنے والے لاکھوں افراد اور نوجوانوں کی بڑی بھاری کھیپ نے تحریک انصاف کی طرف رجوع کیا تھا۔ سوشل میڈیا پر قدغن کی ضرورت نہیں البتہ پارلیمنٹ سے ایک متفقہ قانون پاس ہونا چاہیے کہ کسی شخص کی پگڑی اچھالی جائے گی اور نہ ہی اس کی ذاتی زندگی کے حوالے سے کردار کشی کی جائے گی۔ ایک اور تشویشناک بات یہ ہے کہ بڑے بڑے چیلنجز کو پس پشت ڈال کر جناب خان صاحب اپوزیشن کے ساتھ محاذ آرائی کے شعلوں کو نہ صرف دھیما کرنے کی طرف نہیں آ رہے ہیں بلکہ شعلوں کو مزید ہوا دے رہے ہیں۔ دو تین روز قبل خان صاحب نے فرمایا کہ مولانا فضل الرحمن پر آئین کے آرٹیکل 6کے تحت بغاوت کا مقدمہ قائم ہونا چاہیے۔اس سے تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ وزیر اعظم نے آئین کے آرٹیکل 6پر ایک نظر ڈالنے یک بھی زحمت نہیں فرمائی۔ آئین کے آرٹیکل 6اس وقت لاگو ہوتا ہے جب کوئی طاقت استعمال کرے یا دیگر ذرائع سے آئین کی تنسیخ کرتا ہے یا اسے معطل کرتا ہے۔ یہ اس کے التواء کا باعث بنتا ہے۔ مولانا نے تو اسلام آباد آ کر آئین کی بالادستی اور سربلندی کی بات کی تھی۔ ذرا ذرا سے سیاسی اختلاف پر سیاسی مخالفین کو سکیورٹی رسک یا باغی قرار دینا کوئی قابل تحسین مشغلہ نہیں۔ اس وقت پاکستان کو بڑے بڑے چیلنجز کا سامنا ہے جن میں خارجی چیلنجز بھی ہیں اور داخلی بھی۔ محسوس یہ ہوتا ہے کہ بوجوہ ’’عرب و عجم‘‘ آمنے سامنے ہیں۔ ہمارے سعودی عرب کے ساتھ قلبی و اقتصادی تعلقات ہیں جبکہ ترکی کے ساتھ بھی ہمارے دیرینہ دینی و سیاسی تعلقات ہیں۔ ترکی کے ساتھ یہ تعلقات تقسیم ھند سے پہلے کے ہیں جو قیام پاکستان کے بعد انتہائی برادرانہ روابط کی حیثیت سے مزید مستحکم ہو چکے ہیں۔ ہم عرب و عجم‘ کی اس سرد آویزش میں کسی طرح بھی ایک جانب نہیں جھک سکتے اور نہ ہی ہمیں غیر جانبدار رہنا چاہیے بلکہ ہمیں بھائیوں کے درمیان رنجشوں یا غلط فہمیوں کو دور کروا کے او آئی سی کو اس مقام پر لے آنا چاہیے۔ جس مقام پر یہ شاہ فیصل بن عبدالعزیز کے زمانے میں تھی۔ اسی طرح ہمارے امریکہ اور چین کے ساتھ تعلقات کا معاملہ ہے۔ امریکہ کے ساتھ پرانے روابط ہیں جبکہ چین ہمارا سیاسی و اقتصادی حلیف ہے۔ سب سے بڑھ کر کشمیر کا مسئلہ ہے اس کے لئے دنیا میں ایک سازگار فضا بن چکی ہے۔ اس سے فائدہ اٹھانے کی ضرورت ہے۔ اس تناظر میں اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل آنتو نیوگوتریس کا چار روزہ دورہ پاکستان بہت بڑی اہمیت کا حامل ہے اور داخلی محاذ پر اقتصادی صورت حال انتہائی تشویشناک ہے۔ اس سب داخلی و خارجی محاذوں پر اگر حکمران اپنی خواہشات کو بھلا کر اپوزیشن کے ساتھ مفاہمت و مشاورت کے ساتھ کام لیں گے تو اسی میں ملک و قوم کا بھلا ہے۔