اگست 2018ء میں کپتان کی حکومت اقتدار میں آئی تو گویا، امیدوں اور خوابوں کا ایک جہان تھا جو مسندِ اقتدار پر براجمان ہوا۔ امیدوں اور خوابوں کی یہ دنیا تبدیلی کی خواہش سے جڑی ہوئی تھی۔ پورا ایک برس گزر گیا۔ 12مہینے اور ان بارہ مہینوں میں، اڑتالیس ہفتے گزرے یعنی پورے تین سو پینسٹھ دن۔ ایک ایک کر کے ان آنکھوں میں خوابوں کی ریت اڑاتے چلے گئے جنہوں نے بعد اہتمام تبدیلی کے خواب دیکھے تھے۔اور اب ایک برس کے بعد یوں لگتا ہے جیسے اور کچھ تبدیلی ہوا ہو یا نہیں۔ لفظ ’’تبدیلی‘‘ کے Connotativeمعنی ضرور بدل گئے ہیں۔ لفظ کے دو طرح کے معنی ہوتے ہیں ایک وہ جو معنی لغت میں موجود ہوں۔ اسے ہم Dennotative Meaningکہتے ہیں مثلاً گھر۔ ہوم ایک لفظ ہے لغت میں اس کا معنی ہے وہ جگہ جہاں ہم رہتے ہیں۔ گھر کے ساتھ جو احساس اپنائیت اور آرام کا جڑا ہوا ہے۔ وہ اس کے معنی کو وسعت دیتا ہے۔ انگریزی میں یہ جو ہم کہتے ہیں ’’فیل لائک ہوم‘‘ تو اس کا تصور یہیں سے نکلا ہے۔ انگریزی گانے کے یہ بول "I feel like home in your arms" میں ہوم کا لفظی معنی نہیں۔ بلکہ یہاں اس کا مفہوم اس لفظ کے ساتھ وابستہ احساس، اپنائیت اور قربت سے منسلک ہے یہ اس کا Connotative meaningہے۔ اتنی تمہید اس لیے باندھی کہ یہ بتا سکوں کہ اب تحریک انصاف کی ایک سالہ حکومت کی کارکردگی کے بعد لفظ تبدیلی کے کونوٹیٹو معنی بدل چکے ہیں۔ پہلے تبدیلی کا مطلب تھا۔ نیا پاکستان، جہاں مہنگائی نہیں ہو گی۔ غریب آسودہ حال ہو گا، جہاں قانون سب کے لیے برابر ہو گا جہاں، رشوت کرپشن بد دیانتی، اقربا پروری نہیں ہو گی۔ حکومت جو اعلان جو وعدے کرے گی انہیں حرف حرف پورا کرے گی۔ غرض کہ نئے پاکستان میں ہر شے نئی نویلی، اجلی، رشوت و کرپشن سے پاک ہو گی۔ اس کو بھولے عوام تبدیلی سے تعبیر کرتے تھے۔ عوام سمجھتے تھے کہ کپتان نے کہا ہے آئی ایم ایف سے قرضہ لینے سے بہتر ہے خود کشی کر لوں، تو وہ ہرگز آئی ایم ایف سے قرضہ نہیں لے گا۔ مہنگائی نہیں کرے گا۔ اگر کپتان اپنی تقریروں میں کہتا تھا کہ اگر پٹرول گیس اور ڈیزل کی قیمتیں بڑھیں تو سمجھ لیتا کہ وزیر اعظم چور ہے تو پھر خود کیوں ایسا کرے گا۔کپتان کہتا تھا کہ پی ٹی آئی کی حکومت کی ترجیحات میں تعلیم سرفہرست ہو گی۔ تعلیم سے قومیں اوپر جاتیں ہیں۔ ہیومن ریسورس پر پیسہ لگانا چاہیے تا کہ قوم بنے، لیکن جب تبدیلی کا وقت آیا تو عوام نے دیکھا کہ تبدیلی کا مفہوم ہی تبدیل ہو چکا تھا۔آئی ایم ایف سے قرضہ نہ لینے کے دعوے کرنے والوں نے پاکستان کی معاشی پالیسیوں سے وابستہ اداروں پر آئی ایم ایف کے ملازمین کو ہیڈ لگا کر اپنا پورا معاشی ایجنڈا ہی ان کو بنانے کے لیے دے دیا کہ جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے۔ غریب اور سفید پوش عوام کے لیے تبدیلی یہ آئی ہے کہ آئے دن گیس، ڈیزل، پٹرول، مٹی کے تیل کی قیمتیں بڑھ جاتی ہیں اور وہ بے چارے اپنی محدود آمدنی کی چادر ضرورتوں کے پھیلے ہوئے بدن پر کھینچ کھینچ کر پورا کرنے میں شب و روز گزارتے جاتے ہیں۔ آمدنی کی چادر ہے کہ روز سکڑ جاتی ہے۔ ٹیکس نیٹ بڑھانے کا ہنگام تو اٹھا۔ پِس بیچارہ غریب گیا۔ ہماری ایک ملازمہ بھی ایک روز کہنے لگی باجی ’’مہنگائی بوہت ودھ گئی ہے ہر چیز تے ٹے کس‘‘(ٹیکس) لا دتا اے‘‘ تعلیم ترجیحات میں تھی کہ تعلیم سے قومیں بنتی ہیں۔ اور جب تبدیلی کا موسم آیا تو عوام کو خبر ہوئی کہ تبدیلی کے نام پر ملک کی کئی بڑی یونیورسٹیوں میں موجود غریب طالب علموں کے لیے مخصوص سکالر شپ ختم کر دیئے گئے ہیں۔ چلیں پناہ گاہوں اور صحت کارڈ پر بات کر لیتے ہیں۔ حکومت کا دعویٰ ہے کہ انہوں نے اس ایک سال کے عرصے میں غریبوں کے لیے 114منصوبے آغاز کیے ہیں۔ کچھ لانچ ہو چکے ہیں جن میں صحت کارڈ اور پناہ گاہیں شامل ہیں۔ ہیلتھ کارڈ کے نام سے نواز شریف حکومت نے بھی ایک منصوبہ شروع کیا تھا۔ ایسے منصوبے عموماً فائلیں بھرنے کے لیے شروع کیے جاتے ہیں یا پھر اخباروں کی شہ سرخیاں بنانے کے لیے کہ کیسی غریب پرور حکومت ہے۔ زمینی حقائق یہ ہوتے ہیں کہ اس ملک میں جہاں 35سے 40فیصد آبادی خط غربت سے نیچے ہے وہاں چند سو افراد کو نواز دیا جاتا ہے جبکہ لاکھوں غریبوں کو ایسے انقلابی منصوبوں کی خبر تک نہیں ہوتی۔ ہاں وقتی طور پر خبریں ضرور بنتی ہیں اور حکومت داد ضرور سمیٹ لیتی ہے۔ پناہ گاہیں بہت اچھا منصوبہ ہے۔ انتہائی غریب بے گھر لوگ اس سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ اس میں بھی یہ نہیں ہونا چاہیے کہ چند پناہ گاہیں بنا کر دار سمیٹیں اور فائلیں بھر لیں۔ ایسی پناہ گاہوں کی ضرورت تو پاکستان کے ہر شہر اور قصبے میں ہے۔ تبدیلی کی صورتِ حال تو یہ رہی کہ ایک روز وزیر اعظم صاحب روٹی سستی کرنے کا اعلان کرتے ہیں اور اگلے دن پٹرول گیس کی قیمتیں بڑھانے کا اعلان فرماتے ہیں۔ اس کا نتیجہ یہی نکلتا ہے کہ روٹی سستی نہیں ہوتی۔ تندور والا ہر شے مہنگی خرید کر سستی روٹی کیسے دے سکتا ہے۔ روٹی تو مہنگی ہی رہی لیکن حکومت نے ایک اور اعلان داغ دیا کہ روٹی سستی نہ بیچنے والوں کے خلاف کارروائی ہو گی۔ اس پر بھی خبریں بنی۔ واہ واہ ہوتی کہ حکومت غریب کے مسائل سے غفلت نہیں برت رہی۔ یہ اور بات کہ اعلان تو اعلان ہی ہوتا۔ اس پر عمل درآمد کرنا ضروری نہیں۔ پنجاب میں ایک تبدیلی یہ آئی کہ پہلے صفائی کا نظام شہر میں قدرے بہتر تھا۔ عید قربان پر صفائی کی خصوصی ٹیمیں پورے شہر سے جانوروں کی الائشیں اٹھاتیں اور انہیں ڈسپوز آف کرتی تھیں۔ عام دنوں میں بھی صفائی کرنے والوں کی کارکردگی بہتر تھی جبکہ کہ اس بار تبدیلی یہ آئی ہے کہ ان علاقوں اور سڑکوں پر جہاں سے شہباز شریف کے دور میں عید قربان پر جانوروں کی الائشیں پڑی ہوئی کسی نے نہیں دیکھیں تھیں، وہاں بھی گندگی کے ڈھیر لگے رہے۔ دوسری طرف کروڑوں درخت لگا کر ماحول کو خوب صورت بنانے کے اعلانات ہو رہے ہیں۔ لفظ تبدیلی۔ کے Connotativeمعنی اب منفی ہو چکے ہیں۔ اس کے ساتھ یوٹرن لینا، امیدوں کا ٹوٹنا اور خوابوں کا نارسا رہ جانے کا احساس وابستہ ہو چکا ہے۔ ’’تبدیلی آ نہیں رہی۔ تبدیلی آ چکی ہے!‘‘ تبدیلی ضرور آئے گی ان جملوں کو کسی بھی محفل میں بول کر دیکھیں۔ مخاطب آپ کو طنزیہ مسکراہٹ سے دیکھنے لگے گا۔