پاکستان میں حکومت مخالف سیاسی اتحا د اور تحریکوں کی طویل تاریخ ہے، ان میں صرف دو تحریکیں حکومت ہٹانے کی کوششوں میں کامیاب ہوئیں، لیکن ان کی کامیابی اس لحاظ سے نامکمل رہی کہ یہ اتحاد متبادل حکومت نہ بن سکے اور دونوں دفعہ تحریکوں کا نتیجہ طویل مارشل لاء کی صورت میں نکلا، دونوں تحریکوں کے لیے اتحاد بنانے کا سہرا نوابزادہ نصراللہ خان کے سر تھا، حکومت مخالف تحریک چلانے والی اجتماع قیادت کا ذاتی کردار اجلا اور شکوک وشبہات سے بالاتر تھا، ان تحاریک میں اگرچہ بہت ساری سیاسی مذہبی سوشلسٹ اور قوم پرست خیالات ونظریات کی جماعتیں اور شخصیات شامل تھیں، لیکن نمایاں کردار اور ذمہ داریاں جماعت اسلامی کے ہاتھ میں رہیں،نصراللہ خان کا ہنر، سید مودودی کااحترام اور اصغر خان کی کشش دونوں اتحادوں کی اصل طاقت تھی، جماعت اسلامی کے تربیت یافتہ ، مخلص ، انتھک ، پرجوش اور بے لوث کارکن تھے۔ان کے ساتھ عبدالغفار خان اور ولی خان کے سرخپوشوں کی شمولیت نے صوبہ سرحد اور بلوچستان کے کارکنوں میں بجلیاں بھردیں، تحریکوں کے مقاصد واضح اور دلائل پر وزن تھے، ان کو طویل مدت جاری رکھنے میں جماعت اسلامی اور بائیں بازو کے کارکنوں کا جذبہ اہم عنصر ہونے کے باوجود اصل کامیابی کالج، یونیورسٹیوں اور سکول کے بچوں کے شامل ہونے سے ہوئی،ان طلباء کی شمولیت نے ہرگھرانے ، دیہات ، قصبے اور شہر کو متاثر کیا، طلباء کے ساتھ ہمدردی کرتے ہوئے ہر شہر کے وکلاء جوق در جوق نکل پڑے اور گرفتار یوں میںسدِّ راہ ہو گئے، کراچی ، لاہور ، پشاور، کوئٹہ ، حیدرآباد، فیصل آباد میں تو گویابغاوت پھوٹ پڑی، دکانداروں نے دکانوں کے دروازے بند کر دئیے، مزدور فیکٹریوں سے نکل آئے، صنعتکاروں نے اپنی دولت سے مدد کی، جیلوں حوالاتوں میں سیاسی کارکنوں کے لیے ضروریات زندگی کے ڈھیر لگ گئے، حکمرانوں کا گھروں سے نکلنا ناممکن بنادیاگیا، ممبرانِ اسمبلی دور دراز جاچھپے ، وزیروں کے نام بدنامی اور ٹھٹھے کا موضوع بن گئے، مہینوں کی جاں گسل مشقت اور سرفروشی کا نتیجہ حکومتوں کے خاتمے اور مارشل لاء کے آغاز سے ہوا، دونوں تحریکوں کے کچھ مشترک نکات ہیں،نصراللہ ، سید مودودی ، ائیر مارشل اصغرخان، طالب علموں کی شمولیت ،ملک بھر میں وکلاء کا مکمل تعاون ، ٹرانسپورٹ کی بندش ،حکومت کے عہدیدار اہلکار اور کارکنوں میں خوف وہراس اور مایوسی ملک بھر کے شہروں میں مسلسل جلسے جلوس ، تاجروں ، مزدوروں ، صنعتکاروں کا بھرپور تعاون، قیادت کرنیوالے لیڈروں کے کردار پر کوئی دھبہ نہیں تھا، مخالف اور متحارب نظریات یک جان ہوگئے، جن حکومتوں کو گرانا مقصود تھا وہ جبر ، ظلم اور سفاکی کی بدترین مثالیںبن چکی تھیں، قوم کے محرّک طبقات ان سے الگ ہوگئے، اندر سے نقب زنی بھی ہوئی ، پہلی تحریک میں بھٹونے ایوب خان کے خلاف نقب لگائی اور پھر بھٹو کے خلاف حنیف رامے اور مصطفی کھر نے یہی کام کیا۔ اب چند تحریکوں کا ذکر ہوجائے جو نقش جمانے میں ناکام ہوئیں، بے نظیر اور نصر اللہ خان کی قیادت میں ضیاء الحق کے خلاف ’’اے آر ڈی کی تحریک‘‘، دوسری نواز شریف کے خلاف عمران خان اور طاہر القادری کا دھرنا، تیسری پیپلزپارٹی کی حکومت گرانے کے لیے طاہر القادری کی کوششیں، چوتھی نواز شریف حکومت کے خلاف ’’تحریکِ لبیک‘‘ کی جارحانہ پیش قدمی۔ ان تحریکوں کی ناکامی کے مشترک نکات درج ذیل ہیں: اے آر ڈی کی تحریک میں بے نظیر کی کشش، نصراللہ خان اور جتوئی کا تجربہ تو شامل تھا مگر یہ تحریک صرف سندھ کے دیہی علاقوں تک محدود رہی، مذہبی ، قوم پرست اور دیگر دائیں بازو کے لوگ مدد کو نہیں آئے، سندھ کے شہروں نے بھی اس تحریک کی کوئی مدد نہ کی، قصبے اور دیہات میں اس کے اثرات بالکل نہیں تھے، یونیورسٹی ، کالجوں کے طالب علم حامی نہ بنے ، تاجر صنعتکار غیر متعلق رہے۔ دوسری تحریک میں عمران خان پرکشش اور پرجوش تھے، طاہر القادری کے کارکن سر بکف نکلے ، اسلام آباد ڈی چوک پرجوش نوجوانوں اور طاہر القادری کے مذہبی جنونیوں سے بھر گیا، ابتدا میں حکومت گھبرا اٹھی لیکن دیگر سیاسی اور مذہبی جماعتیں حکومت کے ساتھ جاملیں، طلباء نے اپنے کام سے ہاتھ نہیں کھینچا ، دوسرے شہروںمیں حالات پرامن رہے، کاروبار زندگی حسبِ معمول تھا، پھر بھی اس دھرنے کی خبریت ’’نیوز ویلیو‘‘ بے پناہ رہی، لیکن عام آدمی اس سے متاثر نہیں ہوا، طاہر القادری ایک بڑے مکتب فکر کے چھوٹے جز کی نمایندگی کرتے تھے، ان کے کارکن جتنے بھی مخلص اور پرجوش رہے، ان کی تعداد اور اثرات محدود تھے، عوام حتی کہ اس مکتبہ فکر کے بڑے بھی ان کی مدد کو تیار نہ تھے۔ اب آئیے مولانا فضل الرحمن کی قیادت میں بننے والے اتحاد ’’پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ‘‘ کی طرف، اس نومولود ’’پی ڈی ایم‘‘ کی دو بڑی کمزوریاں ہیں، پہلی کمزوری یہ ہے کہ جس حکومت کو گرانے کیلئے یہ اتحاد قائم ہوا نہ وہ آمرانہ ہے نہ ہی اس نے جبر قوت اور ظلم وسفاکی کا سہارا لیا، نہ ہی ہنگامی قوانین کے تحت سیاسی کارکنوں کو ہراساں کیا ، نہ یہ حکومت طویل عرصے سے حکمران ہے کہ لوگ اس سے تنگ آگئے ہوں، نہ بدعنوانی کے الزامات ہیں ، نہ ہی متحرک اور بااثر مفاداتی گروپ اس کے خلاف ہیں۔ دوسرا اہم مسئلہ اس اتحاد کے لیے خود عمران خان ہے، سارے اتحاد میں عمران خان سے پرکشش اور متحرک شخص کوئی نہیں، وہ اکیلا جب چاہے ، جس شہر اور قصبے میں جائے پورے اتحاد کے مقابلے میں زیادہ بڑا جلسہ اور جلوس بنا سکتا ہے، مجموعی طور پر تمام مذہبی جماعتیں اور مکتبہ ہائے فکر اس کے خلاف نکلنے کو تیار نہیں، فضل الرحمن کے پاس مطالبات کی فہرست میں اصل مطالبہ نئے انتخابات ہے ، عمران خان کو بھٹو اور ایوب خان کے برعکس نئے انتخابات سے کوئی خوف ہے نہ گھبراہٹ ، جب بھی انتخابات منعقد ہونگے ، یقینی طور پہلے کے مقابلے میں زیادہ کامیاب رہے گا، اس کے اپنے مفاد میں ہے کہ مارچ سے پہلے الیکشن میں جائے ۔وہ اپنی پارٹی اور اتحادیوں کی خواہش کے خلاف قدم اٹھانے سے گریزاں ہے ورنہ نئے الیکشن اس کی اپنی ضرورت ہے، اپوزیشن کی دو بڑی سیاسی جماعتوں کے ممبران اسمبلی کی کثیر تعداد الیکشن میں جانے سے گریزاں ہے، ان جماعتوں کو قیادت دستیاب نہیں، سیاست میں قدرے تحرک صرف نواز شریف کی وجہ سے ہوسکتا ہے، وہ بھی پنجاب جی ٹی روڈ کے اضلاع تک، مگر نواز شریف تاحیات نااہلی اور طویل سزا کے علاوہ بے شمار مقدمات میں مطلوب ہیں، وہ ہزار جتن حیلے بہانے سے نکلنے میں کامیاب ہوا ، کبھی سیدھ،سبھاؤواپس نہیں آئے گا، عمرا ن خان کے پاس کئی راستے کھلے ہیں، وہ مریم نواز کو پاکستان سے باہر جانے کی اجازت دے کر نواز شریف کی زبان بندی کرسکتا ہے، دوسرا وہ اپوزیشن سے’’ بلف‘‘ کھیل سکتا ہے، اگر وہ کہے کہ اپوزیشن کے صرف 70فی صد ممبران اسمبلی اسپیکر کے پاس اپنی استعفے جمع کروادیں تو میںنئے انتخابات کا اعلان کردوں گا، اس کے بعد ہر سیاسی جماعت کے منتخب ممبران کی اکثریت غاروں میں جاچھپے گی اور پیپلز پارٹی بلاتاخیر اس تجویز کی کھل کر مخالفت کریگی کیونکہ اس کا تحفظ اور روزی روٹی سندھ حکومت سے جڑی ہے، مولانا خود ملک بھر میں کسی بڑے اور متحرک گروپ کی نمائندگی نہیں کرتے ، ان کے پاس سرے سے سیاسی کارکن موجود ہی نہیں ، وہ مدرسے کے طالبعلموں پر انحصار کرتے ہیں،وہ ایک درمیانے درجے کے مذہبی فرقے کے محض ایک چوتھائی کے نمائندے ہیں، اس مکتبہ فکر کے تین چوتھائی الگ تھلگ یا حکومت کا حامی اور مددگار۔ان حالات میں مولانا کے پاس تحریک چلانے کیلئے ہے کیا؟ دو کسان تپتی دوپہر میں گرمی سے بے حال درخت کی چھاؤں میں آن بیٹھے، ایک بولا، دودھ سے بھرا کٹورا اور برف کا ایک ڈلہ ہو، اس میں مٹھی بھر شکر ڈالیں اور ستو ملائیں ، پھر انگشتِ شہادت دکھاتے ہوئے بولا، اس انگلی سے شکر اور ستو حل کرکے پئیں، آہاآہا…تو پھر مزہ ہے۔ دوسرے نے پوچھا ان سب چیزوں میں تمہارے پاس کیا ہے؟ کہا فی الحال ’’بس یہ انگلی‘‘۔