دھوپ اتری اشجار سے بھی دھوکہ کھایا یار سے بھی دل میں پھول کھلے تو پھر چھبنے لگے کچھ خار سے بھی غیر متوقع صورت حال کسی کیلئے عین متوقع ہوتی ہے۔ بس یہی طلسم کاری اور جادو توہی ہے جو سر چڑھ کر بولے۔ پہلے ایک چھوٹی سی نہایت دلچسپ بات۔ایک مرتبہ میرا چھوٹا بھائی احسان اللہ شاہ بتانے لگا کہ سفر کے دوران ایک شخص گاڑی میں سامنے کی سیٹ پر بیٹھا تھا۔ مجھے جیسے یقین ہو گیا کہ یہ شخص ہر صورت میں میری جیب کاٹے گا۔ وہ خاموش ہوا تو میں نے تجسس سے پوچھا ،پھر کیا ہوا؟ بھائی، پھر وہ واقعتاً جیب کاٹ کر لے گیا۔ ہم دونوں قہقہہ بار ہو گئے۔ اس نے کہا کہ پتہ نہیں میں کیسے غافل ہو گیا۔ بس یہ ہوتا ہے۔ کچھ روز تماشا لگا رہے گا کہ یوسف رضا گیلانی کیسے ہارے؟پرانا شعر یاد آ گیا: اس نے حق بات کو لوگوں سے چھپا رکھا ہے اک تماشہ سر بازار لگا رکھا ہے خان صاحب کو بھی جھٹکا لگ چکا اور پی ڈی ایم کو بھی اوقات اوقات کا پتا چلا گیا۔ عشق کا جادو چلتا ہے دریا کے اس پار سے بھی۔ ہم تو بائی بک سے انکار پر بائی ہک اینڈ بائی کروک۔ کا محاورہ اخذ کر چکے تھے دیکھیے حساب برابر ہو چکا ہے حکومت کی عزت بحال ہو گئی اور اپوزیشن کے پاس بھی جواز آ گیا کہ عوام کو مطمئن کر سکیں گے کہ جیتے تو اصل میں وہی ہیں چیئرمین سنجرانی رہیں گے ۔ اس بات پہ آپ کو یقینا حیران ہونا چاہیے کہ آپ کے ایوان بالا کے لوگوں کو ووٹ ڈالنے کا بھی شعور نہیں یا پھر کچھ زیادہ ہی سمجھ ہے کہ ووٹ ضائع کرنے کی سائنس باقاعدہ پڑھائی جاتی ہے۔ کہتے ہیں یہ پیپلز پارٹی کی وفاقی حیثیت کو مزید آگے لے جانے سے روکا گیا ہے اور شرارت سے شہباز شریف کا نام لیا جا رہا ہے۔ ویسے تو سیاست میں سب چلتا ہے کہ چلے ہوئے کارتوس بھی اس میں چل جاتے ہیں۔ تاہم نواز شریف کی تقریر اور مریم نواز کو محدود کرنے والی بات کا جواب بہت ضروری ہے ۔ میں نے تو بے نظیر کی شہادت پر کہا تھا: ابھی بہار کا نشہ لہو میں رقصاں تھا کیف خزاں نے ہر اک شے کے ہاتھ پیلے کئے معزز قارئین!میںچاہتا ہوں کہ اب ذرا سیاست سے ہٹ کر کوئی تعمیری اور سود مند بات کی جائے۔ ان لوگوں کی بات کی جائے جو اپنی زندگیوں کو عمل میں ڈھال چکے ہیں اور وہ جو انسانیت کی خدمت پر یقین رکھتے ہیں کہ یہ خدا والے ہیں خدمت سے خدا ملتا ہے یہی زمین کا بوجھ اٹھانے والے روشن ہیں چراغوں کو جلانے والے ۔ میں یہ ذرا سی تمہید الخدمت فائونڈیشن کے لئے باندھی ہے: جن کی آنکھوں میں ہوں آنسو انہیں زندہ سمجھو پانی مرتا ہے تو دریا بھی اتر جاتے ہیں تو میں بتانا چاہتا ہوں کہ الخدمت کے فعال نمائندے شعیب ہاشمی نے مجھے موقع فراہم کیا کہ ایک مختصر سی نشست جناب محمد عبدالشکور سے ہو جائے وہ ایک عرصہ سے الخدمت کے چیئرمین ہیں ان سے پہلے بھی کچھ نشستیں ہو چکی ہیں۔ مثلاً جب وہ بنگلہ دیش کے دورے سے واپس آئے وہ فلاح انسانیت کے اجتماعات اور کانفرنسز میں جاتے رہتے ہیں۔ الخدمت کے کارہائے نمایاں اتنے ہیں کہ اگر بیان کروں تو ایک کالم ناکافی ہے۔ آپ کووڈ۔19کے حوالے سے تقریب میں گورنر چودھری محمد سرور کی اس بات سے اندازہ لگا سکتے ہیں کہ ایک صد پچاس کے قریب فلاحی تنظیموں میں سب سے زیادہ الخدمت نے اپنی خدمات لوگوں تک پہنچائیں محمد عبدالشکور صاحب نے بتایا کہ ان دنوں وہ یتیم بچوں کی طرف اپنی توجہ مبذول کر رہے ہیں۔ حضورؐ نے دو انگلیو کو جوڑتے ہوئے فرمایا، یتیم کی کفالت کرنے والا قیامت کے روز یوں میرے ساتھ ہو گا۔ اس وقت الخدمت کے تحت 40ہسپتال 53 میڈیکل سنٹر اور 121 لیبارٹریز کام کر رہیں ۔ تھرپارکر میں 436 فری میڈیکل کیمپ ہیں ان سے 74لاکھ سے زیادہ مریض استفادہ کر چکے۔ تعلیم کے میدان میں باصلاحیت بچوں کے لئے فلاحی سکالرشپ کا قیام عمل میں لایا گیا ہے۔881بچے وظائف پا چکے ہیں۔ صاف پانی کے لئے140واٹر فلٹریشن پلانٹ‘ 2012کنویں‘ 7,607ہینڈ پمپ 1103یہ مووی یعنی ڈاکومنٹری تو ہمیں دکھائی گئی کہ تھر کے علاقے میں اسی سولر پمپ کے ذریعہ زمینوں کو آباد کیا گیا۔ دل خوش ہو گیا کہ جیسے جنگل میں منگل چار پانچ ایکڑ پر مشتمل قطعات صحرا میں جیسے نخلستان۔ الخدمت کے آغوش سنٹرز بہت اہم ہیں۔1,149بچے رہائش پذیر ہیں۔ ایک بچے کا خرچہ 12000ہزار ماہانہ اٹھتاہے۔ گزشتہ رمضان میں 126,899 خاندانوں میں خشک راشن تقسیم کیا گیا۔ 1672 معذور افراد کو ویل چیئر زدی گئیں 24,467 خاندانوں کو ونٹر پیکیج دیا گیا۔ بہت کچھ ہے کیا کیا لکھوں سب سے بڑی بات یہ ہے کہ اس تنظیم پر لوگوں کا اعتبار اور اعتماد ہے ۔ میں خود ہر سال زکوٰۃکے لیے اسی ادارے کو فوقیت دیتا ہوں۔ ان کے پاس خدمت گار بھی ہزاروں میں ہیں: اب جس کے جی میں آئے وہی پائے روشنی ہم نے تو دل جلا کے سرعام رکھ دیا سب سے بڑی بات یہ کہ وہ اپنے رضا کاروں کے لئے تربیت کا انتظام کرتے ہیں تربیت یافتہ کی تعداد 25253ہے۔33تربیتی ورکشاپس ہیں۔ الخدمت کے اداروں سے ایک کروڑ سے زیادہ لوگ مستفید ہوئے سچی بات ہے میں تو الخدمت کی نئی عمارت دیکھ کر حیرت زدہ رہ گیا ۔ کئی شعبے بنائے گئے ہیں الخدمت کسی بھی مذہبی یا دوسرے امتیاز کے بغیر سب کیلئے اپنا دامن کشادہ کئے ہوئے ہیں۔ 1990ء سے اس کا سفر شروع ہوا محمد عبدالشکور صاحب نے بتایا کہ پہلے آمدن کا 70فیصد باہر سے پیدا کرتے تھے اور ملک سے 30فیصد اب آ کے الٹ ہو گیا ہے 70فیصد ملک سے اور 30فیصد باہر سے یہ نہیں کہ باہر کے پیسے کم ہو گئے۔ بلکہ یہاں مخیر حضرات بڑھ گئے بہت خوشی اس بات پر ہوئی کہ الخدمت کی عمارت کا ایک پورشن نعمت اللہ خاں کے نام سے منسوب کیا گیا۔ نعمت اللہ خان کا دور کراچی کا سنہرہ دور تھا۔ میرے معزز قارئین خود ہی فیصلہ کریں کہ ایک طرف سیاستدان جو کچھ کر رہے ہیں دوسری طرف محمد عبدالشکور جیسے لوگ ہیں جو لاکھوں لوگوں کی فلاح کے لئے کام کر رہے ہیں۔ ان زندہ لوگوں کے ساتھ ملیے اور ان کے دست و بازو بنیے اور اپنی آخرت سنواریے یہ لوگ سیاست نہیں کرتے اللہ سے معاملہ کرتے ہیں۔ آصف شفیع کا شعر: تم اپنی سلطنت کہتے ہو جس کو وہاں سکہ ہمارا چل رہا ہے