موجودہ حکومت کو بنے آٹھ ماہ ہو چکے ہیں، اس دوران وزیر اعظم عمران خان سے لے کر نیچے تک حکومتی عہدیداروں کا بس یہی ایک بیانیہ ہے کہ پچھلی حکومت لوٹ کر کھا گئی، بیڑہ غرق کر گئی، لہٰذا عوام پر جو افتاد گزررہی ہے اس کے ذمہ دار سابق حکمران ہیں ۔ستم ظریفی یہ ہے کہ سابق حکمرانوں کا کڑا احتسا ب کر نے جسے وہ بدترین انتقامی کارروائیاں قرار دیتے ہیں ،کے علاوہ حکومت کا کوئی ویژن نظرنہیں آ رہا ۔ ڈنگ ٹپاؤ باتیں، یوٹرن،لیپا پوتی اور سٹنٹ بازی سے کام چلانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ اس صورتحال کا سب سے زیادہ افسوسناک پہلویہ ہے کہ غریب عوام کی گردن بیلنے میں آئی ہوئی ہے ۔ مہنگائی اورافراط زر میں اضافہ ریکارڈ قریباًدس فیصد تک پہنچ گیا ہے جو گزشتہ برس کی شرح کے مقابلے میں دوگنا سے بھی زیا دہ ہے ۔ برآمدات جمود کا شکار ہیں اور ریونیو کا شاٹ فال اتنا زیادہ ہے کہ شاید تاریخ میں پہلے کبھی نہ تھا ۔اب حکومتی ایوانوں سے بھی یہ آوازیں آنا شروع ہو گئی ہیں کہ عوام صبر کر یں اکانومی ٹھیک ہو نے میں ابھی کچھ وقت لگے گا ۔ وزیر خزانہ اسد عمر نے واشنگٹن میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہو ئے یہ بات تسلیم کی ہے کہ پاکستانی اکانومی کا سالہا سال کا سٹرکچرل مسئلہ ہے یعنی نظام ہی خراب ہے ،گویا بالواسطہ طور پر یہ تسلیم کیا جا رہا ہے کہ یہ ایک حکومت کا مسئلہ نہیں ہے ۔بات بھی درست ہے اورموجودہ حکومت کو یہ احساس ہو گیا ہو گا کہ پاکستانی معیشت کو موجودہ اقتصا دی ڈھانچے کے تحت چلانا انتہائی مشکل کام ہے ۔ آ ئی ایم ایف اپنا پیکیج دینے کے لیے پاکستان پر انتہائی کڑی شرائط عا ئد کر رہا ہے اور بعض اطلاعات کے مطابق آ ئی ایم ایف کے عہدیدار مصر ہیں کہ چائنہ پاکستان اقتصادی راہداری ’سی پیک‘ کے مکمل کو ائف فراہم کئے جائیں اور ٹھوس یقین دہا نی کرا ئی جائے کہ آ ئی ایم ایف کا بیل آ ؤٹ پیکیج ’سی پیک ‘ کے قرضے اتارنے کے لیے استعمال نہیں ہو گا ۔یہ بھی اطلاع ہے کہ آ ئی ایم ایف ’سی پیک ‘ کے تحت پراجیکٹس کی ما لی تفصیلات مانگ رہا ہے ۔ اسی طرح پاکستان اور چین کے درمیان جے ایف تھنڈر طیاروں کی تیاری اور چین کی طرف سے آبد وزوں کی فرا ہمی اور ایٹمی پلانٹس کی تفصیلات مانگی جا رہی ہیں ۔اگر یہ اطلا عا ت درست ہیں تو آئی ایم ایف کی شرائط ماننا بلاواسطہ طور پر بھارت کا تسلط ماننے کے مترادف ہو گا ۔بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کی جانب سے کہا گیا ہے کہ سٹیٹ بینک کو خود مختار بنایا جائے تاکہ وہ ڈالر کی قدر سے متعلق خود فیصلے کرے ،اسی طرح ٹیکس آمدن بڑھانے کے لیے سخت اقدامات کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ ٹیکسوں کاہدف 5 ہزار ارب روپے سے زیادہ رکھا جائے۔تنخواہ دار طبقے کے لیے ٹیکس کی چھوٹ سالانہ 12 لاکھ سے کم کر کے 4 لاکھ پر لائی جائے، بجلی اور گیس کے نقصانات کم کئے جائیں، نیپرا اور اوگرا کے فیصلوں میں حکومت مداخلت نہ کرے اور انہیں خود مختار بنائے۔ بجلی اور گیس کے 140 ارب کے واجبات عوام سے وصول کئے جائیں۔ اس گھمبیر صورتحا ل کا ادراک اور تدارک کرنے کے بجائے حکومت عوام کو ٹرک کی بتی کے پیچھے لگا رہی ہے ۔ آج کل احتساب کے عمل کے تازہ شکار سا بق وزیراعلیٰ میاں شہبا زشریف اور ان کی فیملی ہے ۔ وفاقی وزیر اطلاعات فواد چودھری ہوں یا مشیر برائے احتساب شہزاد اکبر ایک ہی رٹ لگا ئے جا رہے ہیں کہ شہبا زشر یف کی اہلیہ، صاحبزادے اور صاحبزادیاں کئی برسوں سے کروڑوں ڈالر کی منی لانڈرنگ کر رہے تھے ۔ حتیٰ کہ ڈرامہ بازی کرنے کے لیے نیب کی ایک ٹیم شہبا زشریف کے گھرانے کی خواتین کو وارنٹ دینے کے لیے ان کے گھر پہنچ گئی، اب چیئرمین نیب جسٹس(ر) جاوید اقبال نے خواتین کو طلب کرنے کے بجائے سوالنامے بھیجنے کا حکم دیا ہے۔اس سے پہلے شہباز شریف کے گھر ان کے برخوردار حمزہ شہباز کو گرفتار کرنے کے لیے نیب کی ٹیم دوناکام چھاپے مارچکی ہے ۔ میاں نواز شریف کے بعدآ صف علی زرداری اور اب شہبازشریف کی باری ہے ۔یہ دعویٰ تو نہیں کیا جا سکتا کہ شریف فیملی پوتر ہے،اصولی طور پر برسراقتدار کو کاروبار نہیں کرنا چاہئے لیکن بدقسمتی سے پاکستان میں سیاست کے ساتھ کاروبار کرنے کی ناپسندیدہ روایت بن چکی ہے،کوئی بھی سیاسی جماعت اس سے مبرا نہیں ہے مگر لگتا ہے کہ کچھ اعلیٰ حکومتی حلقے پریشان ہیں کہ کہیں ان کی مسلسل ناکامیوں کے پس منظر میں شہبا زشریف کو جو عملی طور پر اسٹیبلشمنٹ کی لائن لیتے ہیں متبادل قیادت کے طور پر ہی نہ آگے لے آیا جائے ۔ اس کے باوجود کہ اٹھارہویں ترمیم متفقہ طور پر آئین میں شامل کی گئی تھی ،بھانت بھانت کی بولیاں بولی جا رہی ہیں۔ کہا جا رہا ہے کہ18ویں ترمیم کی وجہ سے وفاق قلاش ہو گیا ہے لہٰذا اس میں ترمیم کرنی چاہیے ۔دلچسپ بات یہ ہے کہ ایم کیو ایم جو اس تر میم کی منظور ی سے قبل اس کی حمایت میںپیش پیش تھی اب اتنی ہی شد ت سے مخالفت کرتے ہوئے اس میں مزید ترامیم کی وکالت کر رہی ہے ۔ دوسر ی طرف صدارتی نظام حکومت کے حق میں بھی شدومد سے دلائل دیئے جا رہے ہیں ۔آ ئین کوئی آسمانی صحیفہ نہیں کہ اس میں ترمیم نہ کی جاسکے۔اس میں ترامیم اتفاق رائے سے ہی کی جا سکتی ہیں جس کا موجودہ دور میں مکمل فقدان ہے۔ جہاں تک صدارتی نظام کا تعلق ہے، جمہوری پارلیمانی وفاقی نظام طے شدہ امر ہے اور اس کو چھیڑنا نیا پنڈورا باکس کھولنے کے مترادف ہو گا۔ویسے بھی فوجی ادوار عملی طور پر صدارتی نظام ہی تھے ۔ جنرل ضیا ء الحق کے دور میں 1973ء کے آئین میںآ رٹیکل 58ٹوبی شامل کرنا بھی صدر کو ویٹو پاور دینے کے مترادف تھا جس کے بے مہابا استعمال سے پارلیمانی جمہوری نظام کو نہیں چلنے دیا گیا اور اسی مضبوط مرکز اور صدارتی نظام کے تحت ایوب خان کی پالیسیوں کے نتیجے میں 1971ء میں ملک دولخت ہو گیا تھا ۔ویسے بھی یہ مباحث اس لحاظ سے بے کارہیں کہ موجودہ حکمران جما عت کے پاس پارلیمنٹ میں وہ اکثریت ہی نہیں جس کی بنا پر آئین میں ترمیم کی جا سکے۔ گویا کہ اس قسم کی تجاویز دینے والے عناصر بلا واسطہ طور پر سارے سسٹم کو ہی تج کر نے کا عندیہ دے رہے ہیں ۔یقینا قوم اور بیشتر سیاسی حلقے اس رجعت قہقری کا ساتھ نہیں دیں گے ۔ویسے بھی18ویں ترمیم ہو یا صدارتی نظام ، اصل بات گورننس ہے کیونکہ جب تک عوام کے بنیادی مسا ئل اور اقتصادی معاملات حل نہیں کئے جاتے کوئی نظام بھی کامیاب نہیںہوسکتا ۔ حال ہی میں پنجاب میں بیوروکریسی میں بنیادی تبدیلیاںکی گئی ہیں اور وفاقی سطح پر بھی اس قسم کی تبدیلیوں کا عندیہ دیا جا رہا ہے ۔ بعض اطلاعات کے مطابق تو وفاقی اور پنجاب کی کابینہ میں بھی تبد یلیاں متوقع ہیں ۔بالخصوص اسد عمر کے بارے میں حکومت کے اندر بھی ایک ایسی لابی موجود ہے جو ان کی تبدیلی کی خواہشمند ہے لیکن بنیادی مسئلہ یہی ہے کہ عمران خان کا ویژن کیا ہے؟ کیونکہ گزشتہ آٹھ ماہ تو ناکامی کی ہی کہانی ہیں ۔وفاقی وزیر پارلیمانی امور بریگیڈئیر (ر) اعجاز شاہ نے جو پرویز مشرف کے دور میں ڈی جی آئی ایس آئی پنجاب ،ہوم سیکرٹری پنجاب اور ڈی جی آئی بی بھی رہ چکے ہیں خبردار کیا ہے کہ اگر اپوزیشن نے اس گرمی میں سڑکوں پر نکلنے کی کوشش کی توان کی خوب چھترول ہو گی ۔ اللہ کرے ایسا وقت نہ آ ئے کیونکہ فی الحال تو نواز شریف اور آصف زرداری مولانا فضل الرحمن کی اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ کر نے کی تجویز سے متفق نہیں ہیں کہیں ایسا نہ ہو کہ موجودہ صورتحال میں عوام کا پیمانہ صبر لبریز ہو جائے اور وہ سڑکوں پر نکلنے پر مجبور ہو جا ئیں ۔ اس صورت میں اپوزیشن کے پاس بھی اس کے سوا کوئی چارہ کار نہیں ہو گا کہ وہ پارلیمنٹ کے بجائے سڑکوں پر نکل آئے ۔لہٰذا بہتر ہو گا کہ حکومت دھمکیاں دینے کے بجائے اپنا گھر ٹھیک کرے۔